سات ستمبر، قادینیوں کو کافر قرار دینے کا قانون منظور ھونے کادن
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بلاشبہ چودھویں صدی کا سب سے بدترین اور غلیظ فتنہ ،فتنئہ قادیانیت تھا، چھونکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے برطانوی استعمار اور انگریز کی چھتری کے سائے میں دعوٰی نبوت کیا تھا ، اسلئے وہ اور اسکے ماننے والے مست ہاتھی کی طرح کسی کو خاطر میں لانے کے روادار نہ تھے۔
یہ انکی غلط فہمی تھی کہ وہ جو کہیں گے یا کریں گے ، انکی زبان ہا ہاتھ روکنے کی کسی میں جراءت نہیں ھوگی، چنانچہ قادیانیت کی تاریخ اٹھا کر دیکھئے ! تو مرزا قادیانی کے دعوٰی نبوت سے لے کر اسکی موت اور اسکے بعد حکیم نورالدین اور مرزا بشیر الدین محمود کے دور تک وہ کسی وائسرائے سے کم نظر نہیں آتے ، ان کے تحکم وتعلی آمیز دعوؤں سے ایسا لگتا ھے کہ وہ مسلمانوں کو ناکوں چنے چبوائیں گے۔
ان کی اس فرعونیت کا کرشمہ تھا کہ 1952 میں مرزا بشیر الدین محمود نے اعلان کیا کہ ہم پورے پاکستان کو نہیں تو کم از کم صوبہ بلوچستان کو قادیانی اسٹیٹ بنا کر رہیں گے۔
چنانچہ جب مرزا بشیر الدین نے یہ راگ الاپا تو مجلس عمل کے مرکزی رہنماؤں حضرت امیر شریعت مولاناسیدعطا ء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ، مولاناسیّد ابوالحسنات قادری رحمہ اللہ ،صاحبزادہ سید فیض الحسن رحمہ اللہ ، تاج الدین انصاری رحمہ اللہ اور مولاناحامد بدایونی جانثاران ختم نبوت نے سر پر کفن باندھ کر غداران ختم نبوت و پاکستان کے خلاف میدان سنبھال لیا اور اعلان کیا کہ ہمارے جیتے جی قادیانیت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ھوگا ۔
دوسری جانب قادیانی سورما اپنے آقاؤں کی تائید و حمایت سے جارحیت پر اتر آئے، حکومت پاکستان اور وقت کے حکمران خواجہ ناظم الدین نے کھل کر قادیانیوں کی سرپرستی اور مسلمانوں کی مخالفر کی، 1953 میں مسلمانوں کی مبنی برحق تحریک کو دبانے کے لئے حکومت کے مظالم کی انتہا کردی، صرف لاھور میں دس ھزار مخلصین نے جام شہادت نوش کیا ،(سبحان اللہ) ۔۔اگرچہ وقتی طور پر یہ تحریک دب گئی ، مگر مسلمانوں کے پاک اور پاکیزہ لہو کے انتقام نے ان تمام سورماؤں کے اقتدار کا دھڑن تختہ کردیا اور ایسے ظالم ایک ایک کر کے اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
اس تحریک کے وقتی طور پر دب جانے سے قادیانیوں کے دماغ خراب ھوگئے اور انہوں نے 1974 میں ربوہ اسٹیشن پر نشتر کالج کے طلبہ کی بوگی پر حملہ کر کے نہتے اور معصوم طلبہ کو" ختم نبوت زندہ باد " کے نعرے کا "مزہ چکھانے" کی غرض سے جب ان کو لہو لہان کیا تو قدرت نے ان کے غرور کو خاک میں ملانے اور مسلمانوں کی 90 سالہ جدوجہد کو قامیابی سے ہمکنار کرنے کا فیصلہ فرمالیا، یوں پورے ملک میں قادیانیوں کے خلاف بے زاری اور نفرت کی فضاء پیدہ ھوگئی اور ملک بھر سے یہ مطالبہ ھونے لگا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے، ان کو کلیدی عہدوں سے برطرف کیا جائے اور ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں کا تدارک کیا جائے۔
چنانچہ یہ ہر مسلمان کی آواز اور مطالبہ تھا ، دوسری طرف قادیانی 1971 کے انتخابات میں بھٹو حکومت کے حلیف تھے، بلاشبہ یہ جہاں مسلمانوں کے لئے مشکل کی گھڑی تھی وہاں بھٹو حکومت کے لئے دہرا عذاب تھا، ایک طرف پوری قوم کا مطالبہ اور آواز تھی اور دوسری جانب اس کی حلیف جماعت کا معاملہ تھا ۔
اپنے طور پر بھٹو نے بھی خواجہ ناظم الدین کی طرح اس تحریک کو دبانے کی بھرپور کوشش کی ، مگر چونکہ آسمان پر قادیانیت کی ذلت کا فیصلہ ھوچکا تھا اور تقدیر کا قلم چل چکا تھا ، اس لئے بھٹو حکومت کی کوئی تدبیر کارگر نہ ھوئی تو مجبوراً بھٹو صاحب نے قومی اسمبلی کو عدالت کا درجہ دے کر اس مسئلے کا فیصلہ اسمبلی کے حوالے کردیا۔
ان کا خیال تھا کہ اسمبلی میں زیادہ تر لوگ اس کے ہم خیال ہیں، اس لئے قادیانیوں کے خلاف فیصلہ نہیں ھوگا، مگر بھٹو صاحب کا یہ خواب شرمندہ نہ ھوسکا اور مسلسل 13 دن جرح کے بعد 7 ستمبر 1974 کو متفقہ طور پر طے پایا کہ قادیانیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، چنانچہ قانون میں ترمیم کرکے قرار دیا گیا کہ " ہر گاہ یہ قرین مصلحت ہے کہ بعد ازیں درج ذیل اغراض کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں مزید ترمیم کی جائے،"
لہٰذہ بزریعہ ہٰزہ حسب زیل قانون وضع کیا جاتا ھے:
**مختصر عنوان اور آغاذ نفاذ
1۔۔۔یہ ایکٹ آئین (ترمیم دوم) ایکٹ 1974 کہلائے گا،
2 ۔۔۔ یہ فی الفور نافذ العمل ھوگا،
**آئین کی دفعہ 106 میں ترمیم :
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں ، جسے بعد ازیں آئین کہا جائے گا۔ دفعہ 106 کی شق (3) میں لفظ فرقوں کے بعد الفاظ اور قوسین اور قادیانی جماعت یا لاھوری جماعت کے اشخاص (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) درج کئے جائیں گے۔
** آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم :
آئین کی دفعہ 260 میں شق (2) کے بعد حسب زیل نئی شق درج کی جائے گی نعنی (3) جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو آخری نبی و رسول ہیں ، کے خاتم النبین ھونے پر قطعی اور غیر مشروط ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ھونے کا دعوٰی کرتا ھے یا ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ھے ۔ وہ آئین یا قانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ھے ۔"
بلاشبہ سات ستمبر کا دن جہاں شہدائے ختم نبوت اور جاں نثاران ختم نبوت کی قربانیوں کی یاد دلاتا ھے ، وہاں مسلمانوں کی 90 سالہ جدو جہد کی تاریخ ساز کامیابی کی سرخروی کا دن بھی ہے، اسی طرح سات ستمبر دراصل قادیانیت کی 90 سالہ ظلم و ستم کی سیا رات کے خاتمہ کی روشن صبح ھے، جس پر جتنی بھی خوشی اور مسرت کا اظہار کیا جائے کم ھے ۔
اسکے علاوہ ہماری وہ نسلیں جو 1953 ،1974، 1984 کے وقت تھیں ، اب قریباً عملی طور پر دست کش ہیں ، لہٰذہ ہمارہ فرض ھے کہ ہم اپنی نسلوں اور خصوصاً نوجوانوں کو مسئلہ قادیانیت ، قادیانی مظالم اور مسلمانوں کی جدوجہد سے آگاہ کریں اور بتلائیں کہ ان آستین کے سانپوں سے ھوشیار رہیں ، کہیں ایسا نہ ھو وہ تمہیں اور تمہاری نسلوں کو ڈس لیں۔
Ya din humaray liya bohat hamiyat ka din ha.........
ReplyDeletewaqae
Deleteآپ کا بلاگ کمال کا ہے۔ ابھی پڑھنا باقی ہے۔ پڑھ کر تفصیلی تاثرات بھی دوں گا ، اور آپ کی تحریری استفادہء عام کے لیے نشر بھی کروں گا۔ ان شاءاللہ
ReplyDeletehttp://afkaremuslim.blogspot.com/