21.8.16

جھوٹے مدعیان نبوت 
 عن  ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال لا تقوم الساعۃ حتٰی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول اللہ  ( صحیحین)
احادیث مبارکہ کی روشنی میں  قیامت تک  مختلف ادوار میں نبوت کا دعویٰ کرنیوالے کذاب (جھوٹے) ظایر یونگے۔۔ لہذا ہر دور میں ایسے کذاب پیدا ہوئے اور ہوئے اور واصل جہنم ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Add caption
اسود عنسی(11ھ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا
مسلمی کذاب(12ھ) ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا
مختار ثقفی (27ھ) ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا
حارث کذاب ومشقی(29ھ) ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا
مغیرہ عجلی (119ھ) ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا
بیان بن سمعان تمیمی (119ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہار فرید نیشاپوری نے نبوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسحاق اخرس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد سیس خراسانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی بن محمد خارجی (208ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابک بن عبد اللہ (222ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی بن فضل یمنی(303ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبد العزیز باسندی (322ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حامیم مجلسی (329ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو منصور عسی برغواطی(329ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصغر تغلبی (439ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد بن قسی (520ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔
عبد الحق مرسی (228ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبد العزیز طرابلسی (717ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ان میں چند کے علاوہ سب کے سب قتل کردیے گئے اور کچھ کو قید کیا گیا اور وہی  جیل میں ہلاک ہوئے ۔۔۔
بایزید روشن (990ھ)۔۔۔۔بہاء اللہ نوری (1308ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔غلام احمد قادیانی (1326ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوسف کذاب۔۔۔۔
          اسد شاہ   (1437ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

26.8.11

سات ستمبر، قادینیوں کو کافر قرار دینے کا قانون منظور ھونے کادن



سات ستمبر، قادینیوں کو کافر قرار دینے کا قانون منظور ھونے کادن

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بلاشبہ چودھویں صدی کا سب سے بدترین اور غلیظ فتنہ ،فتنئہ قادیانیت تھا، چھونکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے برطانوی استعمار اور انگریز کی چھتری کے سائے میں دعوٰی نبوت کیا تھا ، اسلئے وہ اور اسکے ماننے والے مست ہاتھی کی طرح کسی کو خاطر میں لانے کے روادار نہ تھے۔


یہ انکی غلط فہمی تھی کہ وہ جو کہیں گے یا کریں گے ، انکی زبان ہا ہاتھ روکنے کی کسی میں جراءت نہیں ھوگی، چنانچہ قادیانیت کی تاریخ اٹھا کر دیکھئے ! تو مرزا قادیانی کے دعوٰی نبوت سے لے کر اسکی موت اور اسکے بعد حکیم نورالدین اور مرزا بشیر الدین محمود کے دور تک وہ کسی وائسرائے سے کم نظر نہیں آتے ، ان کے تحکم وتعلی آمیز دعوؤں سے ایسا لگتا ھے کہ وہ مسلمانوں کو ناکوں چنے چبوائیں گے۔


ان کی اس فرعونیت کا کرشمہ تھا کہ 1952 میں مرزا بشیر الدین محمود نے اعلان کیا کہ ہم پورے پاکستان کو نہیں تو کم از کم صوبہ بلوچستان کو قادیانی اسٹیٹ بنا کر رہیں گے۔


چنانچہ جب مرزا بشیر الدین نے یہ راگ الاپا تو مجلس عمل کے مرکزی رہنماؤں حضرت امیر شریعت مولاناسیدعطا ء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ، مولاناسیّد ابوالحسنات قادری رحمہ اللہ ،صاحبزادہ سید فیض الحسن رحمہ اللہ ، تاج الدین انصاری رحمہ اللہ اور مولاناحامد بدایونی
جانثاران ختم نبوت نے سر پر کفن باندھ کر غداران ختم نبوت و پاکستان کے خلاف میدان سنبھال لیا اور اعلان کیا کہ ہمارے جیتے جی قادیانیت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ھوگا ۔



دوسری جانب قادیانی سورما اپنے آقاؤں کی تائید و حمایت سے جارحیت پر اتر آئے، حکومت پاکستان اور وقت کے حکمران خواجہ ناظم الدین نے کھل کر قادیانیوں کی سرپرستی اور مسلمانوں کی مخالفر کی، 1953 میں مسلمانوں کی مبنی برحق تحریک کو دبانے کے لئے حکومت کے مظالم کی انتہا کردی، صرف لاھور میں دس ھزار مخلصین نے جام شہادت نوش کیا ،(سبحان اللہ) ۔۔اگرچہ وقتی طور پر یہ تحریک دب گئی ، مگر مسلمانوں کے پاک اور پاکیزہ لہو کے انتقام نے ان تمام سورماؤں کے اقتدار کا دھڑن تختہ کردیا اور ایسے ظالم ایک ایک کر کے اپنے انجام کو پہنچ گئے۔


اس تحریک کے وقتی طور پر دب جانے سے قادیانیوں کے دماغ خراب ھوگئے اور انہوں نے 1974 میں ربوہ اسٹیشن پر نشتر کالج کے طلبہ کی بوگی پر حملہ کر کے نہتے اور معصوم طلبہ کو" ختم نبوت زندہ باد " کے نعرے کا "مزہ چکھانے" کی غرض سے جب ان کو لہو لہان کیا تو قدرت نے ان کے غرور کو خاک میں ملانے اور مسلمانوں کی 90 سالہ جدوجہد کو قامیابی سے ہمکنار کرنے کا فیصلہ فرمالیا، یوں پورے ملک میں قادیانیوں کے خلاف بے زاری اور نفرت کی فضاء پیدہ ھوگئی اور ملک بھر سے یہ مطالبہ ھونے لگا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے، ان کو کلیدی عہدوں سے برطرف کیا جائے اور ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں کا تدارک کیا جائے۔


چنانچہ یہ ہر مسلمان کی آواز اور مطالبہ تھا ، دوسری طرف قادیانی 1971 کے انتخابات میں بھٹو حکومت کے حلیف تھے، بلاشبہ یہ جہاں مسلمانوں کے لئے مشکل کی گھڑی تھی وہاں بھٹو حکومت کے لئے دہرا عذاب تھا، ایک طرف پوری قوم کا مطالبہ اور آواز تھی اور دوسری جانب اس کی حلیف جماعت کا معاملہ تھا ۔

اپنے طور پر بھٹو نے بھی خواجہ ناظم الدین کی طرح اس تحریک کو دبانے کی بھرپور کوشش کی ، مگر چونکہ آسمان پر قادیانیت کی ذلت کا فیصلہ ھوچکا تھا اور تقدیر کا قلم چل چکا تھا ، اس لئے بھٹو حکومت کی کوئی تدبیر کارگر نہ ھوئی تو مجبوراً بھٹو صاحب نے قومی اسمبلی کو عدالت کا درجہ دے کر اس مسئلے کا فیصلہ اسمبلی کے حوالے کردیا۔

ان کا خیال تھا کہ اسمبلی میں زیادہ تر لوگ اس کے ہم خیال ہیں، اس لئے قادیانیوں کے خلاف فیصلہ نہیں ھوگا، مگر بھٹو صاحب کا یہ خواب شرمندہ نہ ھوسکا اور مسلسل 13 دن جرح کے بعد 7 ستمبر 1974 کو متفقہ طور پر طے پایا کہ قادیانیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، چنانچہ قانون میں ترمیم کرکے قرار دیا گیا کہ " ہر گاہ یہ قرین مصلحت ہے کہ بعد ازیں درج ذیل اغراض کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں مزید ترمیم کی جائے،"


لہٰذہ بزریعہ ہٰزہ حسب زیل قانون وضع کیا جاتا ھے:


**مختصر عنوان اور آغاذ نفاذ


1۔۔۔یہ ایکٹ آئین (ترمیم دوم) ایکٹ 1974 کہلائے گا،

2 ۔۔۔ یہ فی الفور نافذ العمل ھوگا،

**آئین کی دفعہ 106 میں ترمیم :


اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں ، جسے بعد ازیں آئین کہا جائے گا۔ دفعہ 106 کی شق (3) میں لفظ فرقوں کے بعد الفاظ اور قوسین اور قادیانی جماعت یا لاھوری جماعت کے اشخاص (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) درج کئے جائیں گے۔



** آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم :


آئین کی دفعہ 260 میں شق (2) کے بعد حسب زیل نئی شق درج کی جائے گی نعنی (3) جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو آخری نبی و رسول ہیں ، کے خاتم النبین ھونے پر قطعی اور غیر مشروط ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ھونے کا دعوٰی کرتا ھے یا ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ھے ۔ وہ آئین یا قانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ھے ۔"


بلاشبہ سات ستمبر کا دن جہاں شہدائے ختم نبوت اور جاں نثاران ختم نبوت کی قربانیوں کی یاد دلاتا ھے ، وہاں مسلمانوں کی 90 سالہ جدو جہد کی تاریخ ساز کامیابی کی سرخروی کا دن بھی ہے، اسی طرح سات ستمبر دراصل قادیانیت کی 90 سالہ ظلم و ستم کی سیا رات کے خاتمہ کی روشن صبح ھے، جس پر جتنی بھی خوشی اور مسرت کا اظہار کیا جائے کم ھے ۔


اسکے علاوہ ہماری وہ نسلیں جو 1953 ،1974، 1984 کے وقت تھیں ، اب قریباً عملی طور پر دست کش ہیں ، لہٰذہ ہمارہ فرض ھے کہ ہم اپنی نسلوں اور خصوصاً نوجوانوں کو مسئلہ قادیانیت ، قادیانی مظالم اور مسلمانوں کی جدوجہد سے آگاہ کریں اور بتلائیں کہ ان آستین کے سانپوں سے ھوشیار رہیں ، کہیں ایسا نہ ھو وہ تمہیں اور تمہاری نسلوں کو ڈس لیں۔


فتنہ انکار ختم نبوت کو کفرو ارتداد قرار دینے اور اُس کے خلاف سب سے پہلے علم جہاد بلند کرنے کا اعزاز جانشین رسول خلیفہ اوّل سیّدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا اور اُن کے بعد یہ اعزاز اُنہی کی اولاد امجاد میں علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو نصیب ہوا۔







7 ستمبر 1974ءکو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو اُن کے کفریہ عقائد کی بناءپر غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور یوں نوّے سالہ فتنہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔


چنانچہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قادیانیوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں اور ان کے اسلام کی خلاف ہرزہ سرائیوں،مضحکہ خیزیوں اور کفریہ عقائد و عزائم کا بھر پور محاصرہ کیا جائے اور ان کیلئے راہ فرار کے تمام دروازے بند کردیئے جائیں اور قادیانیت کی حقیقی گھناؤنی تصویر اور اسلام دشمن شرمناک کردار لوگوں کے سامنے رکھا جائے،آج اس کام کیلئے ہم سب کو اپنا بھرپور،فعال اور متحرک کردار ادا کرنا ہوگا،دعا ہے کہ اللہ کریم فتنہ قادیانیت کی سرکوبی اور بیخ کنی کیلئے ہمیں بھی اپنے اسلاف کی طرح سرفروشانہ کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بحر مة خاتم النیین سیّد المرسلیٰن وعلی و آلہ و اصحابہ اجمعین



20.8.11

قادیانیوں کے افکار اور عقائد :

قادیانیوں کے افکار اور عقائد  
:

- مرزاغلام احمدقادیانی نے اپنی نشاطات کا آغاز بطور ایک اسلامی داعی کے شروع کیں تا کہ اس کے ارد گرد لوگ جمع ہوجائیں اوراس کی جماعت بن جائے، پھر اس نے یہ دعوی کردیا کہ وہ مجدد ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے اسے احلام ہوتا ہے ، پھر اس کے بعدایک قدم اورآگے بڑھ کر یہ دعوی کردیا کہ وہ مھدی منتظر اور مسیح موعود ہے ، پھر اس کے بعد نبوت کا دعوی کردیا اور اس کا خیال یہ تھا کہ اس کی نبوت ( نعوذ بااللہ ) ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے اعلی اور زیادہ بہتر ہے ۔
- قادیانیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی روزے رکھتا اور نماز پڑھتا اور سوتا اورجاگتا ، لکھتااور غلطی کرتا اورمجامعت کرتا ہے ، اللہ تعالی ان سب عیوب سے جو وہ کہتے ہيں منزہ اور پاک ہے ۔
- مرزا قادیانی کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا الہ انگریز ہے اس لیےکہ وہ اس سے انگلش میں مخاطب ہوتا ہے ۔
- قادیانیوں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم نہیں ہوئ بلکہ جاری ہے ، اور اللہ تعالی حسب ضرورت رسول بھیجتا ہے اور یہ کہ مرزاغلام احمد قادیانی سب انبیاء سے افضل نبی ہے ۔
- قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد پر جبریل علیہ السلام نازل ہوتے اور اس پر وحی نازل کرتے تھے ، اوریہ کہ اس کے الہامات قرآن کر طرح ہیں۔
اور انکا کہنا ہے کہ قرآن وہی ہے جسے مسیح موعود ( مرزا غلام احمد ) نے پیش کیا ہے ، اورحديث وہی ہے جو کہ قادیانی کی تعلیمات کے مطابق ہونگی اورسب نبی مرزا غلام احمد قادیانی کی سراداری میں ہیں ۔
- ان کا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ ان کی کتاب " کتاب مبین " نازل شدہ ہے ۔
- ان کا یہ اعتقاد ہے کہ وہ ان کا دین نیا اور ایک مستقل دین ہے اور وہ نئےدین کے مالک اور ان کی شریعت مستقل ہے ، اور مرزا غلام احمد کے پیرو کار کادرجہ صحابہ کا ہے ۔
- وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ قادیان مدینہ شریف اور مکہ مکرمہ کی طرح بلکہ ان سے افضل ہے ، اور قادیان کی زمین حرم اور ان کا حج قادیان میں ہے ، اور یہ ہی ان کا قبلہ ہے ۔
- جھاد فی سبیل اللہ کو منسوخ قرار دیتے ہیں ، اور انگریزی حکومت کی اندھی اطاعت کا مطالبہ کرتے ہیں ، اس لیےکہ ان کے گمان میں وہ ولی الامر ہیں جو کہ نص قرآنی سے ثابت ہے ۔
- ان کے نزدیک ہر مسلمان کا فر ہے حتی کہ وہ قادیانیت میں داخل ہو جائے، اور اسی طرح جس نے کسی غیرقادیانی سے شادی کرلی یا اسے اپنی بیٹی دے دی تو وہ کافر ہے ۔
- وہ شراب ، افیون ، اور سب نشہ والی اشیاء اور مسکرات کو جائز قرار دیتے ہیں


مرزا غلام احمد قادیانی کی کفریات



- نبوت کا دعوی ۔
- استعماری قوت کی خدمت کے لیےجھاد فی سبیل اللہ کا منسوخ کرنا ۔
- مکہ مکرمہ سے حج کرنا ختم کرکے اسے قادیان کی طرف لےجانا ۔
- اللہ تعالی کو بشر کے ساتھ تشبیہ دینا ۔
- تناسخ ارواح اور حلول کا عقید ہ رکھنا ۔
- اللہ تعالی کی طرف اولاد کی نسبت کرنا اور یہ کہنا کہ وہ الہ کا بیٹا ہے
- محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت سے انکار بلکہ نبوت کا دروازہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے لیے کھولنا ۔
- قادیانیوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ، اور اسرائیل نے ان کے لیے دعوتی مراکز اور مدارس کھولے اور انہیں قادیانیت کے نام سے مجلہ نکالنے اور اپنا لٹریچر اور کتابیں طبع کرکے پوری دنیا میں پھیلانے کا موقع فراہم کرنا ۔
- قادیانیت کا یھودیت اور عیسائیت اورباطنی تحریکوں سے متاثر ہونا جو کہ ان کے عقائد اور سلوک میں واضح ہے باوجود اس کے کہ وہ ظاہری طور پر اسلام کا دعوی کرتے ہیں ۔

قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا

قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا

محمد متین خالد
گذشتہ دنوں اسپیکر قومی اسمبلی محترمہ فہمیدہ مرزا نے اپنے خصوصی اختیارات کے تحت سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے متعلق پارلیمنٹ کے بند کمرے کے اجلاس میں ہونے والی بحث کے ریکارڈ کو 36 سال بعد اوپن کرنے کی منظوری دے دی ہے، جبکہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے معاملے پر پارلیمنٹ کے حالیہ بند کمرے کے اجلاس میں ہونے والی بحث سیل کر دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ذرائع کے مطابق بھٹو دور میں 1974ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے سے متعلق پارلیمنٹ کے بند کمرے کا اجلاس تقریباً ایک ماہ سے زائد جاری رہا تھا۔ جس کے نتیجہ میں قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد کی بناء پر ملک کی منتخب جمہوری حکومت نے متفقہ طور پر 7 ستمبر1974 کو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا اورآئین پاکستان کی شق 160(2) اور 260(3) میں اس کا اندراج کردیا۔ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر بحث کا تمام ریکارڈ اسی وقت سیل کردیا گیا تھا۔ یہ شرط رکھی گئی تھی کہ اسے تیس سال سے کم کے عرصے میں اوپن نہیں کیا جائے گا۔ اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے اب اس وقت کی بحث کے ریکارڈ کو لائبریری میں رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسمبلی ترجمان نے بتایا کہ اس وقت بحث کا تمام ریکارڈ پرنٹنگ کے مراحل میں ہے اور جلد اسے لائبریری کا حصہ بنا دیا جائے گا۔
قادیانی 1974ء سے لے کر اب تک یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ اگر یہ کارروائی شائع ہو جائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہو جائے گا۔ قومی اسمبلی کی یہ کارروائی اوپن ہونے سے قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا۔ لیکن حیرت ہے کہ اس خبر سے قادیانیوں کے ہاں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ کیونکہ اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار مرحوم نے ایک سوال پر کہ ’’قادیانیوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ روداد شائع ہوجائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہوجائے گا۔‘‘ کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ کارروائی ان کے خلاف جاتی ہے۔ ویسے وہ اپنا شوق پورا کرلیں، ہمیں کیا اعتراض ہے۔ ان دنوں ساری اسمبلی کی کمیٹی بنادی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ ساری کارروائی سیکرٹ ہوگی تاکہ لوگ اشتعال میں نہ آئیں۔ میرے خیال میں اگر یہ کارروائی شائع ہوگئی تو لوگ قادیانیوں کو ماریں گے۔‘‘ (انٹرویو نگار منیر احمد منیر ایڈیٹر ’’ماہنامہ آتش فشاں‘‘ لاہور، مئی 1994ئ) سابق اٹارنی جنرل اور معروف قانون دان جناب یحییٰ بختیار نے جس لگن، جانفشانی اور قانونی مہارت سے امت مسلمہ کے اس نازک اور حساس کیس کو لڑا، قادیانی شاطر سربراہوں پر طویل اور اعصاب شکن جرح کے بعد جس طرح ان سے ان کے عقائد و عزائم کے بارے میں سب کچھ اگلوایا، بلکہ اعتراف جرم کروایا، وہ انہی کا حصہ ہے جس پر وہ صد ستائش کے مستحق ہیں۔ بلاشبہ ان کی یہ خدمت سنہرے حروف سے لکھی جانے کے قابل ہے۔ لیکن اس کے برعکس قادیانیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کارروائی کے نتیجہ میں قومی اسمبلی کا کوئی ایک رکن بھی قادیانی نہیں ہوا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے اجلاس سے واک آئوٹ نہیں کیا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے قادیانیوں کی حمایت نہیں کی۔ اس کے برعکس نہ صرف تمام ارکان نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا بلکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر کی ٹیم میں شامل ایک معروف قادیانی مرزا سلیم اختر چند ہفتوں بعد قادیانیت سے تائب ہو کر مسلمان ہو گیا۔ حالانکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر پوری ٹیم کے ساتھ مکمل تیاری سے بڑی خوشی سے قومی اسمبلی گیا۔ اس کے اسمبلی کے اندر داخل ہونے کا انداز بڑا فاتحانہ، تکبرانہ اور تمسخرانہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ میں تاویلات اور شکوک و شبہات کے ذریعے اسمبلی کو قائل کر لوں گا، مگر بری طرح ناکام رہا۔ قادیانی قیادت نے قومی اسمبلی کے تمام اراکین میں 180 صفحات پر مشتمل کتاب ’’محضر نامہ‘‘ تقسیم کی جس میں اپنے عقائد کی بھرپور ترجمانی کی۔ اس کتاب کے آخری صفحہ پر ’’دعا‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے: ’’دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے معزز ارکان اسمبلی کو ایسا نور فراست عطا فرمائے کہ وہ حق و صداقت پر مبنی ان فیصلوں تک پہنچ جائیں جو قرآن و سنت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوں۔‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قادیانیوں کی دعا قبول ہوئی تو وہ قومی اسمبلی کا یہ فیصلہ قبول کیوں نہیں کرتے؟ اور اگر دعا قبول نہیں ہوئی تو وہ جھوٹے ہیں۔
قادیانی اعتراض کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی کی اس کارروائی کو اِن کیمرہ، خفیہ کیوں رکھا گیا۔ یہ کارروائی اخبارات میں روزانہ کیوں شائع نہ ہوئی؟ اس سوال کا جواب قومی اسمبلی کے اس وقت کے سپیکر جناب صاحبزادہ فاروق علی خان نے اپنے ایک انٹرویو میں دیتے ہوئے کہا:
’’بحث اور کارروائی کے دوران ایسی باتوں کے پیش آنے کا بھی امکان تھا کہ اگر منظرعام پر آئیں تو مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی۔ قادیانی فرقوں کے رہنمائوں کو بھی بلانا تھا۔ ان کا نقطۂ نظر بھی سننا تھا۔ ظاہر ہے وہ جو کچھ کہتے، مسلمانوں کو ہرگز اتفاق نہ ہوتا۔ لہٰذا کارروائی خفیہ ہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ناموس رسالت کا مسئلہ نازک اور حساس ہے۔ مسلمان جان بھی قربان کر دینا ایک انتہائی معمولی بات سمجھتا ہے، لہٰذا کسی بھی خطرناک جذباتی صورتحال سے بچنے کے لیے اس کارروائی کو خفیہ رکھنا ہی مناسب تھا۔ حضور رسالت مآب ﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ امت کو جو والہانہ عشق ہے، اس کو زبان و قلم سے بیان کرنا ناممکن ہے۔ اس خفیہ بحث کا فیصلہ کھلا تھا اور اس فیصلے سے ملت اسلامیہ آج تک مطمئن ہے۔‘‘ (قومی اسمبلی کے سابق سپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان سے اختر کاشمیری صاحب کا انٹرویو، روزنامہ ’’جنگ‘‘ جمعہ میگزین 3 تا 9 ستمبر 1982ئ)
قادیانی کہتے ہیں یہ ایک یکطرفہ فیصلہ تھا۔ یہ بات لاعلمی اور تعصب پر مبنی ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوری نظام حکومت میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کا فیصلہ شاید دنیا کا واحد اور منفرد واقعہ ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو پارلیمنٹ میں آ کر اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے بلایا۔ جہاں اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے اس پر، قادیانی کفریہ عقائد کے حوالہ سے جرح کی۔ مرزا ناصر نے اپنے تمام عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ تاویلات کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا۔ لہٰذا ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے 13 دن کی طویل بحث و تمحیص کے بعد آئین میں ترمیم کرتے ہوئے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا لیکن قادیانیوں نے حکومت کے اس فیصلہ کو آج تک تسلیم نہیں کیا بلکہ الٹا وہ مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور انھیں سرکاری مسلمان ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ وہ خود کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور آئین میں دی گئی اپنی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ اس وقت اراکین اسمبلی کی اکثریت زانی اور شرابی تھی۔ انھیں کوئی حق حاصل نہ تھا کہ وہ ایسا فیصلہ کرتے۔ قادیانیوں سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے اس وقت اسمبلی کا بائیکاٹ کیوں نہ کیا؟ کیا انہیں وہاں زبردستی لے جایا گیا تھا؟ حالانکہ وہ تو وہاں گئے ہی اس لیے تھے کہ قومی اسمبلی جو بھی فیصلہ کرے گی، ہمیں قبول ہو گا۔ عجیب بات ہے کہ اگر قادیانیوں کو پارلیمنٹ غیر مسلم اقلیت قرار دے تو وہ زانی اور شرابی، اگر سپریم کورٹ انہیں کافر قرار دے تو یہ کہنا کہ یہ تو انگریزی قانون پڑھے ہوئے ہیں، انھیں شریعت کا کیا علم؟ اور اگر علمائے کرام انہیں غیر مسلم کہیں تو یہ اعتراض کہ ان کا تو کام ہی یہی ہے۔



قادیانی کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20 کے تحت ہر شہری کو مذہبی طور پر آزادی اظہار ہے۔ آپ کسی پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ قادیانیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ (نعوذ باللہ) قرآن مجید میں نئے حالات کے مطابق تبدیلی کر دی گئی ہے۔ اس میں سے کئی آیات خارج کر دی گئی ہیں اور کئی آیات شامل کر دی گئی ہیں اور پھر وہ اس نئے قرآن کی تبلیغ و تشہیر بھی کرے تو کیا اس شخص پر پابندی لگنی چاہیے یا نہیں؟ اگر وہ یہ کہے کہ مجھے آئین کے تحت آزادی اظہار ہے تو کیا اسے یہ اجازت دینی چاہیے؟ پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ہر شخص کو کاروبار کی مکمل آزادی ہے مگر ہیروئن اور منشیات وغیرہ فروخت کرنا سختی سے منع ہے۔ کیا یہ آزادی پر پابندی ہے؟ آزادی چند حدود و قیود کے تابع ہوا کرتی ہے۔ آپ اپنا ہاتھ ہلانے میں آزاد ہیں، جب اور جس طرح چاہیں، اسے ہلا سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے ہاتھ ہلانے سے کسی دوسرے کا چہرہ زخمی ہوتا ہے تو پھر اس کی آزادی کہاں گئی؟ لہٰذا آزادی ایک حد تک ہے۔ آزادی بے لگام یا شتر بے مہار ہو جائے تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دورحکومت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود قادیانی مسلسل شعائر اسلامی استعمال کرتے ہیں۔ غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کو مسجد، مرزا قادیانی کو نبی اور رسول، مرزا کی بیوی کو ام المومنین، مرزا قادیانی کے دوستوں کو صحابہ کرام، قادیان کو مکہ مکرمہ، ربوہ کو مدینہ، مرزا قادیانی کی باتوں کو احادیث مبارکہ، مرزا قادیانی پر اترنے والی نام نہاد وحی کو قرآن مجید، محمد رسول اللہ سے مراد مرزا قادیانی مراد لیتے ہیں۔ چنانچہ 26 اپریل 1984ء کو حکومت نے مسلمانوں کے پرُزور مطالبہ پر ایک آرڈیننس جاری کیا گیا جس میں قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے قانوناً روکا گیا۔ اس آرڈیننس کے نتیجہ میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/B اور 298/C کے تحت کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا، اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتا، اپنے مذہب کی تبلیغ و تشہیر نہیں کر سکتا، شعائر اسلامی استعمال نہیں کر سکتا۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ 3 سال قید اور جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہوگا۔ قادیانیوں نے اپنے خلیفہ مرزا طاہر کے حکم پر آرڈیننس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پورے ملک میں شعائر اسلامی کی توہین کی اور آرڈیننس کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائی۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان کے اکثر شہروں میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہوئی۔ قادیانی قیادت نے اس آرڈیننس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ



قادیانیوں پر پابندی بالکل درست ہے۔ اس کے بعد قادیانیوں نے چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس میں چیلنج کیا، یہاں پر بھی عدالتوں نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ آرڈیننس بالکل قانون کے مطابق ہے۔ قادیانیوں کو آئین میں دی گئی اپنی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے شعائر اسلامی استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ آخر میں قادیانیوں نے ان تمام فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ہمیں آئین کے مطابق آزادی کا حق حاصل ہے، لیکن ہمیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ لہٰذا عدالت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/B اور 298/C کو کالعدم قرار دے۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس کیس کی مفصل سماعت کی۔ دونوں طرف سے دلائل دیے گئے۔ قادیانیوں کی اصل کتابوں سے متنازعہ ترین حوالہ جات پیش کیے گئے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ ظہیر الدین بنام سرکار (1993 SCMR 1718) میں قرار دیا کہ کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا اور نہ اپنے مذہب ہی کی تبلیغ کر سکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ سزا اور جرمانے کا مستوجب ہوگا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ جج صاحبان کسی دینی مدرسہ یا اسلامی دارالعلوم کے استاد نہیں تھے بلکہ انگریزی قانون پڑھے ہوئے تھے۔ ان کا کام آئین و قانون کے تحت انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے۔ فاضل جج صاحبان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قادیانی اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ دھوکہ دینا کسی کا بنیادی حق نہیں ہے اور نہ اس سے کسی کے حقوق یا آزادی ہی سلب ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں لکھا: ’’ ہر مسلمان کے لیے جس کا ایمان پختہ ہو، لازم ہے کہ رسول اکرم ؐ کے ساتھ اپنے بچوں، خاندان، والدین اور دنیا کی ہر محبوب ترین شے سے بڑھ کر پیار کرے۔‘‘ (’’صحیح بخاری ‘‘ ’’کتاب الایمان‘‘، ’’باب حب الرسول من الایمان‘‘) کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو مورد الزام ٹھہرا سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا دل آزار مواد جیسا کہ مرزا صاحب نے تخلیق کیا ہے سننے، پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے؟ ’’ہمیں اس پس منظر میں قادیانیوں کے صد سالہ جشن کی تقریبات کے موقع پر قادیانیوں کے اعلانیہ رویہ کا تصور کرنا چاہیے اور اس ردعمل کے بارے میں سوچنا چاہیے، جس کا اظہار مسلمانوں کی طرف سے ہو سکتا تھا۔ اس لیے اگر کسی قادیانی کو انتظامیہ کی طرف سے یا قانوناً شعائر اسلام کا اعلانیہ اظہار کرنے یا انہیں پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ اقدام اس کی شکل میں ایک اور ’’رشدی‘‘ (یعنی رسوائے زمانہ گستاخ رسول ملعون سلمان رشدی جس نے شیطانی آیات نامی کتاب میں حضور ﷺ کی شان میں بے حد توہین کی) تخلیق کرنے کے مترادف ہوگا۔ کیا اس صورت میں انتظامیہ اس کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ضمانت دے سکتی ہے اور اگر دے سکتی ہے تو کس قیمت پر؟ رد عمل یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی قادیانی سرعام کسی پلے کارڈ، بیج یا پوسٹر پر کلمہ کی نمائش کرتا ہے یا دیوار یا نمائشی دروازوں یا جھنڈیوں پر لکھتا ہے یا دوسرے شعائر اسلامی کا استعمال کرتا یا انہیں پڑھتا ہے تو یہ اعلانیہ رسول اکرم ؐ کے نام نامی کی بے حرمتی اور دوسرے انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کی توہین کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کا مرتبہ اونچا کرنے کے مترادف ہے جس سے مسلمانوں کا مشتعل ہونا اور طیش میں آنا ایک فطری بات ہے اور یہ چیز نقض امن عامہ کا موجب بن سکتی ہے، جس کے نتیجہ میں قادیانیوں کے جان و مال کا نقصان ہو سکتا ہے۔‘‘ (ظہیر الدین بنام سرکار1993 SCMR 1718ئ)
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں مزید لکھا: ’’ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ قادیانیوں کو اپنی شخصیات، مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب، القاب یا نام وضع کرنے میں کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخر کار ہندوئوں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر برادریوں نے بھی تو اپنے بزرگوں کے لیے القاب و خطاب بنا رکھے ہیں اور وہ اپنے تہوار امن و امان کا کوئی مسئلہ یا الجھن پیدا کیے بغیر پرُامن طور پر مناتے ہیں۔‘‘ (ظہیر الدین بنام سرکار1993 SCMR 1718ئ)
افسوس ہے کہ قادیانی آئین میں دی گئی اپنی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اس صورتحال میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ قادیانیوں کو آئین اور قانون کا پابند بنائے تاکہ ملک بھر میں کہیں بھی لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا نہ ہو۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا قول ہے کہ قانون پر عملدرآمد ہی اصل قانون ہے۔

3.8.11

گستاخان رسول کے ٹکڑے .......قاری محمد یعقوب شیخ

گستاخان رسول کے ٹکڑے .......قاری محمد یعقوب شیخ
 
عتیبہ اپنے باپ ابو لہب اور ماں ام جمیل (اروی) کی طرح رسول اللہ کی ایذا رسانی، گستاخی اور بے ادبی میں آگے آگے تھا، نبی آخر الزمان کے خلاف بدکلامی کرنے میں بڑا بے باک تھا۔ اس نے ایک دن بڑی ناپاک جسارت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کو پھاڑ ڈالا اور آپ پر تھوکنے کی کوشش کی مگر ناکام و نامراد ہوا اس بہیمانہ گستاخی پر آپ نے اس کے خلاف بددعا فرمائی۔ اللھم سلط علیہ کلباًمن کلابک۔ اے میرے اللہ! اس پر اپنے کتوں میں سے کوئی کتا مسلط کر دے۔
قارئین کرام! پھر کیا ہوا؟ ایک مرتبہ مکہ سے شام کی طرف ایک تجارتی قافلہ روانہ ہوا جس میں یہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھا، راستے میں الزرقاءنامی جگہ پر قافلے نے پڑاﺅ ڈالا۔ جنگل کا ماحول تھا، خوف ناک فضا تھی، عتیبہ مارے ڈر کے کانپنے لگا کیونکہ اس کو رسول اللہؓ کی بددعا یاد آ رہی تھی۔ قافلہ والوں نے اونٹوں کے حصار میں بڑی حفاظت کے ساتھ پہرہ کا اہتمام کرتے ہوئے اس کو سلا دیا۔ رات کے وقت ایک محب رسول شیر اس گستاخ رسول عتیبہ کے تعاقب میں نکل آیا، سارے قافلے والے پریشان اور دہشت زدہ ہو گئے۔ عتیبہ کو اپنی جان کی پڑ گئی وہ بدحواس ہو کر چیخنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر یہ بات بار بار کہہ رہا تھا کہ یہ شیر مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کی بدولت کھا جائے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا جس کی توقع یہ گستاخ رسول کر رہا تھا۔
شیر سارے قافلہ کو پھلانگتا ہوا کسی اور کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر پہنچاتا ہوا اس ظالم عتیبہ کی طرف جھپٹا اور پل بھر میں اس کے اسی طرح ٹکڑے کر دیئے جس طرح اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کے ٹکڑے کئے تھے۔ اس گستاخ کا انجام پورے قافلہ نے دیکھا، کوئی بھی اس کی مدد کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا، اونٹوں کا حصار پہرہ داروں کا نیزہ و تلوار کسی کام نہ آ سکے سب ناکام مگر! اللہ تعالیٰ کے حکم سے آنے والا محب رسول شیر کامیاب ہو گیا۔
دنیا کی ہر باطل قوت اور گستاخ ملک کا حال و حشر اسی طرح ہو گا جس طرح عتیبہ کا ہوا، اللہ تعالیٰ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرے گا۔ ڈنمارک، ناروے اور ان کے پشتیبان ممالک نے عتیبہ کی تاریخ کو تازہ کرتے ہوئے توہین کی غرض سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہوئے نبی آخر الزمان کی طرف منسوب کرتے ہوئے جو خاکے شائع کئے ہیں بلکہ ان کی بار بار اشاعت کی جو مذموم حرکت کی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان ممالک کی عمر اب بہت ہی تھوڑی ہے۔ یہ جلد اپنے وجود سے ہاتھ دھو لیں گے اور اپنا اقتدار کھو بیٹھیں گے۔ جس طرح کسریٰ (خسرو) سب کچھ کھو بیٹھا تھا۔
قارئین کرام! نبی( صلی اللہ علیہ وسلم) نے تربیت و اصلاح کی غرض سے ابلاغ حق کیلئے شاہ فارس کسری کو خط لکھا، اس خط کو لے جانے کیلئے سیدنا عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو سفیر منتخب فرمایا۔ خط کسری تک پہنچا، پڑھ کر سنایا گیا جس کی ابتداءکچھ یوں ہے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد رسول اللہ کی طرف سے کسریٰ عظیم فارس کی جانب! ہر اس شخص پر سلام، جو ہدایت کو قبول کرے پیروی کرے۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔
میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، کیونکہ میں پوری انسانیت کیلئے اس کا رسول ہوں جو شخص زندہ ہے اسے انجام بد سے ڈرایا جائے اور کافروں پر اتمام حجت ہو جائے، تم اسلام لاﺅ سالم رہو گے اگر انکار کیا تو تم پر مجوس کا بھی گناہ ہو گا۔
خط سننے کے بعد کسریٰ نے اس کو چاک کر دیا اور نہایت متکبرانہ گستاخانہ انداز میں بولا: میری رعایا کا سب سے حقیر غلام اپنا نام مجھ سے پہلے اور میرا بعد میں لکھتا ہے....! حضرات! یہ خط کوئی عام خط نہ تھا، رسول اللہ کا خط تھا، اہم ترین دستاویز تھی قیمتی کلمات تھے جن کی لاج نہ رکھی گئی بے ادبی کی گئی اس کو حرمت کا خیال نہ رکھا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: اے اللہ! اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے“۔
کسریٰ نے اپنے یمن کے گورنر باذان کو لکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر کے میرے پاس حاضر کیا جائے اور اس کام کیلئے دو مضبوط آدمی روانہ کئے جائیں۔ باذان نے تعمیل کرتے ہوئے آپ کی طرف ایک خط دیکر دو آدمی روانہ کئے اور حکم دیا کہ ان دونوں کے ہمراہ آپ کسریٰ کے پاس حاضر ہو جائیں۔ وہ دونوں خط لیکر آپ کے پاس آئے کسری کا زبانی حکم نامہ سناتے ہوئے وہ مکتوب بھی، پیش کر دیا جو کسریٰ کے روبرو حاضر ہونے کا حکم نامہ باذان نے دیا تھا۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ملاقات کیلئے کل حاضر ہو جائیں۔ ادھر مدینہ منورہ میں یہ دلچسپ صورتحال تھی ، ادھر خسرو (کسریٰ) کے خلاف اس کے گھر میں بغاوت کا (علم) جھنڈا بلند ہو چکا تھا، جس کے نتیجے میں قیصر کی فوج کے ہاتھوں فارسی شکست کھا رہے تو ان حالات میں کسری (خسرو) کو اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کر کے خود اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے اپنے رسول کو سارا واقعہ بتا دیا۔ صبح ہوئی، دونوں فارسی باشندے حاضر ہوئے، آپ نے انہیں اس واقعہ کی خبر سنائی، دونوں نے پریشان ہو کر کہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کی بات ہم اپنے بادشاہ کو تحریر کر دیں؟ آپ نے فرمایا ہاں، میری اس بات کی خبر کر دو اور یہ بھی کہہ دوں کہ میرا دین اور میری حکومت وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک کسریٰ پہنچ چکا ہے بلکہ اس سے بھی آگے جہاں تک اونٹ اور گھوڑے کے قدم بھی نہیں جا سکتے اور اس کو جا کر کہنا کہ اگر تم مسلمان ہو جاﺅ تو جو کچھ تمہارے اقتدار میں ہے وہ میں تمہیں دے دوں گا اور تم کو تمہاری قوم کا بادشاہ بنا دوں گا۔ وہ دونوں مدینہ شریف سے روانہ ہوئے، باذان کے پاس پہنچے، سارا واقعہ اس کو سنایا، تفصیلات سے آگاہ کیا، تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ایک خط آیا کہ شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کر کے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اس خط میں شیرویہ نے یہ ہدایت بھی کی تھی کہ جس شخص کے بارے میں میرے باپ نے تمہیں لکھا تھا تا حکم ثانی ان کو کچھ نہ کہا جائے۔ اس واقعہ کی وجہ سے باذان اور اس کے ساتھیوں نے جو یمن میں تھے، اسلام قبول کر لیا۔ باذان کو اسلام نصیب ہوا، کسریٰ کو ذلت و پستی کی موت ملی۔ خود بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور ملک بھی ٹکڑوں میں تقسیم ہوا۔ اس کی موت اشاعت اسلام کیلئے بڑی کارگر ثابت ہوئی۔ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا جو اس کافر کے خلاف تھی وہ رنگ لائی، گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگ گئی۔ اہل یورپ کو یہ بات قطعاً بھولنی نہیں چاہئے کہ جو کچھ وہ گستاخی رسالت میں کر رہے ہیں اس کی سزا ان کو ملنی ہے۔ ان کی اولاد ان کو قتل کرے گی یہ خانہ جنگی کا شکار ہوں گے، درندے ان کوپھاڑیں گے اور اللہ کے فدائی دستے محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربی کے غلام اب ان پرچڑھ دوڑیں گے کیونکہ کافروں نے ان کی ایمانی غیرت کو للکارا ہے جس سے اب جہاد فی سبیل اللہ کا دروازہ کھل چکا ہے۔ اس سے یہ دین یورپ میں غالب ہو گا اور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک اونٹ اور گھوڑے کے قدم بھی نہیں جا سکتے۔

3.7.11

7 ستمبر:قادیانیوں کے خلاف تاریخی فیصلہ

    

   7 ستمبر:قادیانیوں کے خلاف تاریخی     فیصلہ

  حضرت محمد مصطفی اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اوررسول ہیں۔ آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی تشریعی‘ غیرتشریعی‘ ظلی‘ بروزی یا نیا نبی نہیں آئے گا۔ آپ کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کری‘ وہ کافر‘ مرتد‘ زندیق اور واجب القتل ہے۔ قرآن مجید کی ایک سو سے زائدآیات ِمبارکہ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریباً دوسو دس احادیث ِمبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس بات پر ایمان ”عقیدہ ¿ ختم نبوت“ کہلاتا ہے۔ ختم نبوت اسلام کا متفقہ‘ اساسی اور اہم ترین بنیادی عقیدہ ہے۔ دین اسلام کی پوری عمارت اس عقیدے پر کھڑی ہے۔ یہ ایک ایسا حساس عقیدہ ہے کہ اگر اس میں شکوک و شبہات کا ذرا سا بھی رخنہ پیدا ہوجائے تو ایک مسلمان نہ صرف اپنی متاعِ ایمان کھو بیٹھتا ہے بلکہ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے بھی خارج ہوجاتا ہے۔ پوری امت ِمسلمہ کا اس امر پر اجماع ہے کہ سب سے اوّل نبی حضرت آدم علیہ السلام اور سب سے آخری حضرت محمد مصطفیٰ ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں جھوٹے مدعیانِ نبوت اور ان کے پیروکار ہمیشہ تاویلات اور جھوٹی باتوں کو بنیاد بناکر دینِ اسلام میں تبدیلی وتحریف کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ منکرینِ ختم نبوت اپنی شپرہ چشمی کو آفتاب‘کج فہمی کو دلیل‘ بکاین کو انگور‘ زہرکو امرت‘ ظلمت کو اجالا اور پیتل کو زرِخالص تسلیم کروانے پر مُصر رہے مگر امت ِمسلمہ نے دینِ اسلام میں ذرا سی بھی تبدیلی‘ تحریف یاکمی بیشی کو گوارا نہ کیا۔ بلکہ ہر قسم کے مشکل اور نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے دل وجان سے عقیدہ ¿ ختم نبوت کی حفاظت کی اور منکرینِ ختم نبوت کے خلاف بھرپور جہاد کیا۔ موجودہ دور میں منکرینِ ختم نبوت کا گروہ فتنہ ¿ قادیانیت کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس فتنے کا بانی آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی تھا جس نے انگریزوں کے اشارے پر ملت اسلامیہ کو پارہ پارہ کرنے کی ناپاک سازشیں کیں۔ مرزا قادیانی اور اس کے پیروکاروں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور شعائرِ اسلامی کی توہین بھی شروع کردی۔ اسلام اور اس کی مقدس شخصیات کے خلاف قادیانیوں کی گستاخیوں اور ہرزہ سرائیوں کو اکٹھا کیا جائے تو کئی دفتر تیار ہوسکتے ہیں۔ پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئرمارشل ظفرچوہدری نے جہازوں کی ایک ٹولی کی قیادت کرتے ہوئے 1973ءمیں قادیانی جلسہ میں اپنے ”خلیفہ“ مرزا ناصرکو سلامی دی تھی‘ اس موقع پر قادیانی خلیفہ نے اپنے پیروکاروں کو خوشخبری دی کہ ”پھل پک چکا ہی....جلد ہی ہماری جھولی میں گرنے والاہی“۔ قادیانیوں کے کفریہ عقائدکی بناءپر ملک کی منتخب جمہوری حکومت نے متفقہ طور پر 7 ستمبر 1974ءکو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور آئین پاکستان کی شق (2) 160 اور (3) 260 میں اس کا اندراج کردیا۔ جمہوری نظام میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ دنیا کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ حکومت نے فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصرکو پارلیمنٹ کے سامنے اپنا مو ¿قف پیش کرنے کا پورا پورا موقع دیا۔ یحییٰ بختیار کی جرح کے دوران مرزا ناصر احمد نے اپنے ان تمام مذہبی عقائدکو تسلیم کیا جس پر پوری امت ِ مسلمہ کو قادیانیوں سے نہ صرف شدید اختلاف ہے بلکہ وہ اسے اپنے مذہب میں مداخلت بھی سمجھتے ہیں‘ اور یہی وجہ ہے کہ قادیانیوں کے ان عقائد کی سرعام تبلیغ وتشہیرکی وجہ سے ملک ِ عزیز میں کئی بار لاءاینڈ آرڈرکی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قادیانی پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی حکومت‘ پارلیمنٹ یا کوئی اور ادارہ انہیں ان کے عقائد کی بناءپر غیر مسلم قرار نہیں دے سکتا بلکہ الٹا وہ مسلمانوںکوکافر اور خود کو مسلمان کہتے ہیں اور آئین میں دی گئی اپنی حیثیت تسلیم نہیں کرتے۔ قادیانی آئینی طور پر غیر مسلم ہونے کے باوجود بھی سرعام شعائر اسلامی کی بے حرمتی اور اپنے باطل مذہب کی تبلیغ وتشہیرکرتے رہے۔ چنانچہ اس سے روکنے کے لیے 26 اپریل 1984ءکو حکومت پاکستان نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس کی رو سے قادیانی اپنے مذہب کے لیے اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کرسکتے۔ اس سلسلے میں تعزیرات ِپاکستان میں دفعہ 298/B‘ میں 298/C کا اضافہ کیاگیا جس کی رو سے کوئی قادیانی خودکو مسلمان نہیں کہلواسکتا‘ نہ ہی اپنے مذہب کو بطور اسلام پیش کرسکتا ہے اور نہ ہی شعائر اسلامی کا استعمال کرسکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ 3 سال قید اور جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہوگا۔ قادیانیوں نے اس پابندی کو وفاقی شرعی عدالت‘ لاہورہائی کورٹ‘ کوئٹہ ہائی کورٹ وغیرہ میں چیلنج کیا جہاں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بالآخر قادیانیوں نے پوری تیاری کے ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائرکی کہ انہیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے اس کیس کی مفصل سماعت کی۔ دونوں طرف سے دلائل و براہین دیے گئے۔ اصل کتابوں سے متنازع ترین حوالہ جات پیش کیے گئے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے یہ جج صاحبان کسی دینی مدرسہ یا اسلامی دارالعلوم کے مفتی صاحبان نہیں تھے بلکہ انگریزی قانون پڑھے ہوئے تھے۔ ان کا کام آئین وقانون کے تحت انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے۔ فاضل جج صاحبان نے جب قادیانی عقائد پر نظر دوڑائی تو وہ لرزکر رہ گئے۔ فاضل جج صاحبان کا کہنا تھا کہ قادیانی اسلام کے نام پرلوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ کے تاریخی فیصلے ظہیرالدین بنام سرکار‘ (1993 SCMR 1718) کی رو سے کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلواسکتا اور نہ ہی اپنے مذہب کی تبلیغ کرسکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ تعزیرات ِپاکستان کی دفعہ 298-C کے تحت 3 سال قید کا مستوجب ہے۔ اس کے باوجود قادیانی آئین‘ قانون اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑاتے ہوئے خودکو مسلمان کہلواتی‘ اپنے مذہب کی تبلیغ کرتی‘ گستاخانہ لٹریچر تقسیم کرتی‘ شعائر اسلامی کا تمسخر اڑاتے اور اسلامی مقدس شخصیات و مقامات کی توہین کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قادیانیوں کی ان آئین شکن‘ خلاف ِقانون اور انتہائی اشتعال انگیز سرگرمیوں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرمانہ غفلت اور خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے بعض اوقات لاءاینڈ آرڈرکی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ خود سپریم کورٹ کے فل بینچ نے اپنے نافذالعمل فیصلے میں لکھا: ”ہر مسلمان کے لیے جس کا ایمان پختہ ہو‘ لازم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے بچوں‘ خاندان‘ والدین اوردنیا کی ہرمحبوب ترین شے سے بڑھ کر پیارکرے۔“ (صحیح بخاری“، ”کتاب الایمان“، ”باب حب الرسول من الایمان“) کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو مورد الزام ٹھیرا سکتا ہے اگر وہ ایسا دل آزار مواد جیسا کہ مرزا صاحب نے تخلیق کیا ہے سننی‘ پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی؟ اگر کسی قادیانی کو انتظامیہ کی طرف سے یا قانوناً شعائر اسلام کا علانیہ اظہارکرنے یا انہیں پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ اقدام اس کی شکل میں ایک اور ”رشدی“ (یعنی رسوائے زمانہ گستاخِ رسول ملعون سلمان رشدی جس نے شیطانی آیات نامی کتاب میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے حد توہین کی) تخلیق کرنے کے مترادف ہوگا۔ کیا اس صورت میں انتظامیہ اس کی جان‘ مال اور آزادی کے تحفظ کی ضمانت دے سکتی ہی؟ اور اگردے سکتی ہے تو کس قیمت پر؟ ردعمل یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی قادیانی سرعام کسی پلے کارڈ‘ بیج یا پوسٹر پرکلمہ کی نمائش کرتا ہے یا دیوار یا نمائشی دروازوں یا جھنڈیوں پر لکھتا ہے یا دوسرے شعائر اسلامی کا استعمال کرتا یا انہیں پڑھتا ہے تو یہ علانیہ رسول اکرم کے نام نامی کی بے حرمتی اور دوسرے انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کی توہین کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کا مرتبہ اونچا کرنے کے مترادف ہے جس سے مسلمانوں کا مشتعل ہونا اورطیش میں آنا ایک فطری بات ہی‘ اور یہ چیز نقص امن عامہ کا موجب بن سکتی ہی‘ جس کے نتیجے میں جان ومال کا نقصان ہوسکتا ہے۔“ ”ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ قادیانیوںکو اپنی شخصیات‘ مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب‘ القاب یا نام وضع کرنے میں کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخرکار ہندوﺅں‘ عیسائیوں‘ سکھوں اور دیگر برادریوں نے بھی تو اپنے بزرگوں کے لیے القاب وخطاب بنارکھے ہیں۔“ (ظہیرالدین بنام سرکار 1993 SCMR 1718)۔ افسوس ہے کہ قادیانی آئین میں دی گئی اپنی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں اورسپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اس صورت حال میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ قادیانیوں کو آئین اور قانون کا پابند بنائے تاکہ ملک بھر میں کہیں بھی لاءاینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا نہ ہو۔

جھوٹے مدعیان نبوت   عن  ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال لا تقوم الساعۃ حتٰی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول ...