3.8.11

گستاخان رسول کے ٹکڑے .......قاری محمد یعقوب شیخ

گستاخان رسول کے ٹکڑے .......قاری محمد یعقوب شیخ
 
عتیبہ اپنے باپ ابو لہب اور ماں ام جمیل (اروی) کی طرح رسول اللہ کی ایذا رسانی، گستاخی اور بے ادبی میں آگے آگے تھا، نبی آخر الزمان کے خلاف بدکلامی کرنے میں بڑا بے باک تھا۔ اس نے ایک دن بڑی ناپاک جسارت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کو پھاڑ ڈالا اور آپ پر تھوکنے کی کوشش کی مگر ناکام و نامراد ہوا اس بہیمانہ گستاخی پر آپ نے اس کے خلاف بددعا فرمائی۔ اللھم سلط علیہ کلباًمن کلابک۔ اے میرے اللہ! اس پر اپنے کتوں میں سے کوئی کتا مسلط کر دے۔
قارئین کرام! پھر کیا ہوا؟ ایک مرتبہ مکہ سے شام کی طرف ایک تجارتی قافلہ روانہ ہوا جس میں یہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھا، راستے میں الزرقاءنامی جگہ پر قافلے نے پڑاﺅ ڈالا۔ جنگل کا ماحول تھا، خوف ناک فضا تھی، عتیبہ مارے ڈر کے کانپنے لگا کیونکہ اس کو رسول اللہؓ کی بددعا یاد آ رہی تھی۔ قافلہ والوں نے اونٹوں کے حصار میں بڑی حفاظت کے ساتھ پہرہ کا اہتمام کرتے ہوئے اس کو سلا دیا۔ رات کے وقت ایک محب رسول شیر اس گستاخ رسول عتیبہ کے تعاقب میں نکل آیا، سارے قافلے والے پریشان اور دہشت زدہ ہو گئے۔ عتیبہ کو اپنی جان کی پڑ گئی وہ بدحواس ہو کر چیخنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر یہ بات بار بار کہہ رہا تھا کہ یہ شیر مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کی بدولت کھا جائے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا جس کی توقع یہ گستاخ رسول کر رہا تھا۔
شیر سارے قافلہ کو پھلانگتا ہوا کسی اور کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر پہنچاتا ہوا اس ظالم عتیبہ کی طرف جھپٹا اور پل بھر میں اس کے اسی طرح ٹکڑے کر دیئے جس طرح اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کے ٹکڑے کئے تھے۔ اس گستاخ کا انجام پورے قافلہ نے دیکھا، کوئی بھی اس کی مدد کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا، اونٹوں کا حصار پہرہ داروں کا نیزہ و تلوار کسی کام نہ آ سکے سب ناکام مگر! اللہ تعالیٰ کے حکم سے آنے والا محب رسول شیر کامیاب ہو گیا۔
دنیا کی ہر باطل قوت اور گستاخ ملک کا حال و حشر اسی طرح ہو گا جس طرح عتیبہ کا ہوا، اللہ تعالیٰ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرے گا۔ ڈنمارک، ناروے اور ان کے پشتیبان ممالک نے عتیبہ کی تاریخ کو تازہ کرتے ہوئے توہین کی غرض سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہوئے نبی آخر الزمان کی طرف منسوب کرتے ہوئے جو خاکے شائع کئے ہیں بلکہ ان کی بار بار اشاعت کی جو مذموم حرکت کی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان ممالک کی عمر اب بہت ہی تھوڑی ہے۔ یہ جلد اپنے وجود سے ہاتھ دھو لیں گے اور اپنا اقتدار کھو بیٹھیں گے۔ جس طرح کسریٰ (خسرو) سب کچھ کھو بیٹھا تھا۔
قارئین کرام! نبی( صلی اللہ علیہ وسلم) نے تربیت و اصلاح کی غرض سے ابلاغ حق کیلئے شاہ فارس کسری کو خط لکھا، اس خط کو لے جانے کیلئے سیدنا عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو سفیر منتخب فرمایا۔ خط کسری تک پہنچا، پڑھ کر سنایا گیا جس کی ابتداءکچھ یوں ہے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد رسول اللہ کی طرف سے کسریٰ عظیم فارس کی جانب! ہر اس شخص پر سلام، جو ہدایت کو قبول کرے پیروی کرے۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔
میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، کیونکہ میں پوری انسانیت کیلئے اس کا رسول ہوں جو شخص زندہ ہے اسے انجام بد سے ڈرایا جائے اور کافروں پر اتمام حجت ہو جائے، تم اسلام لاﺅ سالم رہو گے اگر انکار کیا تو تم پر مجوس کا بھی گناہ ہو گا۔
خط سننے کے بعد کسریٰ نے اس کو چاک کر دیا اور نہایت متکبرانہ گستاخانہ انداز میں بولا: میری رعایا کا سب سے حقیر غلام اپنا نام مجھ سے پہلے اور میرا بعد میں لکھتا ہے....! حضرات! یہ خط کوئی عام خط نہ تھا، رسول اللہ کا خط تھا، اہم ترین دستاویز تھی قیمتی کلمات تھے جن کی لاج نہ رکھی گئی بے ادبی کی گئی اس کو حرمت کا خیال نہ رکھا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: اے اللہ! اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے“۔
کسریٰ نے اپنے یمن کے گورنر باذان کو لکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر کے میرے پاس حاضر کیا جائے اور اس کام کیلئے دو مضبوط آدمی روانہ کئے جائیں۔ باذان نے تعمیل کرتے ہوئے آپ کی طرف ایک خط دیکر دو آدمی روانہ کئے اور حکم دیا کہ ان دونوں کے ہمراہ آپ کسریٰ کے پاس حاضر ہو جائیں۔ وہ دونوں خط لیکر آپ کے پاس آئے کسری کا زبانی حکم نامہ سناتے ہوئے وہ مکتوب بھی، پیش کر دیا جو کسریٰ کے روبرو حاضر ہونے کا حکم نامہ باذان نے دیا تھا۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ملاقات کیلئے کل حاضر ہو جائیں۔ ادھر مدینہ منورہ میں یہ دلچسپ صورتحال تھی ، ادھر خسرو (کسریٰ) کے خلاف اس کے گھر میں بغاوت کا (علم) جھنڈا بلند ہو چکا تھا، جس کے نتیجے میں قیصر کی فوج کے ہاتھوں فارسی شکست کھا رہے تو ان حالات میں کسری (خسرو) کو اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کر کے خود اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے اپنے رسول کو سارا واقعہ بتا دیا۔ صبح ہوئی، دونوں فارسی باشندے حاضر ہوئے، آپ نے انہیں اس واقعہ کی خبر سنائی، دونوں نے پریشان ہو کر کہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کی بات ہم اپنے بادشاہ کو تحریر کر دیں؟ آپ نے فرمایا ہاں، میری اس بات کی خبر کر دو اور یہ بھی کہہ دوں کہ میرا دین اور میری حکومت وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک کسریٰ پہنچ چکا ہے بلکہ اس سے بھی آگے جہاں تک اونٹ اور گھوڑے کے قدم بھی نہیں جا سکتے اور اس کو جا کر کہنا کہ اگر تم مسلمان ہو جاﺅ تو جو کچھ تمہارے اقتدار میں ہے وہ میں تمہیں دے دوں گا اور تم کو تمہاری قوم کا بادشاہ بنا دوں گا۔ وہ دونوں مدینہ شریف سے روانہ ہوئے، باذان کے پاس پہنچے، سارا واقعہ اس کو سنایا، تفصیلات سے آگاہ کیا، تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ایک خط آیا کہ شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کر کے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اس خط میں شیرویہ نے یہ ہدایت بھی کی تھی کہ جس شخص کے بارے میں میرے باپ نے تمہیں لکھا تھا تا حکم ثانی ان کو کچھ نہ کہا جائے۔ اس واقعہ کی وجہ سے باذان اور اس کے ساتھیوں نے جو یمن میں تھے، اسلام قبول کر لیا۔ باذان کو اسلام نصیب ہوا، کسریٰ کو ذلت و پستی کی موت ملی۔ خود بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور ملک بھی ٹکڑوں میں تقسیم ہوا۔ اس کی موت اشاعت اسلام کیلئے بڑی کارگر ثابت ہوئی۔ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا جو اس کافر کے خلاف تھی وہ رنگ لائی، گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگ گئی۔ اہل یورپ کو یہ بات قطعاً بھولنی نہیں چاہئے کہ جو کچھ وہ گستاخی رسالت میں کر رہے ہیں اس کی سزا ان کو ملنی ہے۔ ان کی اولاد ان کو قتل کرے گی یہ خانہ جنگی کا شکار ہوں گے، درندے ان کوپھاڑیں گے اور اللہ کے فدائی دستے محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربی کے غلام اب ان پرچڑھ دوڑیں گے کیونکہ کافروں نے ان کی ایمانی غیرت کو للکارا ہے جس سے اب جہاد فی سبیل اللہ کا دروازہ کھل چکا ہے۔ اس سے یہ دین یورپ میں غالب ہو گا اور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک اونٹ اور گھوڑے کے قدم بھی نہیں جا سکتے۔

جھوٹے مدعیان نبوت   عن  ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال لا تقوم الساعۃ حتٰی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول ...