اللہ تعالی اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام سے اس حد تک محبت فرماتا ہے کہ جس کی نظیر نہيں ملتی اور ان کو عزیز رکھتا ہے کہ جو اس کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور ان کا درجہ و مرتبہ تو اس کی بارگاہ اقدس میں بہت بلند ہے جو حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں ایسے ہی عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے بعد سرفہرست نام حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔ حاکم نے حضرت ابن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ:
“تابعین میں میرا بہترین دوست اویس قرنی (رضی اللہ تعالی عنہ) ہے۔”
حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس قدر مستور الحال تھے کہ لوگ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیوانہ سمجھتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ سادگی اور فقر کا اعلی نمونہ تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کوڑے کے ڈھیر سے پھٹے پرانے کپڑوں کے چیتھڑے اٹھا کر لاتے اور ان کو دھو کر جوڑتے اور سی کر خرقہ بنا لیتے اللہ تعالی کے نزدیک آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ لباس بہت ہی پسندیدہ تھا۔ ساری زندگی دنیا کی کسی بھی چيز سے محبت نہ کی اللہ تعالے اور اس کے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں مستفرق رہے ایسی ہی بلند مرتبہ ہستیوں کی فضیلت احادیث مبارکہ میں بھی بیان ہوئی ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالے عنہ فرماتے ہيں کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ:
“بہت سے لوگ (ایسے) ہیں جو بے حد پریشان غبار آلود ہيں اور جن کو دروازے سے دھکے دے کر نکالا جاتا ہے اگر وہ (کسی بات پر) اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالی ان کی قسم کو سچا اور پورا کر دے۔”
حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و مرتبہ کی مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ خود حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زبان اطہر سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا مقام جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہے بیان فرمایا۔ مسلم شریف کی حدیث پاک ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
“اہل یمن سے ایک شخص تمہارے پاس آۓ گا جسے اویس (رضی اللہ تعالی عنہ) کہا جاتا ہے اور یمن میں اس کی والدہ کے علاوہ اس کا کوئی رشتہ دار نہیں اور والدہ کی خدمت اسے یہاں آنے سے روکے ہوۓ ہے اسے برص کی بیماری ہے جس کے لیے اس نے اللہ تعالی سے دعا کی۔ اللہ تعالی نے اسے دور کر دیا صرف ایک دینار یا درہم کی مقدار باقی ہے جس شخص کو تم میں سے وہ ملے تو اس سے کہے کہ وہ تم سب کی مغفرت کے لیے اللہ تعالی سے دعا کرے اور مغفرت چاہے۔”
حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کا مرتبہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس قدر مقبول ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اللہ تعالی سے بخشش کی دعا فرمائی تو اللہ تعالی نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک کثیر تعداد کو بخش دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ انتہائی متقی اور پرہیز گار تھے۔ تقوی کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ تین روز تک کچھ بھی نہ کھایا پیا راستے میں چلے جا رہے تھے کہ زمین پر ایک ٹکڑا پڑا ہوا دکھائی دیا کھانے کے لیے اسے اٹھایا اور چاہتے تھے کہ کھائيں لیکن معاَ دل میں خیال آیا کہ کہيں حرام نہ ہو چنانچہ اسی وقت پھینک دیا اور اپنی راہ لی۔
اللہ کے مقبول بندے وہی ہوتے ہيں جو اللہ تعالے کے دوست ہوتے ہيں۔ اللہ تعالے ان کو دوست رکھتا ہے جو اس کے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں اور حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ اس شرط پر پورے اترتے ہيں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
“اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو نہ نبی ہيں نہ شہید پھر بھی انبیاء اور شہداء قیامت کے دن ان کے مرتبہ پر رشک کریں گے جو انہيں اللہ تعالی کے یہاں ملے گا لوگوں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ کون لوگ ہوں گے؟ حضور علیہ الصلوۃ ولسلام نے فرمایا: کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو آپس میں ایک دوسرے کے رشتہ دار تھے اور نہ آپس میں مالی لین دین کرتے تھے بلکہ صرف اللہ کے دین کی بنیاد پر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے بخدا ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور ان کے چاروں طرف نور ہی نور ہو گا انہیں کوئی خوف نہ ہو گا اس وقت جب کہ لوگ خوف میں مبتلا ہوں گے اور نہ کوئی غم ہو گا اس وقت جب کہ لوگ غم میں مبتلا ہوں گے۔” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت مبارک پڑھی:
الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون ۔
حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ عاشقان رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سردار ہیں جو بھی مسلمان عشق مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سرشاد ہے وہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر بجا طور پر فخر کرتا ہے۔ حضرت اویس رضی اللہ تعالی عنہ کے عشق مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ایک مشہور واقعہ جو کتب میں مذکور ہے وہ یہ ہے کہ مروی ہے جب غزوہ احد میں حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کو زخم آۓ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خون پاک کو صاف فرماتے تھے اور اسے زمین پر گرنے نہیں دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر خون سے ایک قطرہ بھی زمین پر گرا تو یقینا اللہ تعالی آسمانوں سے زمین والوں پر عذاب نازل کرے گا پھر فرمایا،
“یا اللہ! میری قوم کو معاف فرما دے کیوں کہ وہ مجھے نہیں جانتی اور میری حقیقت نہیں پہچانتی”
اسی اثناء میں عتبہ بن ابی وقاص نے ایک پتھر حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف پھینکا جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے نچلے لب مبارک پر لگا اور دندان مبارک شہید ہو گئے۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کو جب اس بات کی خبر ہوئی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے عشق مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے جذبے سے مغلوب و سرشار ہو کر اپنے تمام دانت توڑ ڈالے۔
عشق مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا وہ مطہر و منزہ جذبہ جو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کے قلب اطہر میں موجزن تھا تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی اپ محبت و عشق کے جس عظیم مقام و مرتبہ پر فائز تھے اسے دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے بھی رشک کیا۔ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے باطنی فیضان سے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کا سینہ پاک منور و تاباں تھا اس باطنی فیضان کے نور سے آپ نے حقیقت محمدی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو پا لیا تھا وہ اسرار الہی جسے ہر کوئی نہیں پا سکتا اسے آپ نے مدینہ طیبہ سے دور یمن میں بیٹھ کر پا لیا اور پھر مخلوق خدا سے کنارہ کشی اس لیے اختیار کر لی کہ لوگوں پر آپ کا مقام و مرتبہ ظاہر نہ ہو جاۓ۔
حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی آپ پر خصوصی نگاہ کرم تھی آپ کا شمار سرکار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام کے دوستوں میں ہوتا ہے آپ کے حالات کی کیفیت سے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کو آگاہی حاصل تھی۔ رسول کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق و محبت کی تڑپ و لگن جو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں موجود تھی اس کا علم سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو بخوبی تھا۔ حضور سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ نے محبت سے عشق تک کی تمام منازل کو طے کر رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سرخیل ہيں اور اس راہ پر چلنے والوں کے ایک عظیم قائد و رہنما ہيں۔
جس دیوانگی اور وارفتگی کے جذبے کے ساتھ آپ نے رسول کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق کیا وہ جذبہ عشق کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا ہوا تھا جس نے آپ کے اور حضور سرکار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام کے مابین ایک مضبوط باطنی و روحانی تعلق قائم کر دیا۔ یہ پروردگار عالم کا آپ پر خصوصی فضل و کرم تھا کہ اس نے اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت و عشق کی دولت سے آپ کے قلب پاک کو مالا مال کر دیا تھا۔
حجرہ حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ ۔ قرن شریف (ملک یمن) |
4-RAJAB-UL-MURAJJAB Urs of Hazrat Imam Shafi'ee (Radi Allahu anhu)
سیدنا حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مختصر تعارف
آپ کا نام ابو عبد اللہ محمد بن ادریس ہے آپ قریشی ہیں حضور علیہ الصلواۃ والسلام کے جد اعلٰی عبد مناف سے آپ کا نسب جا کر ملتا ہے ۔
آپ کی ابتدائی عمر علم و ادب تاریخ میں گزری ، آپ کی ولادت 150ھ میں ہوئی ۔
آپ کی فہم وذکاوت اور حسن استعداد کو دیکھ کر مسلم بن خالد زیخی نے آپ کو فقہ کی ترغیب دی ، آپ 13 سال کی عمر میں امام مالک علیہ الرحمۃ کے ہاں پہنچے تو اس وقت ان کی مؤطا حفظ کر چکے تھے ۔
آپ ایک دفعہ ہارون رشید ( خلیفہ ) پر طعن کرنے کے الزام میں گرفتار ہو کر آئے ، دربار میں امام محمد علیہ الرحمۃ موجود تھے اس الزام میں دو شخصوں کے سوا تمام لوگ قتل کر دئیے گئے ایک علوی دوسرے امام شافعی علیہ الرحمۃ ،علوی پر بھی الزام ثابت ہوگیا تو وہ بھی قتل کر دئیے گئے ، امام شافعی علیہ الرحمہ نے اپنی برآت بیان کی تو امام محمد علیہ الرحمۃ نے ان کی تصدیق فرمائی ، ہارون رشید نے امام محمد علیہ الرحمۃ کی تصدیق پر امام شافعی کو آزاد کردیا ، اس طرح وہ قتل سے بچ گئے گویا یہ امام محمد علیہ الرحمہ کا امام شافعی علیہ الرحمۃ پر بڑا احسان ہے نہ صرف ان پر بلکہ تمام شوافع پر تاقیامت کہ ان کی جان بچائی ، ( انوار الباری ج1،ص35)
نوٹ !
یہ امام محمد حضرت امام ابو حنیفہ کے شاگرد مشہور ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ امام شافعی امام محمد کے شاگرد بھی ہیں اور کافی مدت تک ان کے ز یر سایہ بھی رہے ۔
آپ اپنے ابتدائی علم کے حالات بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ابتداء زمانہ میں یہ حال تھا کہ استاد کو اجرت دینے کے لئے کچھ نہ تھا چنانچہ اس شرط پر کہ میں ان کے جانے کے بعد باقی شاگردوں کو دیکھا کروں گا علم حاصل کرنا شروع کیا قرآن پڑھنے کے بعد علم حدیث کے حلقوں میں بیٹھنا شروع کیا اور جو حدیث سنتا یاد ہو جاتی اس وقت میں کاغذ بھی نہیں خرید سکتا تھا اور چکنی ہڈیاں ڈھونڈتا اگر مل جاتیں تو ان پر لکھ کر انھیں گھر کے پرانے گھڑے میں احتیاط سے رکھ لیتا ۔
کسی نے حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میری بیوی کے پاس ایک کھجور تھی میں نے اس کو کہہ دیا کہ اگر کھجور کھائے تو بھی طلاق اور اگر نہ کھائے تو بھی طلاق ، بتائیں اب میں کیا کروں ؟
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں آدھی کھجور کھالے اور آدھی پھینک دے ۔
آپ کی وفات بعمر 54سال 204ھ میں ہوئی بعد وفات امام شافعی کو ربیع بن مرادی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا اللہ تعالٰی نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا فرمایا ، مجھے ایک سنہری کرسی پر بٹھا کر میرے اوپر تازہ تازہ موتیوں کی لڑی بکھیری ۔( انوار الباری جلد 1 ص142)
آپ کا نام ابو عبد اللہ محمد بن ادریس ہے آپ قریشی ہیں حضور علیہ الصلواۃ والسلام کے جد اعلٰی عبد مناف سے آپ کا نسب جا کر ملتا ہے ۔
آپ کی ابتدائی عمر علم و ادب تاریخ میں گزری ، آپ کی ولادت 150ھ میں ہوئی ۔
آپ کی فہم وذکاوت اور حسن استعداد کو دیکھ کر مسلم بن خالد زیخی نے آپ کو فقہ کی ترغیب دی ، آپ 13 سال کی عمر میں امام مالک علیہ الرحمۃ کے ہاں پہنچے تو اس وقت ان کی مؤطا حفظ کر چکے تھے ۔
آپ ایک دفعہ ہارون رشید ( خلیفہ ) پر طعن کرنے کے الزام میں گرفتار ہو کر آئے ، دربار میں امام محمد علیہ الرحمۃ موجود تھے اس الزام میں دو شخصوں کے سوا تمام لوگ قتل کر دئیے گئے ایک علوی دوسرے امام شافعی علیہ الرحمۃ ،علوی پر بھی الزام ثابت ہوگیا تو وہ بھی قتل کر دئیے گئے ، امام شافعی علیہ الرحمہ نے اپنی برآت بیان کی تو امام محمد علیہ الرحمۃ نے ان کی تصدیق فرمائی ، ہارون رشید نے امام محمد علیہ الرحمۃ کی تصدیق پر امام شافعی کو آزاد کردیا ، اس طرح وہ قتل سے بچ گئے گویا یہ امام محمد علیہ الرحمہ کا امام شافعی علیہ الرحمۃ پر بڑا احسان ہے نہ صرف ان پر بلکہ تمام شوافع پر تاقیامت کہ ان کی جان بچائی ، ( انوار الباری ج1،ص35)
نوٹ !
یہ امام محمد حضرت امام ابو حنیفہ کے شاگرد مشہور ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ امام شافعی امام محمد کے شاگرد بھی ہیں اور کافی مدت تک ان کے ز یر سایہ بھی رہے ۔
آپ اپنے ابتدائی علم کے حالات بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ابتداء زمانہ میں یہ حال تھا کہ استاد کو اجرت دینے کے لئے کچھ نہ تھا چنانچہ اس شرط پر کہ میں ان کے جانے کے بعد باقی شاگردوں کو دیکھا کروں گا علم حاصل کرنا شروع کیا قرآن پڑھنے کے بعد علم حدیث کے حلقوں میں بیٹھنا شروع کیا اور جو حدیث سنتا یاد ہو جاتی اس وقت میں کاغذ بھی نہیں خرید سکتا تھا اور چکنی ہڈیاں ڈھونڈتا اگر مل جاتیں تو ان پر لکھ کر انھیں گھر کے پرانے گھڑے میں احتیاط سے رکھ لیتا ۔
کسی نے حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میری بیوی کے پاس ایک کھجور تھی میں نے اس کو کہہ دیا کہ اگر کھجور کھائے تو بھی طلاق اور اگر نہ کھائے تو بھی طلاق ، بتائیں اب میں کیا کروں ؟
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں آدھی کھجور کھالے اور آدھی پھینک دے ۔
آپ کی وفات بعمر 54سال 204ھ میں ہوئی بعد وفات امام شافعی کو ربیع بن مرادی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا اللہ تعالٰی نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا فرمایا ، مجھے ایک سنہری کرسی پر بٹھا کر میرے اوپر تازہ تازہ موتیوں کی لڑی بکھیری ۔( انوار الباری جلد 1 ص142)