اعلیٰ حضرت عظیم البرکتہ مجدد ماتہ حاضرہ رحمتہ اللہ علیہ کی ذات گرامی تیرھویں صدی کی واحد شخصیت تھی جو ختم صدی سے پہلے علم و فضل کا آفتاب فضل و کمال ہو کر اسلام کی تبلیغ میں عرب و عجم پر چھا گئی اور چوہودیں صدی کے شروع ہی میں پورے عالم اسلام میں ان کو حق و صداقت کا منارئہ نور سمجھا جانے لگا۔ ملت اسلامیہ کو اعتراف ہے کہ اس فضل و کمال کی گہرائی اور اس علم راسخ کے کوہ بلند کو آج تک کوئی نہ پا سکا۔
پیدائش
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ 10 شوال المکرم 1372ھ، مطابق 14 جون 1856ءہفتہ کے روز ہندوستان کے مشہور شہر بریلی شریف میں پیدا ہوئے۔ اور آپ کا پیدائشی اسم مبارک محمد رکھا گیا۔
علمی بصیرت
مولانا سید سلمان اشرف صاحب بہاری مرحوم مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاءالدین صاحب کو لے کر جب اس لئے حاضر خدمت ہوئے کہ ایشیا بھر میں ڈاکٹر صاحب ریاضی و فلسفہ میں فرسٹ کلاس کی ڈگری رکھتے ہوئے ایک مسئلہ حل کرنے میں زندگی کے قیمتی سال لگا کر بھی حل نہ کر پائے تھے، اور فیثا غورثی فلسفہ کشش ان پر چھایا ہوا تھا۔ تو اعلیٰ حضرت نے عصر و مغرب کی درمیانی مختصر مدت میں مسئلہ کا حل بھی قلم بند کرا دِیا فلسفہ کشش کی کھینچ تان کو بھی قلمبند فرما دیا جو رسالہ کی شکل میں چھپ چکا ہے۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب حیران تھے کہ ان کو یورپ کا کو ئی تھیوریوں والا درس دے رہا ہے یا اس ملک کا کوئی حقیقت آشنا ان کو سبق پڑھا رہا ہے۔ انہوں نے اس صحبت کے تاثرات کو اجمالاً ان الفاظ میں ظاہر کیا تھا کہ ”اپنے ملک میں جب معقولات کا ایسا ایکسپرٹ موجود ہے توہم نے یورپ جا کر جو کچھ سیکھا اپنا وقت ضائع کیا۔“
اس ایک مثال سے آپ کے تبحر علم اور علمی بصیرت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
علوم عقلیہ
یہ روز کامعمول تھا کہ فلکیات و ارضیات کے ماہرین اپنی علمی مشکلات کو لے کر آتے اور دم بھر میں حل فرما کر ان کو شاد شاد رخصت فرما دیتے۔یہ بھی دیکھا گیا کہ ماہرین فن نجوم آئے اور فنی دشواریوں کو پیش کیا تو اعلیٰ حضرت نے ہنستے ہوئے اس طرح جواب دے کر خوش کر دیا کہ گویا یہ دشواری اور اس کا حل پہلے سے فرمائے ہوئے تھے۔
محدث کچھو چھوی رحمتہ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ ”ایک بار صدرا کہ مایہ ناز (مقامات) شکل حماری اور شکل عروسی کے بارے میں مجھ سے سوال فرما کر جب کتاب کی (وہی کےفیت؟) دیکھی تو اپنی تحقیق بیان فرمائی تو میں نے محسوس کیا کہ حماری کی حماریت بے پردہ ہو گئی اور عروسی کا عرس ختم ہو گیا۔ مسئلہ بخت و اتفاق شمس بازغہ کا سرمایہ تفلف ہے۔ مگر اس بارے میں اعلیٰ حضرت کے ارشادات جب مجھ کو ملے تو اقرار کرنا پڑا کہ ملا محمود اگر آج ہوتے تو اعلیٰ حضرت کی طرف رجوع کرنے کی حاجت محسوس کرتے۔ اعلیٰ حضرت نے کسی ایسے نظریے کو کبھی صحیح سلامت نہ رہنے دیا جو اسلامی تعلیمات سے متصادم رہ سکے اگر آپ وجود فلک کو جاننا چاہتے ہوں اور زمین و آسمان دونوں کا سکون سمجھنا چاہتے ہوں اور سیاروں کے بارے میں کل فی فلک یسبحون کو ذہن نشین کرنا چاہتے ہوں تو ان رسائل کا مطالعہ کریں جو اعلیٰ حضرت کے رشحات قلم ہیں اور یہ راز آپ پر ہر جگہ کھلتا جائے گا کہ منطق و فلسفہ و ریاضی والے اپنی راہ کے کسی موڑ پر کج رفتار ہو جاتے ہیں۔
افتاءکی خداداد عظیم صلاحیت
عادت کریمہ تھی کہ استفتاءایک ایک مفتی کو تقسیم فرما دیتے اور یہ صاحبان دن بھر محنت کر کے جوابات مرتب کرتے۔ پھر عصر و مغرب کی درمیانی مختصر ساعت میں ہر ایک سے پہلے استفتاء پھر فتویٰ سماعت فرماتے اور بیک وقت سب کی سنتے۔ اسی وقت مصنّفین بھی اپنی تصنیف دکھاتے اور زبانی سوال کرنے والوں کو بھی اجازت تھی کہ جو کہنا چاہیں کہیں اور جو سنانا ہو سنائیں۔ اتنی آوازوں میں اس قدر جداگانہ باتیں اور صرف ایک ذات کو سب کی طرف توجہ فرمانا جوابات کی تصحیح و تصدیق اور اصلاح، مصنّفین کی تائید و تصحیح اغلاط، زبانی سوالات کے تشفی بخش جوابات عطا ہو رہے ہیں اور فلسفیوں کی اس خبط لا یصدر عن الواحد الا الواحد (ایک ہستی سے ایک وقت میں ایک ہی چیز صادر ہو سکتی ہے) کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ جس ہنگامہ سوالات و جوابات میں بڑے بڑے اکابر علم و فن سر تھام کر چپ ہو جاتے ہیں کہ کس کس کی سنیں اور کس کس کی نہ سنیں، وہاں سب کی شنوائی ہوتی تھی اور سب کی اصلاح فرما دی جاتی تھی، یہاں تک کہ ادبی خطا پر بھی نظر پڑ جاتی تھی اور اس کو درست فرمادیا کرتے تھے۔
حیرت انگیز قوت حافظہ
یہ چیز روز پیش آتی تھی کہ تکمیل جواب کے لئے جزئیات فقہ کی تلاش میں جو لوگ تھک جاتے تو عرض کرتے۔ اسی وقت فرما دیتے کہ ردالمحتار جلد فلاں کے صفحہ فلاں کی سطر فلاں میں ان لفظوں کے ساتھ جزئیہ موجود ہے۔ درمختار کے فلاں صفحہ فلاں سطر پر یہ عبارت ہے۔ عالمگیری میں بقد جلد و صفحہ و سطر میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ ہندیہ میں خیر یہ میں، مبسوط میں، ایک ایک کتاب فقہ کی اصل عبارت بقید صفحہ و سطر یہ الفاظ موجود ہیں۔ ارشاد فرما دیتے۔ اب جو کتابوں میں جا کر دیکھتے ہیں تو صفحہ و سطر و عبارت وہی پاتے ہیں جو زبان اعلیٰ حضرت نے فرمایا تھا۔ اس کو آپ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ خداداد قوت حافظہ سے ساری چودہ سو برس کی کتابیں حفظ تھی ۔ یہ چیز بھی اپنی جگہ پر حیرت ناک ہے۔
حافظ قرآن کریم نے سالہا سال قرآن عظیم کو پڑھ کر حفظ کیا، روزانہ دوہرایا ایک ایک دن میں سو سو بار دیکھا، حافظ ہوا محراب سنانے کی تیاری میں سارا دن کاٹ دیا اور صرف ایک کتاب سے واسطہ رکھا۔ حفظ کے بعد سالہا سال مشغلہ رہا ہو سکتا ہے کہ حافظ کو تراویح میں لقمے کی حاجت نہ پڑی ہو۔ گو ایسا دیکھا نہیں گیا اور ہو سکتا ہے کہ حافظ صاحب کسی آیت قرآنیہ کو سن کر اتنا یاد رکھیں کہ ان کے پاس جو قرآن کریم ہے اس میں یہ آیہ کریمہ داہنی جانب ہے یا بائیں جانب ہے۔ گو یہ بھی بہت نادر چیز ہے مگر یہ تو عادتاً محال اور بالکل محال ہے کہ آیت قرآنیہ کے صفحہ و سطر کو بتایا جاسکے۔ تو کوئی بتائے کہ تمام کتب متداولہ و غیر متداولہ کے جملہ کو بقید صفحہ و سطر بتانے والا اور پورے اسلامی کتب خانے کا صرف حافظ ہی ہے یا وہ اعلیٰ کرامت کا نمونہ ربانیہ ہے جس کے بلند مقام کو بیان کرنے کے لئے اب تک ارباب لغت و اصطلاح الفاظ پانے سے عاجز رہے۔
علم قرآن
علم قرآن کا اندازہ صرف اعلیٰ حضرت کے اس اردو ترجمے سے کیجئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی کوئی مثال سابق نہ عربی زبان میں ہے نہ فارسی میں اور نہ اردو میں اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اس جگہ لایا نہیں جا سکتا۔ جو بظاہر ترجمہ ہے مگر درحقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں روح قرآن ہے۔ اس ترجمہ کی شرح حضرت صدر الافاضل استاذ العلماءمولانا نعیم الدین علیہ الرحمتہ نے حاشیہ پر لکھی ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ دوران شرح میں ایسا کئی بار ہوا کہ اعلیٰ حضرت کے استعمال کردہ لفظ کے مقام استنباط کی تلاش میں دن پر دن گذرے اور رات پر رات کٹتی رہی اور بالآخر ملا تو ترجمہ کا لفظ اٹل ہی نکلا۔اعلیٰ حضرت خود شیخ سعدی کے فارسی ترجمہ کو سراہا کرتے تھے۔ لیکن اگر حضرت سعدی اردو زبان کے اس ترجمہ کو دیکھ پاتے تو فرما ہی دیتے کہ: ترجمہ قرآن شے دےگرست و علم القرآن شے دےگر علم الحدیث و علم الرجال
علم الحدیث کا اندازہ اس سے کیجئے کہ جتنی حدیثیں فقہ حنفی کی ماخذ ہیں ہر وقت پیش نظر اور جن حدیثوں سے فقہ حنفی پر بظاہر زد پڑتی ہے اس کی روایت و درایت کی خامیاں ہر وقت ازبر۔
علم الحدیث میں سب سے نازک شعبہ علم اسماءالرجال کا ہے۔ اعلیٰ حضرت کے سامنے کوئی سند پڑھی جاتی اور راویوں کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو ہر راوی کی جرح و تعدیل کے جو الفاظ فرما دیتے تھے اٹھا کر دیکھا جاتا تو تقریب و تہذیب میں وہی لفظ مل جاتا تھا۔ اس کو کہتے ہیں علم راسخ اور علم سے شغف کامل اور علمی مطالعہ کی وسعت۔
اعلیٰ حضرت نے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ بعض لوگو ں کا ایمان بالرسل بایں معنی نہیں ہے کہ رسول پاک سید المرسلین ہیں، خاتم النبین ہیں، شفیع المذنبین ہیں، اکرم الاولین و الآخرین ہیں، اعلم الخلق اجمعین ہیں، محبوب رب العالمین ہیں۔ بلکہ صرف بایں معنی ہے کہ زیادہ سے زیادہ بڑے بھائی ہیں جو مر کر مٹی میں مل چکے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے بے اختیار اور عند اللہ بے و جاہت رہے۔ اگر ان کو بشر سے کم قرار دو تو تمہاری توحید زیادہ چمک دار ہو جائے گی۔ ان حقائق کو واضح کر دینے کا یہ مقدس نتیجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی جمہوریت اسلامیہ کی بڑی اکثریت دامن رسول سے لپٹی ہوئی ہے اور دشمنان اسلام کے فریب سے بچ کر مجر موں کے منہ پر تھوک رہے ہیں۔
فجزاہ اللہ تعالی عنا و عن سائرا ہل السنتہ و الجماع خیر الجزاء
علم فقہ میں اعلیٰ حضرت کا مقام
آپ کے علم و فضل اور خاص کر علم فقہ میں تبحر کا اعتراف تو ان اہل علم نے بھی کیا ہے جنہیں مسلک و مشرب میں آپ سے اختلاف ہے۔ مثلاً: ملک غلام علی صاحب جو سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کے معاون ہیں اپنے ایک بیان میں جسے ہفت روزہ ”شہاب “ لاہور نے ۵۲ نومبر۲۶۹۱ءکی اشاعت میں درج کیا ہے لکھتے ہیں: ”حقیقت یہ کہ مولانا احمد رضا خاں صاحب کے بارے میں اب تک ہم لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں۔ ان کی بعض تصانیف اور فتاویٰ کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو علمی گہرائی میں نے ان کے یہاں پائی وہ بہت کم علماء میں پائی جاتی ہے۔ اور عشق خدا و رسول تو ان کی سطر سطر سے پھوٹ پڑتا ہے۔“
اسی طرح اعظم گڑھ یوپی سے شائع ہونے والا ماہنامہ مجلہ ”معارف“ رقمطراز ہے: ” مولانا احمد رضا خاں صاحب مرحوم اپنے وقت کے زبردست عالم، مصنف اور فقیہ تھے۔ انہوں نے چھوٹے بڑے سینکڑوں فقہی مسائل سے متعلق رسالے لکھے ہیں۔ قرآن عزیز کاسلیس ترجمہ بھی کیا ہے ان علمی کارناموں کے ساتھ ساتھ ہزارہا فتووں کے جوابات بھی انہوں نے دیے ہیں۔“ یہ آراء ان لوگوں کی ہیں جن سے مسلکی اختلافات ہیں۔ اور جو مسلک میں متحد ہیں ان کی آراء کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم چند کلمات علمائے ربانیین و عظمائے حرمین طیبین کے اس موقع پر عرض کر دینا فائدہ سے خالی نہ ہو گا۔ اب تک تذکروں میں جن جن علماءکے نام پیش کئے گئے ہیں غالباً یہ نام ان سے جداگانہ ہیں:
(۱) شوافع کے مفتی اور امام، نقیب الاشراف اور شیخ الساد فی المدینہ المنورہ سیدی السید علوی بن السید احمد بافقیہ ارشاد فرماتے ہیں:
”افضل الفضلاءانبل النبلاء فخر السلف قدو الخلف الشیخ احمد رضا۔“
(۲) احناف کے مفتی و امام السید اسماعیل بن خلیل مدنی فرماتے ہیں۔
”شیخنا العلام المجرد شیخ الاساتذ علی الاطلاق الشیخ احمد رضا۔“
(۳) حنبلیوں کے امام و مفتی اور مسجد نبوی میں مدرس امام عبداللہ النابلسی الحنبلی ارشاد فرماتے ہیں۔
”العالم العامل الہمام الفاضل محرر المسائل و عویصات الا حکام و محکم بروج الادل بمزید اتقان و زیاد اجکام سےد الشیوخ و الفضلاءالکرام قاضی القاضا الشیخ احمد رضا خاں۔“
(۴) مالکی حضرات کے امام و مفتی، مدینہ میں دارالافتاءکے اعلیٰ نگران و حاکم سیدی احمد الجزائری ابن السید احمد المدنی ارشاد فرماتے ہیں۔
” علام الزمان و فرید الاوان و منبع العرفان و ملحظ النظار سید عدنان حضرت مولانا الشیخ احمد رضا خان۔“
یہ چار شہادتیں مفتیان مذاہب اربعہ، احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکیین مدینہ منورہ کی ہیں۔چار ہی مذاہب اربعہ کے مفتیان کرام، علمائے عظام و مدرسین بیت اللہ الحرام مکہ مکرمہ کی پیش خدمت ہیں۔
(۱) حنفیوں کے امام و مفتی، علام الزمان مولانا سید عبداللہ بن مولانا السید عبدالرحمن السراج مفتی حنفیہ مکہ مکرمہ تحریر فرماتے ہیں۔
”العام الفہام الہمام والعمد الدراک الامام ملک العلماءالاعلام الشیخ احمد رضا خان۔“
(۲) مالکیین کے امام و قاضی و مفتی و مدرس مسجد حرام کے خاص الخاص مفتی حضرت سیدی امام محمد بن حسین المالکی مفتی و مدرس دیار حرمیہ ارقام فرماتے ہیں۔
” ونشرت اعلام الانتصار علی منبر الہدایہ فی جامع الافتخار وقامت تشبت فضائل منشیہا وتنص علی مناہل مصطفیہا وکیف لا وہو احمد المہتدین رضا لازالت شموس تحقیقاتہ المرضے طالع فی سماءالشعریع السمح المحمدی۔“
(۳) مفتی امام محدث علام مدرس بیت الحرام مکہ مکرمہ و امام شافعیہ سیدی محمد صالح مدرس مسجد حرام و امام شافعیہ ارقام فرماتے ہیں۔
”فنقول ابقاہ سامیاذری مجد مخدوم العزو السبعدر افلا علل الحبور واردا موارد السرور ماترنم بمدحہ مادح صدح بشکرہ صادہ۔“
(۴) مکہ مکرمہ کے حنابلہ کے مفتی و امام اور مدرس حضرت علامہ مولانا عبداللہ بن حمید مفتی حنابلہ بمکتہ المشرفہ فرماتے ہیں۔
”العالم المتحقق المدقق لا زالت شجر علمہ نامی علی ممر الزمان و ثمر علمہ مقبول لدی الملک الدیان الشیخ احمد رضا خان۔“
حرمین شریفین کے صرف چار چار علمائے کرام کی آراء یہاں پر درج کی گئی ہیں اور اختصار کے پیش نظر انہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ورنہ ان کے علاوہ مصر و شام، عراق و یمن، الجزائر و نابلس، طرابلس و اردون وغیرہا ممالک عربیہ اسلامیہ کے فضلاء و علماءکے ایسے ہی خیالات متعدد مرتبہ شائع ہو چکے ہیں۔جب ہم آپ کی تحریرات و فتاویٰ کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ کام اس تعمق اور اس تیز رفتاری کے ساتھ کسی شخص واحد سے ممکن ہے؟
مثال کے طور پر 1323ھ کا واقعہ ہے مکہ مکرمہ برائے حج تشریف لے گئے ہیں اور ظاہر ہے کہ حج پر جانے والا اپنے ساتھ کتب فقہ و حدیث کا ذخیرہ تو نہیں لے جاتا فراغت حج کے ساتھ ہی ایک استفتاء جو پانچ سوالوں پر مشتمل تھا دیا جاتا ہے اور تقاضا یہ ہے کہ دو دن میں جواب مل جائے۔ جس کی مختصر کیفیت یہ تھی جو خود مصنف علیہ الرحمتہ نے بیان فرمائی۔
” میرے پاس بعض ہندیوں کی طرف سے پیر کے دن عصر کے وقت ۵۲ ذی الحجہ کو ایک سوال آیا --- میرے پاس کتابیں نہ تھیں اور مفتی حنفیہ سیدی صالح بن کمال کا کہنا یہ تھا کہ دو دن منگل و بدھ میں جواب مکمل ہو جائے۔ میں نے رب تبارک و تعالیٰ کی امداد و اعانت پر جواب صرف دو مجلسوں میں مکمل کیا جس میں سے مجلس اول تقریباً سات گھنٹے کی تھی اور دوسری مجلس ایک گھنٹے کی۔“
(ترجمہ الدولتہ المکیتہ)
اس استفتاءجو پانچ سوالوں پر مشتمل تھا اور جس کا جواب دو نشستوں میں جو تقریباً آٹھ گھنٹے پر حاوی تھیں تحریر کیا گیا یہ عربی زبان میں چار سو صفحات کی کتاب تھی جسے بنام تاریخی ”الدول المکی بالماد الغبی“ ۳۲-۳۱ سے موسوم فرمایا۔
اس مبارک کتاب میں جب کہ آپ کے پاس کو ئی کتاب موجود نہ تھی متعدد کتب و فتاویٰ کے حوالہ جات صفحہ وار بتائے ہیں اور محض اپنی یاداشت پر بتائے ہیں۔ یہ محض رب کریم کی وہ عنایت تھی جو وہ اپنے مقبول بندوں کو عطا فرماتا ہے۔
تصنیفات و افتائ
امام اہلسنت قدس سرہ نے اپنی عمر کے آٹھویں سال میں بزبان عربی ”ہدایت النحو“ کی شرح تحریر فرمائی اور چودہ سال کی عمر سے مسلسل فقہ پر کام کیا جو اڑسٹھ سال کی عمر تک جاری رہا۔ ایک ہزار کے قریب ضخیم کتابیں اور رسائل یاد گار چھوڑے، جو موضوع کے اعتبار سے پچاس مختلف علوم و فنون پر محیط ہیں۔ یہ پچپن سال کا دور پوری تصانیف پر منقسم کیا جائے تو روزانہ کی اوسط تحریر ساڑھے تین جزو ہوتے ہیں جن کے چھپن صفحات بنتے ہیں۔فتاویٰ رضویہ ۲۱ جلدوں میں ہے جن میں سے چار جلدیں (کتاب الطہار سے کتاب الحج تک) طبع ہو چکی ہیں۔ آٹھ ابھی شائع نہیں ہو سکیں۔ پانچویں چھپ رہی ہے۔ فتاویٰ دیکھئے تو آپ کو ایک فقیہ کی فقاہت اور ایک مفتی کی شان افتاءکا اندازہ ہوگا۔
امام بریلوی کی شعر گوئی
کتنی عجیب بات ہے کہ ایسے امام الوقت مسند العصر کے پاس جس کو رات دن کے کم سے کم بیس گھنٹے میں صرف علم دین سے واسطہ ہو جس کے ایوان علم میں اپنے قلم دوات اور دینی کتا بوں کے سوا کچھ نہ ہو، جو عرب و عجم کا رہنما ہو، اس کو شعر کہنے کو کیا کہا جائے کسی سے شعر سننے کی فرصت کہاں سے ملتی ہے۔ مگر شان جامعیت میں کمی کیسے ہو اور مملکت شاعری میں برکت کہاں سے آئے اگر اعلیٰ حضرت کے قدم اس کو نہ نوازیں۔ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس رشک جناں سے سرفراز تھے اس کی طلب تو ہر عاشق کے لئے سرمایہ حیات ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت کے حمد و نعت کا ایک مجموعہ کئی حصوں میں شائع ہو چکا ہے جس کا ایک ایک لفظ پڑھنے والوں اور سننے والوں کو مستی عطا کرتا رہتا ہے۔
اعلیٰ حضرت کا لغزشوں سے محفوظ رہنا
علمائے دین کے اعلیٰ کارنامے چودہ صدیوں سے چلے آرہے ہیں مگر لغزش علم و فلتت لسان سے بھی محفوظ رہنا یہ اپنے بس کی بات نہیں۔ زور قلم میں بکثرت تفرو پسندی میں آ گئے بعض تجدد پسندی پر اتر آئے۔ تصانیف میں خود آرائیاں بھی ملتی ہیں۔ لفظوں کے استعمال میں بھی بے احتیاطیاں ہو جاتی ہیں۔ قول حق کے لہجہ میں بھی بوئے حق نہیں ہے۔ حوالہ جات میں اصل کے بغیر نقل پر ہی قناعت کر لی گئی ہے لیکن ہم کو اور ہمارے ساتھ سارے علمائے عرب و عجم کو اعتراف ہے کہ یا حضرت شیخ محقق مولانا محمد عبد الحق محدث دہلوی، حضرت مولانا بحر العلوم فرنگی محلی، یا پھر اعلیٰ حضرت کی زبان و قلم نقطہ برابر خطا کرے اس کو ناممکن فرما دیا۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشائ۔ اس عنوان پر غور کرنا ہو تو فتاویٰ رضویہ کا گہرا مطالعہ کر ڈالئے۔
فقیہ اعظم کا ایک عظیم و جلیل حاشیہ جن چار مجلدات پر مشتمل ہے وہ حاشیہ امام ابن عابدین شامی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے فتاویٰ ”ردالمحتار“ پر ہے۔ جسے آپ نے بنام ”جدالممتار“ موسوم فرمایا ہے۔ لیکن یہ بیش قیمت حاشیہ اسی ذخیرے میں پڑا ہے جو ابھی محروم اشاعت ہے۔
مولیٰ تعالیٰ کسی ایسے مرد جلیل کو پیدا فرما دے جو جملہ تصانیف مجدد اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ” مرکز اشاعت علوم امام احمد رضا “ قائم کرے اور آپ کے جواہر علمی کو جلوئہ طباعت دے۔ آمین!
وصال مبارک
آپ 25 صفر المظفر 1340ھ مطابق 1921ءجمعتہ المبارک کے دن عین اذان جمعہ کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
پیدائش
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ 10 شوال المکرم 1372ھ، مطابق 14 جون 1856ءہفتہ کے روز ہندوستان کے مشہور شہر بریلی شریف میں پیدا ہوئے۔ اور آپ کا پیدائشی اسم مبارک محمد رکھا گیا۔
علمی بصیرت
مولانا سید سلمان اشرف صاحب بہاری مرحوم مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاءالدین صاحب کو لے کر جب اس لئے حاضر خدمت ہوئے کہ ایشیا بھر میں ڈاکٹر صاحب ریاضی و فلسفہ میں فرسٹ کلاس کی ڈگری رکھتے ہوئے ایک مسئلہ حل کرنے میں زندگی کے قیمتی سال لگا کر بھی حل نہ کر پائے تھے، اور فیثا غورثی فلسفہ کشش ان پر چھایا ہوا تھا۔ تو اعلیٰ حضرت نے عصر و مغرب کی درمیانی مختصر مدت میں مسئلہ کا حل بھی قلم بند کرا دِیا فلسفہ کشش کی کھینچ تان کو بھی قلمبند فرما دیا جو رسالہ کی شکل میں چھپ چکا ہے۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب حیران تھے کہ ان کو یورپ کا کو ئی تھیوریوں والا درس دے رہا ہے یا اس ملک کا کوئی حقیقت آشنا ان کو سبق پڑھا رہا ہے۔ انہوں نے اس صحبت کے تاثرات کو اجمالاً ان الفاظ میں ظاہر کیا تھا کہ ”اپنے ملک میں جب معقولات کا ایسا ایکسپرٹ موجود ہے توہم نے یورپ جا کر جو کچھ سیکھا اپنا وقت ضائع کیا۔“
اس ایک مثال سے آپ کے تبحر علم اور علمی بصیرت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
علوم عقلیہ
یہ روز کامعمول تھا کہ فلکیات و ارضیات کے ماہرین اپنی علمی مشکلات کو لے کر آتے اور دم بھر میں حل فرما کر ان کو شاد شاد رخصت فرما دیتے۔یہ بھی دیکھا گیا کہ ماہرین فن نجوم آئے اور فنی دشواریوں کو پیش کیا تو اعلیٰ حضرت نے ہنستے ہوئے اس طرح جواب دے کر خوش کر دیا کہ گویا یہ دشواری اور اس کا حل پہلے سے فرمائے ہوئے تھے۔
محدث کچھو چھوی رحمتہ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ ”ایک بار صدرا کہ مایہ ناز (مقامات) شکل حماری اور شکل عروسی کے بارے میں مجھ سے سوال فرما کر جب کتاب کی (وہی کےفیت؟) دیکھی تو اپنی تحقیق بیان فرمائی تو میں نے محسوس کیا کہ حماری کی حماریت بے پردہ ہو گئی اور عروسی کا عرس ختم ہو گیا۔ مسئلہ بخت و اتفاق شمس بازغہ کا سرمایہ تفلف ہے۔ مگر اس بارے میں اعلیٰ حضرت کے ارشادات جب مجھ کو ملے تو اقرار کرنا پڑا کہ ملا محمود اگر آج ہوتے تو اعلیٰ حضرت کی طرف رجوع کرنے کی حاجت محسوس کرتے۔ اعلیٰ حضرت نے کسی ایسے نظریے کو کبھی صحیح سلامت نہ رہنے دیا جو اسلامی تعلیمات سے متصادم رہ سکے اگر آپ وجود فلک کو جاننا چاہتے ہوں اور زمین و آسمان دونوں کا سکون سمجھنا چاہتے ہوں اور سیاروں کے بارے میں کل فی فلک یسبحون کو ذہن نشین کرنا چاہتے ہوں تو ان رسائل کا مطالعہ کریں جو اعلیٰ حضرت کے رشحات قلم ہیں اور یہ راز آپ پر ہر جگہ کھلتا جائے گا کہ منطق و فلسفہ و ریاضی والے اپنی راہ کے کسی موڑ پر کج رفتار ہو جاتے ہیں۔
افتاءکی خداداد عظیم صلاحیت
عادت کریمہ تھی کہ استفتاءایک ایک مفتی کو تقسیم فرما دیتے اور یہ صاحبان دن بھر محنت کر کے جوابات مرتب کرتے۔ پھر عصر و مغرب کی درمیانی مختصر ساعت میں ہر ایک سے پہلے استفتاء پھر فتویٰ سماعت فرماتے اور بیک وقت سب کی سنتے۔ اسی وقت مصنّفین بھی اپنی تصنیف دکھاتے اور زبانی سوال کرنے والوں کو بھی اجازت تھی کہ جو کہنا چاہیں کہیں اور جو سنانا ہو سنائیں۔ اتنی آوازوں میں اس قدر جداگانہ باتیں اور صرف ایک ذات کو سب کی طرف توجہ فرمانا جوابات کی تصحیح و تصدیق اور اصلاح، مصنّفین کی تائید و تصحیح اغلاط، زبانی سوالات کے تشفی بخش جوابات عطا ہو رہے ہیں اور فلسفیوں کی اس خبط لا یصدر عن الواحد الا الواحد (ایک ہستی سے ایک وقت میں ایک ہی چیز صادر ہو سکتی ہے) کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ جس ہنگامہ سوالات و جوابات میں بڑے بڑے اکابر علم و فن سر تھام کر چپ ہو جاتے ہیں کہ کس کس کی سنیں اور کس کس کی نہ سنیں، وہاں سب کی شنوائی ہوتی تھی اور سب کی اصلاح فرما دی جاتی تھی، یہاں تک کہ ادبی خطا پر بھی نظر پڑ جاتی تھی اور اس کو درست فرمادیا کرتے تھے۔
حیرت انگیز قوت حافظہ
یہ چیز روز پیش آتی تھی کہ تکمیل جواب کے لئے جزئیات فقہ کی تلاش میں جو لوگ تھک جاتے تو عرض کرتے۔ اسی وقت فرما دیتے کہ ردالمحتار جلد فلاں کے صفحہ فلاں کی سطر فلاں میں ان لفظوں کے ساتھ جزئیہ موجود ہے۔ درمختار کے فلاں صفحہ فلاں سطر پر یہ عبارت ہے۔ عالمگیری میں بقد جلد و صفحہ و سطر میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ ہندیہ میں خیر یہ میں، مبسوط میں، ایک ایک کتاب فقہ کی اصل عبارت بقید صفحہ و سطر یہ الفاظ موجود ہیں۔ ارشاد فرما دیتے۔ اب جو کتابوں میں جا کر دیکھتے ہیں تو صفحہ و سطر و عبارت وہی پاتے ہیں جو زبان اعلیٰ حضرت نے فرمایا تھا۔ اس کو آپ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ خداداد قوت حافظہ سے ساری چودہ سو برس کی کتابیں حفظ تھی ۔ یہ چیز بھی اپنی جگہ پر حیرت ناک ہے۔
حافظ قرآن کریم نے سالہا سال قرآن عظیم کو پڑھ کر حفظ کیا، روزانہ دوہرایا ایک ایک دن میں سو سو بار دیکھا، حافظ ہوا محراب سنانے کی تیاری میں سارا دن کاٹ دیا اور صرف ایک کتاب سے واسطہ رکھا۔ حفظ کے بعد سالہا سال مشغلہ رہا ہو سکتا ہے کہ حافظ کو تراویح میں لقمے کی حاجت نہ پڑی ہو۔ گو ایسا دیکھا نہیں گیا اور ہو سکتا ہے کہ حافظ صاحب کسی آیت قرآنیہ کو سن کر اتنا یاد رکھیں کہ ان کے پاس جو قرآن کریم ہے اس میں یہ آیہ کریمہ داہنی جانب ہے یا بائیں جانب ہے۔ گو یہ بھی بہت نادر چیز ہے مگر یہ تو عادتاً محال اور بالکل محال ہے کہ آیت قرآنیہ کے صفحہ و سطر کو بتایا جاسکے۔ تو کوئی بتائے کہ تمام کتب متداولہ و غیر متداولہ کے جملہ کو بقید صفحہ و سطر بتانے والا اور پورے اسلامی کتب خانے کا صرف حافظ ہی ہے یا وہ اعلیٰ کرامت کا نمونہ ربانیہ ہے جس کے بلند مقام کو بیان کرنے کے لئے اب تک ارباب لغت و اصطلاح الفاظ پانے سے عاجز رہے۔
علم قرآن
علم قرآن کا اندازہ صرف اعلیٰ حضرت کے اس اردو ترجمے سے کیجئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی کوئی مثال سابق نہ عربی زبان میں ہے نہ فارسی میں اور نہ اردو میں اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اس جگہ لایا نہیں جا سکتا۔ جو بظاہر ترجمہ ہے مگر درحقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں روح قرآن ہے۔ اس ترجمہ کی شرح حضرت صدر الافاضل استاذ العلماءمولانا نعیم الدین علیہ الرحمتہ نے حاشیہ پر لکھی ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ دوران شرح میں ایسا کئی بار ہوا کہ اعلیٰ حضرت کے استعمال کردہ لفظ کے مقام استنباط کی تلاش میں دن پر دن گذرے اور رات پر رات کٹتی رہی اور بالآخر ملا تو ترجمہ کا لفظ اٹل ہی نکلا۔اعلیٰ حضرت خود شیخ سعدی کے فارسی ترجمہ کو سراہا کرتے تھے۔ لیکن اگر حضرت سعدی اردو زبان کے اس ترجمہ کو دیکھ پاتے تو فرما ہی دیتے کہ: ترجمہ قرآن شے دےگرست و علم القرآن شے دےگر علم الحدیث و علم الرجال
علم الحدیث کا اندازہ اس سے کیجئے کہ جتنی حدیثیں فقہ حنفی کی ماخذ ہیں ہر وقت پیش نظر اور جن حدیثوں سے فقہ حنفی پر بظاہر زد پڑتی ہے اس کی روایت و درایت کی خامیاں ہر وقت ازبر۔
علم الحدیث میں سب سے نازک شعبہ علم اسماءالرجال کا ہے۔ اعلیٰ حضرت کے سامنے کوئی سند پڑھی جاتی اور راویوں کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو ہر راوی کی جرح و تعدیل کے جو الفاظ فرما دیتے تھے اٹھا کر دیکھا جاتا تو تقریب و تہذیب میں وہی لفظ مل جاتا تھا۔ اس کو کہتے ہیں علم راسخ اور علم سے شغف کامل اور علمی مطالعہ کی وسعت۔
اعلیٰ حضرت نے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ بعض لوگو ں کا ایمان بالرسل بایں معنی نہیں ہے کہ رسول پاک سید المرسلین ہیں، خاتم النبین ہیں، شفیع المذنبین ہیں، اکرم الاولین و الآخرین ہیں، اعلم الخلق اجمعین ہیں، محبوب رب العالمین ہیں۔ بلکہ صرف بایں معنی ہے کہ زیادہ سے زیادہ بڑے بھائی ہیں جو مر کر مٹی میں مل چکے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے بے اختیار اور عند اللہ بے و جاہت رہے۔ اگر ان کو بشر سے کم قرار دو تو تمہاری توحید زیادہ چمک دار ہو جائے گی۔ ان حقائق کو واضح کر دینے کا یہ مقدس نتیجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی جمہوریت اسلامیہ کی بڑی اکثریت دامن رسول سے لپٹی ہوئی ہے اور دشمنان اسلام کے فریب سے بچ کر مجر موں کے منہ پر تھوک رہے ہیں۔
فجزاہ اللہ تعالی عنا و عن سائرا ہل السنتہ و الجماع خیر الجزاء
علم فقہ میں اعلیٰ حضرت کا مقام
آپ کے علم و فضل اور خاص کر علم فقہ میں تبحر کا اعتراف تو ان اہل علم نے بھی کیا ہے جنہیں مسلک و مشرب میں آپ سے اختلاف ہے۔ مثلاً: ملک غلام علی صاحب جو سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کے معاون ہیں اپنے ایک بیان میں جسے ہفت روزہ ”شہاب “ لاہور نے ۵۲ نومبر۲۶۹۱ءکی اشاعت میں درج کیا ہے لکھتے ہیں: ”حقیقت یہ کہ مولانا احمد رضا خاں صاحب کے بارے میں اب تک ہم لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں۔ ان کی بعض تصانیف اور فتاویٰ کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو علمی گہرائی میں نے ان کے یہاں پائی وہ بہت کم علماء میں پائی جاتی ہے۔ اور عشق خدا و رسول تو ان کی سطر سطر سے پھوٹ پڑتا ہے۔“
اسی طرح اعظم گڑھ یوپی سے شائع ہونے والا ماہنامہ مجلہ ”معارف“ رقمطراز ہے: ” مولانا احمد رضا خاں صاحب مرحوم اپنے وقت کے زبردست عالم، مصنف اور فقیہ تھے۔ انہوں نے چھوٹے بڑے سینکڑوں فقہی مسائل سے متعلق رسالے لکھے ہیں۔ قرآن عزیز کاسلیس ترجمہ بھی کیا ہے ان علمی کارناموں کے ساتھ ساتھ ہزارہا فتووں کے جوابات بھی انہوں نے دیے ہیں۔“ یہ آراء ان لوگوں کی ہیں جن سے مسلکی اختلافات ہیں۔ اور جو مسلک میں متحد ہیں ان کی آراء کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم چند کلمات علمائے ربانیین و عظمائے حرمین طیبین کے اس موقع پر عرض کر دینا فائدہ سے خالی نہ ہو گا۔ اب تک تذکروں میں جن جن علماءکے نام پیش کئے گئے ہیں غالباً یہ نام ان سے جداگانہ ہیں:
(۱) شوافع کے مفتی اور امام، نقیب الاشراف اور شیخ الساد فی المدینہ المنورہ سیدی السید علوی بن السید احمد بافقیہ ارشاد فرماتے ہیں:
”افضل الفضلاءانبل النبلاء فخر السلف قدو الخلف الشیخ احمد رضا۔“
(۲) احناف کے مفتی و امام السید اسماعیل بن خلیل مدنی فرماتے ہیں۔
”شیخنا العلام المجرد شیخ الاساتذ علی الاطلاق الشیخ احمد رضا۔“
(۳) حنبلیوں کے امام و مفتی اور مسجد نبوی میں مدرس امام عبداللہ النابلسی الحنبلی ارشاد فرماتے ہیں۔
”العالم العامل الہمام الفاضل محرر المسائل و عویصات الا حکام و محکم بروج الادل بمزید اتقان و زیاد اجکام سےد الشیوخ و الفضلاءالکرام قاضی القاضا الشیخ احمد رضا خاں۔“
(۴) مالکی حضرات کے امام و مفتی، مدینہ میں دارالافتاءکے اعلیٰ نگران و حاکم سیدی احمد الجزائری ابن السید احمد المدنی ارشاد فرماتے ہیں۔
” علام الزمان و فرید الاوان و منبع العرفان و ملحظ النظار سید عدنان حضرت مولانا الشیخ احمد رضا خان۔“
یہ چار شہادتیں مفتیان مذاہب اربعہ، احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکیین مدینہ منورہ کی ہیں۔چار ہی مذاہب اربعہ کے مفتیان کرام، علمائے عظام و مدرسین بیت اللہ الحرام مکہ مکرمہ کی پیش خدمت ہیں۔
(۱) حنفیوں کے امام و مفتی، علام الزمان مولانا سید عبداللہ بن مولانا السید عبدالرحمن السراج مفتی حنفیہ مکہ مکرمہ تحریر فرماتے ہیں۔
”العام الفہام الہمام والعمد الدراک الامام ملک العلماءالاعلام الشیخ احمد رضا خان۔“
(۲) مالکیین کے امام و قاضی و مفتی و مدرس مسجد حرام کے خاص الخاص مفتی حضرت سیدی امام محمد بن حسین المالکی مفتی و مدرس دیار حرمیہ ارقام فرماتے ہیں۔
” ونشرت اعلام الانتصار علی منبر الہدایہ فی جامع الافتخار وقامت تشبت فضائل منشیہا وتنص علی مناہل مصطفیہا وکیف لا وہو احمد المہتدین رضا لازالت شموس تحقیقاتہ المرضے طالع فی سماءالشعریع السمح المحمدی۔“
(۳) مفتی امام محدث علام مدرس بیت الحرام مکہ مکرمہ و امام شافعیہ سیدی محمد صالح مدرس مسجد حرام و امام شافعیہ ارقام فرماتے ہیں۔
”فنقول ابقاہ سامیاذری مجد مخدوم العزو السبعدر افلا علل الحبور واردا موارد السرور ماترنم بمدحہ مادح صدح بشکرہ صادہ۔“
(۴) مکہ مکرمہ کے حنابلہ کے مفتی و امام اور مدرس حضرت علامہ مولانا عبداللہ بن حمید مفتی حنابلہ بمکتہ المشرفہ فرماتے ہیں۔
”العالم المتحقق المدقق لا زالت شجر علمہ نامی علی ممر الزمان و ثمر علمہ مقبول لدی الملک الدیان الشیخ احمد رضا خان۔“
حرمین شریفین کے صرف چار چار علمائے کرام کی آراء یہاں پر درج کی گئی ہیں اور اختصار کے پیش نظر انہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ورنہ ان کے علاوہ مصر و شام، عراق و یمن، الجزائر و نابلس، طرابلس و اردون وغیرہا ممالک عربیہ اسلامیہ کے فضلاء و علماءکے ایسے ہی خیالات متعدد مرتبہ شائع ہو چکے ہیں۔جب ہم آپ کی تحریرات و فتاویٰ کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ کام اس تعمق اور اس تیز رفتاری کے ساتھ کسی شخص واحد سے ممکن ہے؟
مثال کے طور پر 1323ھ کا واقعہ ہے مکہ مکرمہ برائے حج تشریف لے گئے ہیں اور ظاہر ہے کہ حج پر جانے والا اپنے ساتھ کتب فقہ و حدیث کا ذخیرہ تو نہیں لے جاتا فراغت حج کے ساتھ ہی ایک استفتاء جو پانچ سوالوں پر مشتمل تھا دیا جاتا ہے اور تقاضا یہ ہے کہ دو دن میں جواب مل جائے۔ جس کی مختصر کیفیت یہ تھی جو خود مصنف علیہ الرحمتہ نے بیان فرمائی۔
” میرے پاس بعض ہندیوں کی طرف سے پیر کے دن عصر کے وقت ۵۲ ذی الحجہ کو ایک سوال آیا --- میرے پاس کتابیں نہ تھیں اور مفتی حنفیہ سیدی صالح بن کمال کا کہنا یہ تھا کہ دو دن منگل و بدھ میں جواب مکمل ہو جائے۔ میں نے رب تبارک و تعالیٰ کی امداد و اعانت پر جواب صرف دو مجلسوں میں مکمل کیا جس میں سے مجلس اول تقریباً سات گھنٹے کی تھی اور دوسری مجلس ایک گھنٹے کی۔“
(ترجمہ الدولتہ المکیتہ)
اس استفتاءجو پانچ سوالوں پر مشتمل تھا اور جس کا جواب دو نشستوں میں جو تقریباً آٹھ گھنٹے پر حاوی تھیں تحریر کیا گیا یہ عربی زبان میں چار سو صفحات کی کتاب تھی جسے بنام تاریخی ”الدول المکی بالماد الغبی“ ۳۲-۳۱ سے موسوم فرمایا۔
اس مبارک کتاب میں جب کہ آپ کے پاس کو ئی کتاب موجود نہ تھی متعدد کتب و فتاویٰ کے حوالہ جات صفحہ وار بتائے ہیں اور محض اپنی یاداشت پر بتائے ہیں۔ یہ محض رب کریم کی وہ عنایت تھی جو وہ اپنے مقبول بندوں کو عطا فرماتا ہے۔
تصنیفات و افتائ
امام اہلسنت قدس سرہ نے اپنی عمر کے آٹھویں سال میں بزبان عربی ”ہدایت النحو“ کی شرح تحریر فرمائی اور چودہ سال کی عمر سے مسلسل فقہ پر کام کیا جو اڑسٹھ سال کی عمر تک جاری رہا۔ ایک ہزار کے قریب ضخیم کتابیں اور رسائل یاد گار چھوڑے، جو موضوع کے اعتبار سے پچاس مختلف علوم و فنون پر محیط ہیں۔ یہ پچپن سال کا دور پوری تصانیف پر منقسم کیا جائے تو روزانہ کی اوسط تحریر ساڑھے تین جزو ہوتے ہیں جن کے چھپن صفحات بنتے ہیں۔فتاویٰ رضویہ ۲۱ جلدوں میں ہے جن میں سے چار جلدیں (کتاب الطہار سے کتاب الحج تک) طبع ہو چکی ہیں۔ آٹھ ابھی شائع نہیں ہو سکیں۔ پانچویں چھپ رہی ہے۔ فتاویٰ دیکھئے تو آپ کو ایک فقیہ کی فقاہت اور ایک مفتی کی شان افتاءکا اندازہ ہوگا۔
امام بریلوی کی شعر گوئی
کتنی عجیب بات ہے کہ ایسے امام الوقت مسند العصر کے پاس جس کو رات دن کے کم سے کم بیس گھنٹے میں صرف علم دین سے واسطہ ہو جس کے ایوان علم میں اپنے قلم دوات اور دینی کتا بوں کے سوا کچھ نہ ہو، جو عرب و عجم کا رہنما ہو، اس کو شعر کہنے کو کیا کہا جائے کسی سے شعر سننے کی فرصت کہاں سے ملتی ہے۔ مگر شان جامعیت میں کمی کیسے ہو اور مملکت شاعری میں برکت کہاں سے آئے اگر اعلیٰ حضرت کے قدم اس کو نہ نوازیں۔ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس رشک جناں سے سرفراز تھے اس کی طلب تو ہر عاشق کے لئے سرمایہ حیات ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت کے حمد و نعت کا ایک مجموعہ کئی حصوں میں شائع ہو چکا ہے جس کا ایک ایک لفظ پڑھنے والوں اور سننے والوں کو مستی عطا کرتا رہتا ہے۔
اعلیٰ حضرت کا لغزشوں سے محفوظ رہنا
علمائے دین کے اعلیٰ کارنامے چودہ صدیوں سے چلے آرہے ہیں مگر لغزش علم و فلتت لسان سے بھی محفوظ رہنا یہ اپنے بس کی بات نہیں۔ زور قلم میں بکثرت تفرو پسندی میں آ گئے بعض تجدد پسندی پر اتر آئے۔ تصانیف میں خود آرائیاں بھی ملتی ہیں۔ لفظوں کے استعمال میں بھی بے احتیاطیاں ہو جاتی ہیں۔ قول حق کے لہجہ میں بھی بوئے حق نہیں ہے۔ حوالہ جات میں اصل کے بغیر نقل پر ہی قناعت کر لی گئی ہے لیکن ہم کو اور ہمارے ساتھ سارے علمائے عرب و عجم کو اعتراف ہے کہ یا حضرت شیخ محقق مولانا محمد عبد الحق محدث دہلوی، حضرت مولانا بحر العلوم فرنگی محلی، یا پھر اعلیٰ حضرت کی زبان و قلم نقطہ برابر خطا کرے اس کو ناممکن فرما دیا۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشائ۔ اس عنوان پر غور کرنا ہو تو فتاویٰ رضویہ کا گہرا مطالعہ کر ڈالئے۔
فقیہ اعظم کا ایک عظیم و جلیل حاشیہ جن چار مجلدات پر مشتمل ہے وہ حاشیہ امام ابن عابدین شامی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے فتاویٰ ”ردالمحتار“ پر ہے۔ جسے آپ نے بنام ”جدالممتار“ موسوم فرمایا ہے۔ لیکن یہ بیش قیمت حاشیہ اسی ذخیرے میں پڑا ہے جو ابھی محروم اشاعت ہے۔
مولیٰ تعالیٰ کسی ایسے مرد جلیل کو پیدا فرما دے جو جملہ تصانیف مجدد اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ” مرکز اشاعت علوم امام احمد رضا “ قائم کرے اور آپ کے جواہر علمی کو جلوئہ طباعت دے۔ آمین!
وصال مبارک
آپ 25 صفر المظفر 1340ھ مطابق 1921ءجمعتہ المبارک کے دن عین اذان جمعہ کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
تشریف لائیںhttp://tehreemtariq.wordpress.com/
ReplyDelete