23.6.11

اقبال اور قادیانیت

اقبال اور قادیانیت

ڈاکٹر ایوب صابر



اقبال ہندی وطنی قومیت کے علم بردار تھے اور چند برسوں کے دوران اس کی حمایت اور اس کے فروغ کے لیے متعدد پر تاثیر نظمیں لکھی تھیں لیکن جلد ہی اسے ترک کر کے اسلامی قومیت کے نقیب بن گئے۔ اسی طرح وحدت الوجود کے خلافِ اسلام نظریے کو ترک کرنے کے لیے اقبال نے زیادہ وقت نہ لیا لیکن قادیانیت کا مسئلہ مدتوں تک ان کی خاص توجہ کا مرکز نہ بن سکا اور ایک صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے انھوں نے بہت عرصہ لیا۔ اگرچہ اقبال ابتدا سے عقیدۂ ختمِ نبوت اور تصوّرِ جہاد کے علم بردار تھے اور مسیح موعود بلکہ مجدد کے تصوّر کو بھی نہیں مانتے تھے لیکن قادیانیت کا بنظرِ غائر مطالعہ نہ کرنے کے سبب عرصے تک مرزائیوں کو مسلمانوں کافرقہ سمجھتے رہے۔ اور جب اس مسئلے پر غور کرنے کے اسباب جمع ہوئے تو اقبال نے مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ اب اقبال پر دو طرح کے اعتراضات وارد ہوئے۔ بعض اقبال مخالف مسلمانوں اور غیر مسلموں نے اس بات کو اچھالا کہ اقبال قادیانیت کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ دوسری طرف مرزائیوں نے اعتراض کیا کہ اقبال نے ۱۹۳۵ء میں انھیں غیر مسلم کیوں قرار دیا جبکہ اس سے پہلے ان کا قادیانیت سے ’’گہرا تعلق‘‘ تھا اور ۱۹۳۵ء تک وہ انھیں مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ سمجھتے تھے۔
کشمیر کمیٹی ۱۹۳۱ء میں قائم ہوئی۔ اس کے سربراہ امامِ جماعتِ احمدیہ مرزا بشیرالدین محمود تھے۔ اقبال کو اس کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے مرزائیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو وہ ان کے مخصوص رویے، عقیدے اور عزائم سے واقف ہوئے۔ احرار اور قادیان کی باہمی آویزش کے باعث قادیانی مسئلہ اہمیت اختیار کر گیا، چنانچہ اس وجہ سے بھی اقبال کو اس طرف توجہ مبذول کرنا پڑی۔ اقبال نے قادیانیت کا بنظرِ غائر جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ مرزائی مسلمان نہیں ہیں اور جب گورنر پنجاب نے انجمنِ حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں مسلمانوں کے باہمی افتراق اور قیادت کے فقدان پر افسوس ظاہر کیا اور مسلمانوں کو رواداری کا مشورہ دیا تو مئی ۱۹۳۵ء میں اقبال کا قادیانیت کے خلاف پہلا مضمون شائع ہوا۔ ۱؂ اس مضمون کا منظر عام پر آنا تھا کہ قادیانیوں کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور وہ اقبال شکنی کی کوششوں میں لگ گئے۔
اس مضمون میں اقبال نے وضاحت کی کہ مسلمانوں کی وحدت صرف دینی تصور پر استوار ہے اور مسلم معاشرے کو ختمِ نبوت کا عقیدہ ہی سالمیت کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اگر ان میں کوئی ایسا گروہ پیدا ہو جو اپنی اساس ایک نئی نبوت پر رکھے اور بزعمِ خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے، مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لیے خطرہ تصور کرے گا۔ اگر کسی قوم کی وحدت کو خطرہ لاحق ہو تو اس کے لیے اس کے سوا اور چارۂ کار نہیں رہتا کہ وہ معاندانہ قوتوں کے خلاف اپنی مدافعت کرے۔ پھر کیایہ مناسب ہے کہ اصل جماعت کو رواداری کی تلقین کی جائے جبکہ اس کی وحدت خطرے میں ہو اور باغی گروہ کو تبلیغ کی پوری آزادی ہو اگرچہ وہ تبلیغ جھوٹ اور دشنام سے لبریز ہو۔
چند روز بعد اقبال نے لکھا کہ میں نے حکومت کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ وہ قادیانی تحریک کا بہ جبر انسداد کرے۔ میری رائے میں حکومت کے لیے بہترین طریقِ کار یہ ہو گا کہ وہ قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کرے۔ یہ قادیانیوں کی پالیسی کے عین مطابق ہو گا اور مسلمان ان سے ویسی ہی رواداری سے کام لے گا جیسے وہ باقی مذاہب کے معاملے میں اختیار کرتا ہے۔ ۲؂
اس سے پہلے ۱۹۳۴ء میں مجلس احرارِ اسلام کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والی ’’آل انڈیا احرار کانفرنس‘‘ میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ ہو چکا تھا۔ ۳؂ علامہ اقبال کی تجویز ہر اعتبار سے مبنی بر انصاف تھی لیکن اس کا سخت ردِ عمل ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔ مرزائی خود تو مسلمانوں کو کافر سمجھتے تھے لیکن مسلمانوں نے انھیں غیر مسلم قرار دیا تو انھیں یہ بات ناگوار گزری، چنانچہ علامہ اقبال پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس ضمن میں متعدد مضامین روزنامہ ’’الفضل‘‘ میں شائع ہوئے۔ قادیانی جماعت کے امام نے بنیادی اعتراض یہ اٹھایا کہ ۱۹۳۵ء سے پہلے ڈاکٹر سر اقبال احمدیوں کومسلمان سمجھتے تھے۔ اب کیوں انھیں محسوس ہوا کہ احمدیوں کو الگ کر دینا چاہیے۔ لاہوری جماعت کے سربراہ نے ایک انگریزی رسالہ شائع کیا جس میںیہ موقف اختیار کیا کہ مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ موصوف نے اقبال کے اس بیان پر سخت تنقید کی کہ امام منتظر کا تصور مجوسی مذاہب کے ساتھ مخصوص ہے۔ ۴؂ بقول سید نذیر نیازی ہفتہ وار اخبار ’’لائٹ‘‘ نے یہ رائے ظاہر کی کہ ’’یہ جو حضرتِ علامہ کہتے ہیں کہ بابِ نبوت مسدود ہے یہ دراصل مغرب سے مرعوبیت کا نتیجہ ہے۔۔۔ اقبال عقل کو نبوت پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ مغرب زدگی نہیں تو اور کیا ہے؟ ۵؂ یہ اعتراضات علامہ اقبال کے پانچویں خطبے پر تھے۔ اخبار ’’سن رائز‘‘ نے اقبال پر تناقض کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھا کہ پہلے تو اقبال جماعتِ احمدیہ کی تعریف کرتے تھے لیکن اب اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے ہیں۔ روزنامہ ’’اسٹیٹس مین‘‘ میں ایک پارسی نے احتجاج کرتے ہوئے لکھا کہ اسلام نے، مجوسی تہذیب سمیت قدیم تہذیبوں سے استفادہ کیا ہے۔ اقبال کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجوسی تہذیب کا کوئی پہلو قابل تعریف نہیں۔ مذکورہ روزنامے نے اپنے اداریے میں چند اہم سوالات اٹھائے جن کا اقبال کی طرف سے جواب بھی اسی روزنامے میں شائع ہوا۔ ۶؂
یہ مباحث جاری تھے کہ جواہر لال نہرونے مرزائیوں کی حمایت میں قلم اٹھایا۔ ’’ماڈرن ریویو‘‘ کلکتہ میں ان کے تین مضامین شائع ہوئے۔ جواب میں علامہ اقبال نے ایک زبردست بیان دیا جس نے آگے چل کر ایک مضمون کی شکل اختیار کر لی اوریہ مضمون ’’اسلام اینڈ احمد ازم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ علامہ کے بیان اور اس مضمون کا پس منظر بیان کرتیہوئے سید نذیر نیازی نے لکھا ہے کہ مجلسِ احرار اور جماعتِ احمدیہ کے نزاع سے پنجاب کی فضا مکدّر تھی۔ کشمیر کمیٹی کے اندر اور باہر یہ احساس تھا کہ اس کے کچھ عناصر مسئلہ کشمیر کے بجائے اپنے ذاتی اور جماعتی مقاصد کی تبلیغ میں مصروف ہیں۔ اس خیال سے یہ سوال تازہ ہو گیا کہ مسلمانوں کی وحدت کا حفظ و استحکام کس اصول پر ہے۔ لوگ اس سوال کا جواب مذہبی یا سیاسی پہلو سے دیتے تھے جس سے یہ مسئلہ الجھتا چلا گیا۔ اقبال کومذکورہ بیان (قادیانی اور صحیح العقیدہ مسلمان) دینا پڑا جس میں تشریح کی گئی کہ سیاسی، اجتماعی اور مذہبی اعتبار سے وحدتِ امت کی یہ اساس کس اصول پر ہے۔ اس بیان کا شائع ہونا تھا کہ طرح طرح کے سوال پیدا ہونے لگے اور ملک بھر کے روزناموں اور رسائل و جرائد نے اس پر رائے زنی شروع کر دی۔ یہ اس لیے کہ اقبال نے ایک ایسے نزاع کا سلسلہ جو بظاہر مذہبی عقیدے تک محدود تھا، سیاست و اجتماع سے جوڑ دیا۔ انھوں نے وحدتِ امت کی جو تعبیر کی وہ کانگریس کے ہندی قومیت والے نظریے سے متصادم تھی لہٰذا بیان شائع ہوا تو پنڈت جواہر لال نہرو خاموش نہ رہ سکے۔ ۷؂ نہرو نے جو سوالات اٹھائے تھے، اقبال نے ایک مضمون میں ان کا جواب دیا۔ ۸؂ نہرو نے مزید کوئی مضمون نہ لکھا۔ نہرو کے ایک خط کے جواب میں اقبال نے اس بنا پر کہ برطانوی حکومت سے وفاداری کے نظریے کو الہامی تائید فراہم کرنے کی غرض سے احمدیت ظہور میں آئی، قادیانیوں کو اسلام اور ہندوستان دونوں کا غدار قرار دیا۔ ۹؂
’’اسلام اینڈ احمد ازم‘‘ کے جواب میں ’’ الفضل‘‘ قادیان نے چودہ قسطوں پر مشتمل سلسلۂ مضامین شائع کیا۔ قادیانیوں کے انگریزی پرچے (Review of Religions) کے ایک خصوصی شمارے میں ایک مضمون بعنوان ’’ڈاکٹر محمد اقبال اور تحریکِ احمدیت‘‘ شائع ہوا جس میں یہ اعتراض کیا گیا کہ اقبال نے اپنے بیان میں ایسے نظریات پیش کیے جنھیں ان کے مداحوں نے بھی غلط کہا ہے مثلاً اقبال نے کہا ہے کہ غلام قوموں کے انحطاط کے نتیجے میں الہام جنم لیتا ہے۔ اس خیال کو شعر میں یوں باندھا ہے:
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے
غارتِ گرِ اقوام ہے وہ صورتِ چنگیز
جبکہ اکثر انبیا کرام محکوم اقوام ہی میں مبعوث کیے گئے۔ نبوت کی صداقت کا معیار حاکمیت یا محکومیت نہیں ہے بلکہ خود الہام کی نوعیت پر ہے۔ ۱۰؂ اقبال کا مضمون ’’جنوری ۱۹۳۶ء میں شائع ہوا تھا۔ فروری ۱۹۳۶ء میں قادیانیوں کے اخبار ’’لائٹ‘‘ کے مدیر نے اقبال کی ذات پر حملہ کیا۔ انجمن حمایتِ اسلام میں قادیانی ارکان بھی تھے اور اس وجہ سے انجمن کی ساکھ خراب ہو رہی تھی۔ انجمن کے صدر علامہ اقبال تھے۔ انھوں نے ارکانِ انجمن کو مشورہ دیا کہ مرزائیت کے ضمن میں انھیں اپنی پالیسی واضح کرنی چاہیے اور جب ختم نبوت کے ضمن میں ایک قرار داد پیش کی گئی تو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ (انجمن کے اہم قادیانی رکن) نے جوش میں آکر اور کھڑے ہو کر کہا: ’’مجازی رنگ میں نبی آ سکتا ہے‘‘۔ ڈاکٹر موصوف سے اختلاف کیا گیا اور وہ غصے کی حالت میں اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔ نو دن بعد ان پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا انتقال ہو گیا۔ اس واقعے کو بہانہ بنا کر مدیر ’’لائٹ‘‘ نے افتتاحیے میں لکھا:
’’ایک بہترین صبح کو ڈاکٹر محمد اقبال نے یہ خیال کیا کہ مرزا یعقوب بیگ کافر ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر محمد اقبال نے انجمنِ حمایت اسلام کو چیلنج بھیج دیا کہ مرزا یعقوب بیگ کو الگ کر دیا جائے جیسا کہ وہ اس احسان فراموش اوربے ضمیر کتوں کی جماعت میں بوجہ اپنی شرافت کے رہنے کے قابل نہ تھا۔ خدا نے اس کو اپنی طرف بلا لیا۔ ہم ڈاکٹر اقبال صاحب اور اس کے رہزن گروپ کو مبارک باد دیتے ہیں کہ اب گندا آدمی دنیا میں نہیں رہا اور ڈاکٹر صاحب انجمن کی کرسئ صدارت کو زینت بخشیں۔‘‘ ۱۱؂
مرزائیت کے خلاف اپنی تحریروں کے باعث علامہ اقبال، بقول ڈاکٹر جاوید اقبال، ’’احمدیوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بنے‘‘ ۱۲؂ چنانچہ اقبال کو ہدفِ تنقید بنایا گیا اور ان کے انہدام کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ اقبال پر قادیانیوں کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ۱۹۳۵ء تک ان کا قادیانیت سے ’’گہرا تعلق‘‘ رہا اور وہ انھیں ’’مسلمان‘‘ سمجھتے رہے لیکن ۱۹۳۵ء میں ان کی قلب ماہیت ہو گئی اور انھوں نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ یہ اعتراض، گزشتہ نصف صدی کے دوران، بار بار مختلف تفصیلات کے ساتھ دہرایا گیا۔ چنانچہ ’’زندہ رود‘‘ کی تصنیف کے دوران شیخ اعجاز احمد نے ڈاکٹر جاوید اقبال کو ایک تحقیقی نوٹ تیار کر کے بھیجا جس میں بارہ دلائل اس ضمن میں ہیں کہ ۱۹۳۵ء کے آغاز تک علامہ اقبال کے نزدیک احمدی دائرہ اسلام سے خارج نہ تھے۔ پھر ان کی رائے میں احمدی جماعت کیوں ایکا ایکی دائرہ اسلام سے یکسر خارج ہوگئی۔ ۱۳؂ شیخ اعجاز احمد نے یہ دلائل ’’مظلوم اقبال‘‘ میں بھی درج کیے ہیں۔ ان کے خیال میں اقبال کی رائے میں تبدیلی کی ’’وجہ کانگریس۔ احرار سازش کے تحت احرار کا دباؤ اور ان کی ریشہ دوانیاں تھیں۔ سازشیوں کی خوش قسمتی سے انھی دنوں ایک ذاتی معاملہ میں علامہ کا احساس محرومی بھی شامل ہو گیا جس کی وجہ سے احمدیت کے خلاف ان کے بیانات میں وہ شدت اور تلخی در آئی جو عام طور پر ان کے شیوہ کے مطابق نہ تھی‘‘۔ ۱۴؂ شیخ اعجاز احمد کے اس دعوے کا سیر حاصل جواب ڈاکٹر جاوید اقبال نے ’’زندہ رود‘‘ میں دیا ہے ۱۵؂ تاہم شیخ اعجاز احمد نے ’’مظلوم اقبال‘‘ میں اس سے کوئی تعرض کیے بغیر اپنے دعوے کو دہرا دیا ہے۔ شیخ عبدالماجد نے ’’زندہ رود‘‘ کے متعلقہ مباحث کے جواب میں پوری کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام ہے ’’اقبال اور احمدیت۔ زندہ رود پر تبصرہ‘‘ایک اخبار کے مدیرنے اپنے تبصرے میں، جو کتاب میں شامل ہے، ڈاکٹر جاوید اقبال کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی کتاب کے ’’اقبال اور احمدیت‘‘ سے متعلقہ حصوں پر نظر ثانی کریں یا پھر شیخ عبدالماجد کی تحریر کا جواب لکھیں۔ ۱۶؂ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس مشورے پر عمل نہیں کیا۔ البتہ ڈاکٹر وحید عشرت نے شیخ موصوف کی کتاب پر قلم اٹھایا۔ ہفت روزہ ’’مہارت‘‘ میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔ شیخ عبدالماجد نے جوابی مضامین لکھے۔ دونوں صاحبان کا ’’مہارت‘‘ کے صفحات پر معرکہ گرم رہا۔ اس سلسلے کے اپنے آخری مضمون کے ذریعے جھوٹ سچ کا فیصلہ دنیا پر چھوڑتے ہوئے، ڈاکٹر وحید عشرت نے بحث کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس بحث سے شیخ عبدالماجد کویہ فائدہ ہوا کہ انھوں نے ’’فکرِ اقبال اور تحریکِ احمدیہ‘‘ کے نام سے ایک اور کتاب تیار کر لی جس کے متعدد ابواب ’’اقبال اکیڈمی کے پی ایچ ڈی محقق کے شکوک کے ازالہ‘‘ کے عنوان سے شاملِ کتاب ہیں۔ ۱۷؂
ڈاکٹر وحید عشرت ’’اقبال اور احمدیت‘‘ پر گہری نگاہ ڈالتے تو قدم قدم پر ’’جھوٹی نبوت‘‘ کی طرح ’’جھوٹی تحقیق‘‘ عیاں ہو جاتی۔ ۱۸؂
شیخ عبدالماجد نے اقبال کے خاندانی پس منظر کو احمدیت سے منسوب کیا ہے۔ ایک طرف عیسائی اقوام کو یاجوج ماجوج قرار دیا ہے اور دوسری طرف انگریز حکمرانوں سے مرزا غلام احمد کی وفاداری کو جائز قرار دیا ہے۔ اس جواز کے لیے ’’علامہ اقبال اور انگریز حکمران‘‘ کے عنوان سے ’’انگریزی حکومت سے اقبال کی وفاداری کا پینتیس سالہ ریکارڈ‘‘ پیش کیا ہے۔ ’’اقبال نئے مسیحا کی آمد کے متمنی تھے‘‘ اور ’’علامہ نے احمدیوں کے خلاف ۱۹۳۵ء سے قبل زبان کیوں نہ کھولی؟‘‘ جیسے عنوانات بھی قائم کیے ہیں۔ آخری باب میں اقبال کی شخصیت پر اعتراضات ہیں اور اس ضمن میں سردار عبدالقیوم کے تاثرات بھی بیان کیے ہیں۔ ’’فکرِ اقبال اور تحریکِ احمدیہ‘‘ کے سرورق پر ’’موافقت چالیس سال۔ مخالفت تین سال‘‘ اور ’’علامہ اقبال کی برطانیہ سرکار کے ساتھ وفاداریاں‘‘ جیسے عنوانات بھی قائم کیے ہیں۔ بیسویں باب میں ’’دنیا بھر کے ماہرین اقبالیات کو ’’دعوتِ تحقیق‘‘ دی ہے اور یوسف سلیم چشتی کا یہ فقرہ نقل کیا ہے کہ ’’اقبال ۱۹۱۱ء تک کٹر مرزائی اور مرزا صاحب کے مخلص متبع تھے۔‘‘ ۱۹؂
اقبال کا ’’احمدیت سے گہرا تعلق‘‘ ثابت کرنے کے لیے شیخ عبدالماجد نے زورِ تحقیق صرف کیا ہے۔ اس سے پہلے شیخ عبدالمالک اور شیخ نور احمد منیر، وغیرہ بھی یہ موقف پیش کر چکے تھے۔ اس کا ایک مقصد تو مرزائیت کو تقویت پہنچانا ہے اور دوسرا مقصد علامہ اقبال کو مسلمانوں کی نگاہوں میں گرانا ہے۔ اقبال کی شخصیت اور افکار پر اعتراضات کا بھی یہی مقصد ہے۔ اقبال کو مفکر و مصورِ پاکستان کے اعزاز سے محروم کرنے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ شیخ عبدالماجد کا دعویٰ یہ ہے کہ خطبہ الٰہ آباد امام جماعت احمدیہ کی ۱۹۲۸ء میں پیش کی گئی ’’کامل خود اختیاری‘‘ کی تشریح و تعبیر ہے اور یہ کہ اس کا تقسیم ہند سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے ایک عنوان یہ قائم کیا ہے:
’’خطبہ الٰہ آباد کا تقسیم ہند سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ ’’حضرت امامِ جماعتِ احمدیہ کی تجویز‘‘ کے زیر عنوان لکھا ہے: ’’پانچ مسلم صوبے فیڈریشن کے اصول پر ہندوستان سے ملحق رہیں اور ہندو صوبے مضبوط مرکزی حکومت کے ماتحت رہیں۔‘‘ ۲۰؂
پروفیسر کے کے عزیز نے یہ ثابت کرنے کے لیے بڑی محنت کی ہے کہ تصورِ پاکستان اقبال کا نہیں ہے۔ موصوف کا قادیانیت کے ساتھ کوئی تعلق ہے یا نہیں اس ضمن میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ اقبال کو منہدم کرنے کا ان کا جذبہ البتہ بہت قوی ہے۔ ’’لبرٹی‘‘ کے مدیر انور شیخ کے دین و ایمان کا بھی پتا نہیں چلتا۔ انھوں نے اپنے مضمون ’’اقبال غارت گر ملت‘‘ میں ہندی قومیت کی حمایت کی ہے اور علامہ اقبال کے کردار کی دو خصوصیات متعین کی ہیں۔ ایک ’’ہندو دشمنی‘‘ اور دوسری ’’مرزا غلام احمد قادیانی سے رقابت اور جنونِ خود نمائی‘‘ ۲۱؂ انور شیخ نے کہیں بھی مرزا غلام احمد کے نام کے ساتھ ’’حضرت‘‘ قسم کا لفظ نہیں لکھا تاہم مذکورہ مضمون کا ماخذ قادیانی لٹریچر خصوصاً شیخ عبدالماجد کی کتاب ’’اقبال اور احمدیت‘‘ ہے۔ دونوں شیوخ میں فرق یہ ہے کہ انور شیخ نے اقبال کے خلاف دریدہ دہنی سے کام لیاہے۔ ’’لبرٹی‘‘ کے ایک اور مضمون نگار محمد احمد جامی نے ’’اقبال۔ ایک متنازعہ شخصیت‘‘ کے زیر عنوان ’’الفضل‘‘ کے حوالے سے کے کے عزیز کا ایک بیان نقل کیاہے۔ انھیں شکایت یہ ہے کہ کوتاہ بین حضرات کوئی ایسی بات سننے پر آمادہ نہیں ہوتے جو انھیں علامہ اقبال اور قائداعظم کے ضمن میں بے علمی یا اندھی عقیدت کے باعث نا پسند ہو۔ انھوں نے اپنے موقف میں وزن پیدا کرنے کے لیے کے کے عزیز کا بیان نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے ایک نامور تاریخ دان پروفیسر کے کے عزیز نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ہمارے عوام جذباتی ہیں۔ انھیں مشتعل کرنے کے لیے کسی نیم خواندہ صحافی کا کالم یا ناخواندہ مولوی کی ایک تقریر کافی ہے۔ چرچل، نپولین، واشنگٹن سب پر تنقید ہوتی ہے، لیکن ہمارے ہیرو تنقید سے مبرا ہیں‘‘ (بحوالہ الفضل پاکستان۔ ۲۴ ستمبر ۱۹۹۴ء) واضح رہے کہ پروفیسر عزیز پنجاب، لندن، ہائڈل برگ اور خرطوم کی یونیورسٹیوں میں پروفیسر رہ چکے ہیں۔ ۲۲؂
غور طلب بات یہ ہے کہ بانیانِ پاکستان پر ’’تنقید‘‘ کو ایک مہم کے طور پر زندگی کا مقصد بنا لینے کا جواز کیا ہے؟ کیا دنیا میں کرنے کے لیے اور کوئی مفید کام نہیں ہے؟ ’’لبرٹی‘‘ والوں اور کے کے عزیز کا اصل مسئلہ کچھ اور ہے ’’الفضل‘‘ کا حوالہ اس راز سے پردہ اٹھاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے اور حواشی
(۱) مضمون کا عنوان ہےQadianis and Orthodox Muslims یہ مضمون متعدد جرائد و اخبارات میں شائع ہوا۔ اپنے خط بنام سید نذیر نیازی مورخہ ۱۷ مئی ۱۹۳۵ء میں اقبال لکھتے ہیں کہ ’’وہ مضمون جو آپ نے دکن ٹائمز میں دیکھا ہے قریباً تمام انگریزی اخباروں میں شائع ہوا ہے۔ ایسٹرن ٹائمز، ٹریبون، سٹیٹس مین، سٹار آف انڈیا کلکتہ، علاوہ اس کے اردو اخباروں میں اس کا ترجمہ بھی شائع ہوا ہے۔ ۱۴ مئی کے سٹیٹس مین نے۔۔۔ اس کے اوپر لیڈنگ آرٹیکل بھی لکھا ہے (مکتوباتِ اقبال، صفحات ۳۷۲۔۳۷۳) اس نتیجے تک فکرِ اقبال کی رسائی بتدریج ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو مسئلہ قادیانیت کی سنگینی کا احساس مولانا انور شاہ کشمیری نے دلایا۔
(۲) دیکھیے (i) Thoughts and Reflections of Iqbal ، مرتبہ ایس اے واحد(ii) Speeches and statements of Iqbal (نیز ’’حرفِ اقبال‘‘۔ اردو ترجمہ از شروانی) مرتبہ لطیف احمد شروانی (iii) Discourses of Iqbal ، مرتبہ شاہد حسین رزاقی۔
(۳) تفصیل کے لیے دیکھیے نقوشِ جاوداں، زاہد منیر عامر صفحہ ۱۳۲
(۴) تفصیل اور حوالوں کے لیے دیکھیے، اقبال اور احمدیت، بشیر احمد ڈار، صفحات ۴۹ تا ۵۳
(۵) مکتوباتِ اقبال، سید نذیر نیازی، صفحہ ۳۰۰
(۶) ’’سٹیٹس مین‘‘ کا اہم ترین سوال یہ تھا کہ ایک مذہبی ملت کے اندرونی اختلافات کی طرف حکومت کہاں اور کب توجہ کرے ؟ اقبال کا جواب یہ تھا کہ سکھوں کے مطالبے کا انتظار کیے بغیر حکومت نے ۱۹۱۹ء میں انھیں ہندوؤں سے الگ جماعت تسلیم کر لیا۔ ایسا ہی وہ قادیانیوں کے معاملے میں کر سکتی ہے۔ ایران میں بہائیوں نے ختمِ نبوت کے اصول کو جھٹلایا لیکن ساتھ ہی اعلان کیا کہ وہ الگ جماعت ہیں اور مسلمانوں میں شامل نہیں ہیں۔ قادیانیوں کے سامنے صرف دو راہیں ہیں یا تو وہ بہائیوں کی تقلید کریں اور یا ختم نبوت کے اصول کو تسلیم کریں اور اس ضمن میں تاویلات کو ترک کر دیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، ’’اقبال اور احمدیت‘‘ ڈار، صفحات ۶۲تا ۶۵)
(۷) دیکھیے مکتوباتِ اقبال مرتبہ سید نذیر نیازی‘ صفحات ۳۱۰ تا ۳۱۲
(۸) یہ مضمون بھی سید عبدالواحد اور لطیف احمد خان شروانی کے مجموعوں میں شامل ہے۔ اردو ترجمہ ’’حرفِ اقبال‘‘ میں ہے۔ دونوں مضامین کا اردو ترجمہ (مع ان مضامین کا پس منظر) ’’اقبال اور احمدیت‘‘ از بشیر احمد ڈار میں شامل ہے۔
(۹) دیکھیےThoughts and Reflections of Iqbal صفحہ ۳۰۶ نیز Speeches and Statements of Iqbal صفحہ ۲۴۱
(۱۰) ’’تاریخ احمدیت‘‘ صفحات ۱۹۷۔۱۹۸ بحوالہ ’’اقبال اور احمدیت‘‘ بشیر احمد ڈار، صفحات ۱۱۲۔۱۱۳
(۱۱) تفصیل کے لیے دیکھیے، اقبال اور انجمنِ حمایتِ اسلام، محمد حنیف شاہد، صفحات۱۳۱ تا ۱۳۶
(۱۲‘ ۱۳) زندہ رود، صفحات ۵۶۹،۵۷۵
(۱۴) مظلوم اقبال، ۱۹۵ تا ۱۹۹
(۱۵) دیکھیے زندہ رود، صفحات ۵۶۹ تا ۵۹۰
(۱۶) اقبال اور احمدیت، شیخ عبدالماجد، صفحہ ۲۴
(۱۷) تفصیل کے لیے دیکھیے، ’’فکرِ اقبال اور تحریک احمدیہ‘‘ کا پہلا، چوتھا، ساتواں اور آٹھواں باب۔
(۱۸) شیخ موصوف کی ’’تحقیق‘‘ کا انداز حسبِ ذیل مثال سے واضح ہے:
شیخ عبدالماجد کے بقول ’’بان�ئ سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں علامہ سنجیدگی سے اسی بات کے قائل تھے کہ تلوار کے دن لد چکے اب قلم کا دور دورہ ہے۔ اب قلم ہی سیف کا کام دکھاتی ہے۔ چنانچہ قلم کی کشور کشائی کے منکروں کو سمجھانے کے لیے آپ نے ۱۹۰۲ء میں انجمنِ حمایت اسلام کے اجلاس میں پڑھی جانے والی نظم میںیہ شعر شامل کیا:
تیغ کے بھی دن کبھی تھے اب قلم کا دور ہے
بن گئی کشور کشا یہ کاٹھ کی تلوار کیا
(اقبال اور احمدیت‘ صفحہ ۱۷۱)
اس شعر کے آخر میں جو سوالیہ نشان ہے اسے عبدالماجد نے حذف کر دیاہے (دیکھیے اقبال کا ابتدائی کلام‘ مرتبہ گیان چند‘ صفحہ ۱۵۷) جس بند میں یہ شعر ہے اس کے جملہ دس اشعار کے آخر میں سوالیہ نشان ہے۔
(۱۹) ’’فکرِ اقبال اور تحریکِ احمدیہ‘‘ صفحہ ۳۸۴
(۲۰) اقبال اور احمدیت‘ صفحات ۲۴۱ تا ۲۴۴
(۲۱‘۲۲) دیکھیے‘ ’’لبرٹی (کارڈف) جنوری ۱۹۹۸ء‘ صفحات ۱۴‘۲۶

No comments:

Post a Comment

جھوٹے مدعیان نبوت   عن  ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال لا تقوم الساعۃ حتٰی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول ...