ایم ایم اے کے ان لیڈروں میں تو کوئی بھی ایسا نہیں جو اپنے کردار عمل اور اپنے اخلاص وشجاعت سے مولانا عبدالستار خان نیازی کا ہمسر و ثانی ثابت ہو سکتا ہو مجاہد ملت میموریل سوسائٹی پاکستان نے 21جنوری 2007ء کو ہمدرد سنٹر غازی علم الدین شہید روڈ کے آڈیٹوریم میں تحریک قیام پاکستان کے دوران پنجاب اور خاص طور سے ضلع میانوالی میں اسلامیان برصغیر کے منتشر شیراز ے کو مجمتع کر کے قیام پاکستان کی تگ دو کرنے والے بیسویں صدی کے سب سے بڑے سیاستدان جناب قائداعظم کے پیغام کو عوام الناس اور عامتہ المسلمین تک پہنچا کر ہندو جماعتوں کے مقابل آل انڈیا مسلم لیگ کی کامیابی و کامرانی کے لئے شبانہ روز جدوجہد کرنے والے اپنے دور کے شعلہ جوالا مجاہد ملت مولانا مولانا عبد الستار خان نیازی کی یادوں کے فانوس درخشاں کرنے ان کے کردار اور اظہار کے انمٹ نقوش قدوم پر چلنے کا درس دینے کی خاطر مجاہد ملت کانفرنس منعقد کی ۔ جناب مجید نظامی نے مجاہد ملت میموریل سوسائٹی کی انتظامیہ کی خصوصی دعوت پر اس کانفرنس میں شرکت کی اور فرمایا کہ مولانا عبد الستار خاں نیازی میرے بڑے بھائی جناب حمید نظامی کے ہمدم دیرینہ ہوتے تھے چنانچہ اس ربط سے میں ان کو اپنا بڑا بھائی تصور کرتا تھا میں تقریر کے لئے نہیں آیا ان سے اظہار عقیدت کے لئے مختصراً اپنے خیالات کا اظہار کر رہاہوں میں ان کے لئے دعا گوہوں ۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا دراصل مولانا عبد الستار خاں نیازی اور شہرہ آفاق اسلامی تاریخ ناول نگار اور ممتاز صحافی جناب نسیم حجازی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں بہ الفاظ قائداعظم فائر برینڈ حمید نظامی کے کلاس فیلو تھے اور بطور طالب علم وہ تینوں بڑی مدت تک ایک ہی کمرے میں رہائش پذیر رہے ان میں بلا کی فکری یگانگت تھی چنانچہ تحریک قیام پاکستان کے دوران ان تینوں عالی دماغ نوجوانوں نے قیام پاکستان کے مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔جناب حمیمد نظامی نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پیلٹ فارم سے سارے پنجاب بلکہ سارے ہندو ستان کے مسلمان طلبہ کو متحدکر کے مسلم لیگ کے کاز کو آگے بڑھایا ۔ جناب نسیم حجازی نے بلوچسیان کے جاگیر داروں کو جمالی خانوادے کے ذریعے مسلم لیگ کی حمایت اور پاکستان کے قیام کے لیے پر جوش انداز میں کام کرنے پر آمادہ کیا۔ جمالی خانوادے سے تو ان کے اتنے گہرے تعلقات تھے کہ مراد خان جمالی تو نسیم حجازی کے اخبار کوہستان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے بھی رکن تھے اور اس اخبار کے دفتر میں آتے رہتے تھے وہ دفتر مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال کی میکلورڈ روڈ والی کوٹھی کے پہلو میں یعنی رتن سینما اور پرانے صنوبر سینما کے درمیان واقع تھا۔ مولانا عبدالستار خاں نیازی بھی نسیم حجازی سے ملاقات کیلئے اس اخبار کے دفتر میں تشریف لاتے رہتے تھے ۔کیونکہ اس دفتر کے قریب لکمشی چوک کے ایک طرف واقع لکمشی مینشن میں انہوں نے اپنا قیام رکھا ہوا تھا ۔ 1964ء کی گرمیوں میں جبکہ نواب امیر محمد خاںآف کالا باغ مغربی پاکستان کے گورنر تھے اور لوگوں پر ان کی بڑی دھمک اور دہشت طاری تھی۔ مولانا عبد الستار خاں نیازی ایک روز تین بجے سہ پہر نسیم حجازی سے ملاقات کیلئے آئے واپسی پر ان کیلئے تانگہ منگوایا گیا ابھی وہ تانگے کی اگلی نشت پر برا جمان ہوئے ہی تھے کہ کچھ غنڈوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ فوراً ہی اخبار کے لوگ ان کے تحفظ کے لئے دوڑ ے مگر ان کے پہنچنے تک غنڈے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ مجاہد ملت کی طرے دار پگ کھل گئی اور ستواں ناک کی ہڈی پر چوٹ آئی ۔ پورے شہر میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ گورنر نے عبد الستار نیازی پر غنڈوں کے ذریعے حملہ کر وایا دیا ہے ۔ اس سال پاکستان کے صدارتی انتخابات بھی تھے اپوزیشن لیڈروں نے جن میں چودھری محمد علی ، خواجہ ناظم الدین اور دیگر رہنما شامل تھے جب کو ئی مرد یہ بھاری پتھر اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوا تو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خاںکا مقابلہ کرنے کے لئے بطور صدارتی کینڈی ڈیٹ میدان میں اترنے پر راضی کر لیا۔ انہی دنوں مولانا ابوالاعلٰی مودودی نے موچی دروازے میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا اس وقت کوثر نیازی ابھی جماعت اسلامی میں تھے اور جلسے کی صدارت کر رہے تھے۔ کسی نے مولانا مودودی سے انکی تقریر کے دوران سوال کیا کہ آپ نے تو اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوئی خاتون کسی اسلامی ملک کی سربراہ نہیں ہوسکتی تو اب آپ مادر ملت کی حمایت کیوں کر رہے ہیں کیونکہ اگر مادر ملت صدارتی انتحابات میں کامیاب ہو گئیں تو وہ پاکستان کی سر براہ بن جائیں گیں تو آپ کا موقف کہاں جائے گا ؟ مولانا مودودی نے فرمایا کہ میں موقف پر تو قائم ہوں مگر اس معاملہ میں صورت یہ بن گئی ہے کہ ایک طرف ایک مرد ہے جس میں کوئی خوبی نیہں سوائے اس کے کہ وہ مرد ہے مگر دوسری طرف ایک دختر اسلام ہے جن میں کوئی خرابی نہیں سوائے اس کے کہ وہ ایک خاتون ہیں اس لئے ہم نے ایک نیکی کے مقابلے میں ایک بدی کا اور ایک شر کے مقابلہ میں خیر کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔چنانچہ مولانا کی دلیل سے لوگ قطعاً مطمئن ہو گئے۔ چند روز کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے لاہور کا ایک دورہ کیا اور گول باغ (موجودہ ناصر باغ ) میں جلسہ عام کا اہتمام کیا گیا اسی جلسہ میں مادر ملت سے پہلے اظہار خیال کرنیوالوں میں مولانا عبد الستار خان نیازی بھی شامل تھے ۔ انہوں نے تقریر کے دوران اپنے بڑے بڑے کالے بوٹ اتارے اور فضا میں ان کی ایکڑیاں جوڑ کر ملک امیر محمد خان پر کڑی نکتی چینی کرتے ہوئے کہا کہ وہ جس کی اتنی (کالے بوٹوں جتنی ) بڑی بڑی مونچھیں ہیں اپنے باس ( ایوب خاں) جتنا زور لگالے اور دہشت پھیلا لے مگر پاکستان سے آمریت کا جنازہ اٹھ جائیگا اور جمہوریت قائم ہو جائیگی کیونکہ اگر انصاف سے انتخابات ہوئے تو مادر ملت بلا شبہ جیت جائیں گیں اور ایوب خاں کو شکست فاش ہو گی اس وقت سامعین مجاہد ملت کی جرات اظہا ر اور شجاعت کردار پر عش عش کراٹھے ۔ اور آج کے جلسہ میں بھی مولانا ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، علامہ ریاض حسین شاہ، صاحبزادہ فضل کریم، اور دیگر متعدد مقررین نے مولانا عبد الستار خان نیازی کو دلی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا عبد الستار خان نیازی کے مشن کی تکمیل کیلئے جدوجہد جاری رکھی جائیگی ۔ آج کے اس جلسے میں متحدہ مجلس عمل کے چال چلن پر کڑی نکتہ چینی کی گئی اور اس کے ان رہنمائوں کو بڑی شدت سے ہدف تنقید بنایا گیا جو قوم کے سامنے ایک مدت تک اعلان کرتے رہے کہ وہ اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہو جائیں گئے مگر نا قابل قبول حقوق نسواں بل پارلیمنٹ سے منظور ہو کر ایکٹ بن جانے کے بعد بھی اقتدار سے چمٹے رہنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ حالانکہ انہیں اپنے اقتدار سے زیادہ حدود اللہ کا تحفظ کرنا چاہیے، مگر ایم ایم اے کے ان لیڈروں میں تو کوئی بھی ایسا نہیں جو اپنے کردار عمل اور اپنے اخلاص وشجاعت سے مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کا ہمسر و ثانی ثابت ہو سکتا ہو ۔ بشکریہ: نوائے وقت تحریر: علامہ چوہدری اصغر علی کوثر وڑائچ |
5.6.11
مولانا عبد الستار خان نیازی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
جھوٹے مدعیان نبوت عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال لا تقوم الساعۃ حتٰی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول ...
-
مرزا غلام احمد قادیانی اس نے ١٩٠٠ ء میں انگریزوں کی سازش اور منصوبہ سے قادیان پنجاب میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ مرزا کا تعارف ...
-
آپ سید دیدا ر علی شاہ کے فرزند اکبر تھے آپ نے ابتدائی تعلیم کا آغاز پا نچ سال کی عمر میں مفتی زین الدین کے درس سے حفظ قرآن سے کیا (بھا...
-
اقبال اور قادیانیت ڈاکٹر ایوب صابر اقبال ہندی وطنی قومیت کے علم بردار تھے اور چند برسوں کے دوران اس کی حمایت اور اس کے فروغ کے...
No comments:
Post a Comment