30.6.11

مرزا غلام احمد قادیانی

 
مرزا غلام احمد قادیانی
    اس نے ١٩٠٠؁ء میں انگریزوں کی سازش اور منصوبہ سے قادیان پنجاب میں نبوت کا دعویٰ کیا۔
مرزا کا تعارف
    مرزا غلام احمد قادیانی بقول اپنے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود ١٨٣٩؁ء یا ١٨٤٠؁ء میں ہندوستانی پنجاب کے مقام قادیان ضلع گورداسپور میں پیدا ہوا۔ اس دور میں رائج عربی و فارسی کی تعلیم مرزا نے اس دور کے بڑے بڑے اساتذہ علامہ فضل احمد، علامہ گل حسن شاہ اور علامہ فضل الٰہی سے حاصل کیا اور دین کی پوری تعلیم پائی۔ طب کی تعلیم اپنے والد مرزا غلام عطا محمد ولد مرزا گل محمد سے حاصل کی۔
انگریز کی ملازمت
    تقریباً ٢٤/ سال کی عمر میں انگریزی حکومت کے ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے آفس میں پندرہ روپے ماہانہ تنخواہ پر بحیثیت کلرک ملازمت شروع کی اور اس معمولی ملازمت کے ذریعہ تاج برطانیہ کا قرب حاصل کیا اور سامراج نے مرزا کو اپنے مطلب کا آدمی پاکر افتراق و انتشارِ بین المسلمین کا آلہ کار بنانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ مرزا نے بھی خوب حق نمک ادا کیا اور انگریزوں کا یہ ریزہ خوار بڑا وفادار ثابت ہوا۔
    انگریز کو ایسے وفادار ریزہ خوار اور آلہ کار کی تلاش تھی ہی، جب مرزا قادیانی کی شکل میں انہیں کام کا آدمی مل گیا تو اس سے جو اصل کام لینا تھا اس کے لیے کلرک کی خدمت چند سال بعد چھڑاوادی اور مرزا کو اصل کام پر لگادیا۔ اسی دوران ١٨٧٦؁ء میں اس کے والد مرگئے۔
مرزا میدانِ عمل میں
    باپ کی موت سے ایک طرح سے مرزا بالکل آزاد ہوگیا اور انگریز کے سپرد کردہ اصل کام کو صحیح ڈھنگ سے انجام دینے کے لیے عربی فارسی میں مزید پختگی کی کوشش کی اور عربی و فارسی کے ساتھ اردو زبان میں لکھنے کی مشق تیز کردی۔بقول شیخ محمد اکرام ان دنوں ان (مرزا قادیانی) کی حالت نیم مجذوبانہ سی رہتی تھی (موج کوثر ص ١٧٨)
    مرزا نے اوّلاً اپنے آپ کو ایک مصلح کی حیثیت سے پیش کیا اور ١٨٧٩؁ء میں تصانیف کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ عالم دین تو تھا ہی دوسری طرف انگریز کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ جلد ہی وہ ایک کامیاب و مقبول واعظ و مصلح کی حیثیت سے مشہور ہوگیا اور ایک اچھا خاصا طبقہ اس سے متاثر ہوگیا۔ اس ابتدائی کامیابی کے بعد حوصلہ بلند ہوا اور تدریجا ً منصوبہ بند طریقے سے مختلف قسم کے دعوے کرنے شروع کردیئے۔ سب سے پہلے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔ ١٨٨٢؁ء میں دعویٰ کیا کہ اسے کثرت سے الہامات ہوتے ہیں۔ پھر ١٨٨٨؁ء میں مہدی موعود بنا۔ پھر ترقی کرکے ١٨٩٠؁ء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بکواس کی کہ نہ وہ زندہ ہیں اور نہ چوتھے آسمان پر ہیں، بلکہ فوت ہوچکے ہیں اور ان کی قبر کشمیر میں ہے۔
اور یہ کہ وہ (یعنی قادیانی) عیسیٰ مسیح کی مثیل ہے۔ علمائے وقت کی طرف سے جب اس کی مخالفت ہوئی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کھلی توہین پر اتر آیا اور ان کی شان میں گالی گلوچ اور خرافات کی بھرمار کردی۔ ان کے معجزات کو مسمریزم کہا، اپنے کو ان سے افضل بتایا، انہیں نادان، چور، شریر، مکار، بدعقل، زانی خیال کیا، فحش گو، جھوٹا، گندی گالیاں دینے والا، پیروِ شیطان کا خطاب دیا اور آپ کی تین دادیوں اور نانیوں کو زناکار بتایا (معاذ اللہ)
    ١٩٠١؁ء میں مرزا نے ظلی و بروزی اور غیر تشریعی نبی اور پھر اصلی نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور ٢٩/ مئی ١٩٠٨؁ء کو اچانک قہر خدا کا شکار ہوا اور ہیضہ میں مبتلا ہوکر لاہور میں پاخانے کے اندر موت واقع ہوئی۔
جنازہ لوگوں سے چھپاکر اور مال گاڑی میں لاد کر قادیانی لایا گیا اور وہیں دفن کردیا گیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی اور دعوائے نبوت
    قادیانیت کے دوسرے امام اور مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین ١٩١٥؁ء نے قادیانیوں کے دوسرے مختصر گروپ لاہوری پارٹی کے خلاف حقیقۃ النبوۃ نام کی ایک کتاب لکھی جس کے پچاس صفحات صرف اس لیے سیاہ کیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اسی معنی کر اور اسی قسم کے نبی تھے جس معنی کے اور جیسے نبی پہلے آتے رہے اور اگلے نبیوں کے نہ ماننے والے جس طرح کافر ہیں اور نجات کے مستحق نہیں اسی طرح مرزا صاحب کے نہ ماننے والے سارے مسلمان بھی کافر اور نجات سے محروم رہنے والے ہیں۔
    اس میں مرزا کی نبوت پر بیس دلیلیں دی گئی ہیں۔ ان میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ مرزا صاحب نے خود اپنے کو نبی اور رسول کہا ہے۔ اس کے بعد اس کے لڑکے اور حقیقۃ النبوۃ کے مصنف نے مرزا کی کتابوں سے انتالیس عبارتیں درج کی ہیں ان میں سے کچھ آپ بھی پڑھیے، مرزا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
١-    میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے (تتمہ حقیقۃ الوحی، صفحہ ٦٨/ از مرزاقادیانی)
٢-    ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول و نبی ہیں (بدر، ٥/ مارچ ١٩٠٨؁ئ)
٣-    س
چا خدا وہی ہے جس نے قادیانی میں اپنا رسول بھیجا (دافع البلائ، صفحہ ١١)
٤-    خدا تعالیٰ۔۔۔۔۔۔ قادیان کو اس طاعون کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے (دافع البلائ، صفحہ ١٠)
٥-    پس خدا نے اپنی سنت کے موافق ایک نبی مبعوث ہونے تک وہ عذاب ملتوی رکھا اور جب وہ نبی مبعوث ہوگیا۔۔۔۔۔۔ تب وہ وقت آیا کہ ان کو ان کے جرائم کی سزا دی جائے (تتمہ حقیقۃ الوحی، ص ٥٢)
    مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے دعوائے نبوت کے ساتھ ساتھ کچھ خدائی الہامات بھی گڑھے ہیں۔ اس کے بیٹے بشیر الدین محمود نے ان الہامات میں کو بھی اپنے باپ کی نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان من گڑھت الہامات میں سے ہم صرف پانچ کو حقیقۃ الوحی کے حوالے سے ذکر کر رہے ہیں، مرزا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
١-    ''ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق و تھذیب الاخلاق'' وہی خدا جس نے اپنا رسول، ہدایت، دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔
٢-    ''انا ارسلنا احمد الی قوم فاعرضوا و قالوا کذاب اشر'' ہم نے احمد (مرزا غلام احمد قادیانی) کو ایک قوم کے پاس بھیجا تو اس نے اعراض کیا اور کہا یہ انتہائی جھوٹا اور بہت شریر ہے۔
٣-    ''انی مع الرسول اقوم و الوم من یلوم'' میں رسول کے ساتھ قائم ہوں اور ملامت کرنے والے کو ملامت کرتا ہوں۔
٤-    ''انی مع الرسول اقوم و افطر و اصوم'' میں رسول کے ساتھ قائم ہوں اور بے روزے کے رہتا ہوں اور روزے سے بھی۔
٥-    ''انی مع الرسول اقوم و من یلومہ الوم'' میں رسول کے ساتھ قائم ہوں اور جو اس کی ملامت کرتا ہے میں اس کی ملامت کرتا ہوں۔
    بشیر الدین محمود ان الہامات کو ذکر کرنے کے بعد سوال کرتا ہے کہ کیا سب نبیوں کو ہم اس لیے نبی نہیں مانتے کہ خدائے تعالیٰ نے ان کو نبی کہا ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ وہی خدا جس نے موسیٰ سے کہا تو نبی ہے تو وہ نبی ہوگیا اور عیسیٰ سے کہا کہ تو نبی ہے تو وہ نبی ہوگیا، لیکن آج مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی سے کہتا ہے کہ تو نبی ہے تو وہ نبی نہیں ہوتا؟ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی یقینی وحی کی موجودگی میں کوئی شخص مسیح موعود کی نبوت کا انکار کر سکتا ہے؟ اور جو شخص انکار کرتا ہے اسے ضرور پہلے نبیوں کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح کی نبوت دلائل اور جن الفاظ سے ثابت ہوتی ہے ان سے بڑھ کر دلائل اور صاف الفاظ حضرت مسیح موعود کی نبوت کے متعلق موجود ہیں، ان کے ہوتے ہوئے اگر مسیح موعود نبی نہیں ہوتا تو دنیا میں آج تک کبھی کوئی نبی ہوا ہی نہیں (حقیقۃ النبوۃ، ص ٢٠٠/ تا ٢٠١)
    باپ کی نبوت پر ایک اور دعویٰ دیکھئے، بشیر الدین محمود لکھتے ہیں ''بلحاظِ نبوت ہم بھی مرزا (غلام احمد قادیانی) صاحب کو پہلے نبیوں کے مطابق مانتے ہیں'' (ایضاً ص ٢٩٢) اور اس دعوے کی دلیل میں کہتے ہیں کہ ''اوّل دلیل حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) کے نبی ہونے پر یہ ہے کہ جس طرح خدائے تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت نوح اور حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کو نبی کہہ کر پکارا ہے حضرت مسیح موعود کو بھی قرآن کریم میں رسول کے نام سے یاد فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک تو آیت ''مبشرا برسول یاتی من بعد اسمہ احمد'' سے ثابت ہے کہ آنے والے مسیح کا نام اللہ تعالیٰ رسول رکھتا ہے۔ پس جس کا نام قرآن کریم رسول رکھتا ہے اس کے نبی اور رسول ہونے میں کیا شک کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔ اگر مسیح موعود نبی نہ تھے تو پہلے بزرگ بھی نبی نہ تھے، دونوں کی نبوت پر ایک ہی کتاب شاہد ہے'' (حقیقۃ النبوۃ ص ١٨٨)
مرزا صاحب کا خدائی دعویٰ
    ''رایتنی فی المنام عین اللہ و تیقنت اننی ھو'' (آئینہ کمالات اسلام، ص ٥٦٤/ از مرزا) میں نے نیند میں خود کو ہو بہو اللہ دیکھا اور مجھے یقین ہوگیا کہ میں وہی اللہ ہوں۔
خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ
    مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''انت بمنزلۃ ولدی'' (حقیقۃ الوحی، ص ٨٦) تم میرے بیٹے کی جگہ ہو۔
کرشن ہونے کا دعویٰ
    ٢/ نومبر ١٩٠٤؁ء کو مرزا صاحب نے سیالکوٹ میں ایک لیکچر دیا جس میں کرشن ہونے کا دعویٰ کیا۔ خود کو ''ہے کرشن جی رودد گوپال'' لکھا (البشریٰ، جلد اوّل، صفحہ ٥٦)
اوتار ہونے کا دعویٰ
    ہندؤں کو خطاب کرتے ہوئے لکھا برمن اوتار (یعنی مرزا) سے مقابلہ اچھا نہیں (ازالہ اوہام، ص ٦٥٨)
عیسیٰ ابن مریم ہونے کا دعویٰ
    نازل ہونے والا ابن مریم یہی ہے۔
محمد ہونے کا دعویٰ
    خدا نے مجھ پر اس رسول کا فیض اتارا اور اس کو پورا کیا اور مکمل کیا اور میری طرف اس رسول کا لطف اور جود بھرا، یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہوگیا (خطبہ الہامات، ص ١٧١)
احمد ہونے کا دعویٰ
    آیت کریمہ ''و مبشرا برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد'' میں لفظ ''احمد'' سے متعلق دعویٰ کیا کہ وہ احمد میں ہی ہوں (ایضاً ص ٦٧٣)
مجدد ہونے کا دعویٰ
    اس عاجز کو دعوائے مجدد ہونے پر اب بفضلہ تعالیٰ گیارہواں برس جاتا ہے (نشان آسمانی، ص ٣٤)
محدث ہونے کا دعویٰ
    میں محدث ہوں (حمامۃ البشریٰ ص ٧٩)
مہدی ہونے کا دعویٰ
    میں مہدی ہوں (معیار الاجتہاد، ص ١١)
مرزا کے کفریات
    مرزا قادیانی کے کفریات برساتی کیڑوں کی طرح سیکڑوں کی تعداد میں اس کی کتابوں میں رینگ رہے ہیں، ہم ان میں سے دس کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے مزید رد و جواب کے لیے مجددِ دین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کے رسائل کا مطالعہ کریں۔
کفر اوّل        میں احمد ہوں جو آیت ''و مبشرا برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد'' میں مراد ہے (ایک غلطی کا ازالہ، ص ٦٧٣)
کفر دوم        میں محدث ہوں (توضیح مرام، ص ١٦)
کفر سوم        سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا (دافع البلائ، ص ٢٦)
کفر چہارم    خدائے تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس عاجز کا نام امتی بھی رکھا ہے اور نبی بھی (براہین احمدیہ)
کفر پنجم        حضرت مسیح علیہ السلام سے اپنی برتری کا اظہار کیا ہے (دافع البلائ، ص ١٠)
کفر ششم        ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو۔ اس سے بہتر غلام احمد ہے (ایضاً ص ١٧)
کفر ہفتم        میں بعض نبیوں سے بھی افضل ہوں (معیار الاخیار)
کفر ہشتم        اگر میں اس قسم کے معجزات کو مکروہ نہ جانتا تو ابن مریم سے کم نہ رہتا (ازالہ اوہام، ص ١١٦)
کفر نہم        آپ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام) کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے (ضمیمہ انجام آتھم، ص ٧)
کفر دہم        ایک زمانے میں چار سو نبیوں کی پیش گوئی غلط ہوئی (ازالہ اوہام، ص ٢٣٤)
انبیاء و اولیا کی شان میں
مرزا کی گستاخیاں اور بدزبانیاں
١-    ان لوگوں نے چوروں، قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ شروع کردیا (ازالہ ص ٧٢٤)
٢-    کنجریوں کے بچوں کے بغیر جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگادی ہے باقی سب میری نبوت پر ایمان لا چکے ہیں (آئینہ کمالات، ص ٥٤٧)
٣-    دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں (نجم الہدیٰ، ص ١٠)
٤-    اے بد ذات فرقہ مولیاں! کب تک حق کو چھپاؤ گے؟ کب وہ وقت آئے گاکہ تم یہودیانہ خصلت کو چھوڑ دو گئے؟ (انجام آتھم، حاشیہ ص ٢١)
٥-    کذاب خبیث بچھو کی طرح نیش زن ہے، اے گولڑہ کی سرزمین تجھ پر خدا کی لعنت ہو۔ تو ملعون کے سبب ملعون ہوگئی (نزول المسیح، ص ٧٥)
٦-    مسیح (عیسیٰ علیہ السلام) کا چال چلن کیا تھا، ایک کھاؤ پیٹو، شرابی کبابی، نہ زاہد عابد، نہ حق کا پرستار، خود بیں، خدائی کا دعویٰ کرنے والا (مکتوب احمد، ج ٣/ ص ٢١)
٧-    آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کی تین دادیاں اور نانیاں زناکار اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا (ضمیمہ انجام آتھم، ص ٧)
٨-    پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو، اب نئی خلافت لو۔ ایک زندہ علی (مرزا قادیانی) تم میں موجود ہے۔ اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کو تلاش کرتے ہو (ملفوظات احمدیہ، ج ١/ ص ٣١)
٩-    حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں (ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ ص ١١)
اسلام کے مقابل ایک نیا دینی محاذ
    مرزا غلام احمد قادیانی نے سچے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل جھوٹا نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔۔۔۔۔۔ جس نے قادیان کو مسجد حرام کے مقابل ارضِ حرام قرار دیا۔۔۔۔۔۔ جس نے اپنی آبادی کو مکہ کے مقابل مکۃ المسیح بتایا۔۔۔۔۔۔ جس نے شہر لاہور کو مدینۃ الرسول کے مقابل ایک نیا مدینہ کہا۔۔۔۔۔۔ جس نے اپنے قبرستان کو خدا کی جنت کے مقابل مقبرہئ جنت کا نام دیا۔۔۔۔۔۔ جس نے اپنی بیویوں کو ازواجِ رسول کے مقابل امہات المومنین سمجھا۔۔۔۔۔۔ جس نے اپنے پیروکاروں کو امت رسول کے مقابل اپنی امت گردانا۔۔۔۔۔۔ جس نے اپنی بیٹی کو فاطمہ زہرا کے مقابل جنتی عورتوں کی سردار قرار دیا۔۔۔۔۔۔ جس نے ٹیچی کو جبریل کے مقابل فرشتہ وحی بتایا۔
مرزا صاحب اپنی نظر میں
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار

29.6.11

جھوٹے مدعیانِ نبوت

ماخوذ از : قادیانیت اور تحریک تحفظ ختم نبوت
شائع کردہ : ورلڈ اسلامک مشن ہالینڈ
    مال و دولت، اقتدار و حکومت،عزت و وجاہت اور ناموری و شہرت کی طلب و چاہت انسانی فطرت میں داخل ہے۔ ان چیزوں کے حصول کے لیے انسان وہ سب کام کر ڈالتا ہے جس کی اجازت نہ عقل دیتی ہے اور نہ دین۔ اس مقصد کے لیے جان و مال عزت و آبرو حتیٰ کہ ایمان بھی داؤ پر لگا دیا جاتا ہے، جس کی گواہی میں حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حال کی تاریخ میں بے شمار واقعات آسانی سے مل جائیں گے۔
    الوہیت کے بعد نبوت سب سے بڑا منصب ہے، اس منصب کے لیے سب سے اشرف مخلوق انسانوں میں سے ایسے مومن مرد کا انتخاب خداند قدوس خود کرتا ہے جو تمام انسانی خصائل حمیدہ کا جامع ہو، نبی اپنے دور کا انسانِ کامل ہی نہیں بلکہ مومن کامل اور خدائی انتخاب ہوتا ہے۔ اس میں کسب کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا کہ کوئی مرد یا عورت اپنے اخلاق و اعمال اور غیر معمولی صلاحیتوں اور کوششوں سے اسے حاصل کرسکے۔
    نبوت کی اس ناقابل انکار حقیقت کے باوجود بعض لالچی و نفس پرست اور مکار لوگ اپنی عقل و ذہانت، علم و دانائی اور اقتدار و حکومت کے بل بوتے پر اس خدائی منصب پر از خود فائز ہونے کی ناپاک و ناکام جرأت سے باز نہیں رہے اور جھوٹا دعوائے نبوت کر بیٹھے۔ مرد تو مرد عورتیں بھی پیچھے نہیں رہیں۔
    دورِ رسالت سے اب تک دعوائے نبوت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے، اخبارات اور رسالوں میں خبر چھپی کہ ندوہ کے پڑھے ہوئے مسیح الدین ندوی نامی ایک شخص نے حیدرآباد دکن میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور وہاں مخالفت ہوئی تو ناگپور میں آکر پناہ لی اور گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوا۔
    تاریخ اسلام میں اس طرح کے بہت سے افراد ملیں گے جنہوں نے دعوائے نبوت کیا۔ ان میں بعض بہت مشہور ہوئے اور بعض گمنام ہوگئے۔ بذریعہ وحی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم تھا کہ بعض جھوٹے نبی پیدا ہوں گے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی ان لوگوں سے امت کو آگاہ فرمادیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ''انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین لا نبی بعدی'' (مسند احمد ج ٥/ ص ٢٧٨) کہ بیشک میری امت میں تیس کذاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے کو نبی کہے گا جبکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ دورِ رسالت کے مشہور مدعیانِ نبوت میں مسیلمہ کذاب و اسود عنسی اور سجاح بنت حارث گزرے ہیں۔
اسود عنسی
    اس کا اصل نام عیلہ تھا۔ عنس بن قد حج کی نسبت کی وجہ سے عنسی مشہور ہوا۔ یہ ایک چرب زبان کاہن تھا۔ اس نے اپنی چرب زبانی اور کہانت کے زور پر بہت سے ضعیف الاعتقاد لوگوں کو اپنا گرویدہ اور پیروکار بنالیا۔ جب ان لوگوں پر اس نے پورا قابو پالیا تو نبوت کا دعویٰ کردیا اور کہنے لگا کہ مجھ پر خدا کی طرف سے وحی آتی ہے۔ جو فرشتہ لاتا ہے وہ گدھے پر سوار ہوتا ہے۔
اسی وجہ سے اسے ''ذو الحمار'' یعنی گدھے والا کہا جاتا ہے۔ اس کی پیشگوئیوں سے متاثر ہوکر لوگوں نے بلا لیت و لعل اسے نبی مان لیا۔
سرکوبی
    اس نے اپنے پیروکاروں پر مشتمل لشکر تیار کرکے یمن کے دارالسلطنت صنعاء پر دھاوا بول دیا۔ یہ دورِ رسالت کی بات ہے۔ اس وقت صنعاء پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ شہر بن باذان حاکم تھے جو مقابلے میں شہید ہوگئے اور اسود صنعاء کا حاکم بن گیا اور ان کی بیوہ مرزبانہ کو جبراً اپنے عقد میں لے لیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جو یمن کے دیگر علاقوں کے حاکم تھے، اس جابر و ملعون مدعی نبوت کی سرکوبی کے لیے متعین فرمایا۔
    ان دونوں حضرات نے مرزبانہ سے رابطہ کرکے اسود عنسی کے قتل کا منصوبہ ترتیب دیا۔ ایک رات مرزبانہ نے اسود کو کافی مقدار میں خالص شراب پلا کر مدہوش کردیا اور مرزبانہ کے چچازاد بھائی حضرت فیروز دیلمی اپنے ساتھیوں کی مدد سے مکان میں نقب لگا کر اندر داخل ہوگئے اور ملعون کا کام تمام کردیا۔ پہرے داروںنے ملعون کی خوفناک آواز سنی تو گھبرا کر دوڑے لیکن مرزبانہ نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے انہیں روک دیا کہ خاموش رہو تمہارے نبی پر وحی اتر رہی ہے۔ چنانچہ وہ خاموشی سے چلے گئے۔
    جب اذانِ فجر میں موذن نے ایک شہادت کا اضافہ کرکے کہا ''اشھد ان عیلۃ کذاب'' تو سب کو قتل کی اطلاع ہوگئی اور اس کے پیروکار میں سے بہت سے مارے گئے اور بہت سے مشرف باسلام ہوگئے۔
    فوراً یہ خوشخبری مدینہ بھیجی گئی مگر جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوچکا تھا۔ رحلت سے ایک رات پہلے بذریعہ وحی الٰہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمادیا تھا کہ آج رات اسود عنسی مارا گیا ہے اور ایک مردِ مبارک نے اسے مارا ہے، اس کا نام فیروز ہے۔ پھر فرمایا ''فاز فیروز'' کہ فیروز کامیاب ہوگیا۔ اس طرح یہ ناپاک مدعی نبوت انجام کو پہنچا۔
مسیلمہ کذاب
    اس کا نام مسیلمہ بن ثمالہ تھا۔ اختلافِ روایت سن نو ہجری یا دس ہجری میں نجد کے وفد بنو حنیفہ کے ساتھ یہ بھی مدینہ آیا۔ اس کے سوا تمام ارکان وفد نے حاضر دربارِ رسالت ہوکر اسلام قبول کرلیا مگر یہ محروم رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیام گاہ پر جاکر فرمایا ''اگر تو میرے بعد زندہ رہا تو حق تعالیٰ تجھے ہلاک فرمائے گا''
    ایک دوسری روایت کے مطابق یہ بھی مسلمان ہوگیا تھا مگر نجد جاکر مرتد ہوگیا اور نبوت کا دعویٰ بھی کردیا۔ شراب و زنا کو حلال کیا، نماز کی فرضیت ساقط کردی۔ یہ ایک بوڑھا اور انتہائی مکار انسان تھا۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ایک خط میں لکھا کہ ''زمین آدھی ہماری ہے اور آدھی قریش کی، مگر قریش زیادتی کرتے ہیں'' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً اسے لکھا ''اللہ کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے جھوٹے مسیلمہ کی طرف۔ اما بعد! کُل روئے زمین اللہ کی ہے، وہ جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے، اور بھلی عاقبت پرہیزگاروں کے لیے ہے''
سرکوبی
    یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی زندہ رہا۔ خلیفہ اوّل حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام کے اجماع اورمشورے سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے چوبیس ہزار کے لشکر کی مدد سے اس کی سرکوبی کے لیے جہاد کیا۔ جھوٹا مسیلمہ چالیس ہزار کے لشکر جرار کے ساتھ مقابلے پر آیا مگر خدائی مدد کے آگے ناکام ہوا اور جہنم رسید ہوا۔ اس عظیم جہاد میں بارہ سو صحابہ و تابعین نے اٹھائیس ہزار منکرین ختم نبوت کو جہنم رسید کرکے جام شہادت نوش کیا۔
سجاح بنت حارث
    یہ ایک عورت تھی جس نے بنی تغلب میں اپنی نبوت کا دعویٰ کیا۔ چند ہوس پرست اس کے ہمنوا ہوگئے۔ یہ مسیلمہ ہی کے دور کی ہے۔ جھوٹے نبی نے جھوٹی مدعیہ نبوت کی مقبولیت سے خائف ہوکر مبارکباد اور تحفے بھیجے اور ملاقات کرکے اس سے شادی بھی کرلی۔ مہر میں سجاح کے پیروکاروں سے صبح و عشاء کی نماز ساقط کردی گئی۔ اتنے میں حضرت خالد کا لشکر آپہنچا اور ان پر غالب آیا۔ ایک روایت کے مطابق سجاح اور اس کے پیروکاروں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔
طلیحہ
    عہدنبوت کے بعد اس نے دعوائے نبوت کیا۔ یہ قبیلہ بنی اسد سے تھا۔ اس کی سرکوبی کا فریضہ بھی دورِ صدیقی میں حضرت خالد بن ولید کے ذریعے انجام پایا۔ قبیلہ فزار کے لوگ اس کے پیروکار تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی کمان میں اس کی سرکوبی کے لیے اسلامی لشکر بھیجا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بنی طے میں پہنچے اور کوہِ سلمی اور کوہِ جاوا کے درمیان یہ لشکر ٹھہر گیا۔ آس پاس کے مسلمان بھی شریک لشکر ہوگئے۔ سب نے مل کر طلیحہ اور اس کے مکار حواری علینیہ بن حصین فزاری اور دیگر فزاریوں سے جنگ کی۔ فزاریوں کو شکست کا منہہ دیکھنا پڑا اور وہ اپنے سردار علینیہ سمیت اپنے جھوٹے نبی طلیحہ کو بے یار و مددگار چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
انجام
    طلیحہ نے پہلے تو فرار کی راہ اختیار کی لیکن بعد میں امان لے کر حضرت خالد بن ولید کے پاس حاضر ہوگیا اور مسلمان ہوگیا۔ حتیٰ کہ جہادوں میں حصہ لیا۔ ایران کے محاذوں پر حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جہاد کیا اور دورِ فاروقی میں حضرت ساریہ کے ساتھ جنگ نہاوند میں شرکت کی اور شہادت پاکر داخل جنت ہوا اور انجام بخیر ہوا۔
مختار بن عبید ثقفی
    اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا جس کی سرکوبی حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔ زمانہ خلافت راشدہ کے بعد بھی کچھ طالع آزماؤں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ارتداد و دعوائے نبوت کی وجہ سے انہیں مسلم حکمرانوں اور اس عہد کے علماء و مشائخ نے انہیں خارج از اسلام قرار دینے کے ساتھ ساتھ گرفتار کرکے سزائے موت دی۔ حتیٰ کہ بعض عرصے تک عبرت کے لیے سولی پر لٹکا کر رکھے گئے۔
    عبد الملک بن مروان کے زمانے میں حارث نام کے ایک شخص نے دعوائے نبوت کیا اور اپنے شرعی اور منطقی انجام کو پہنچا۔
    ہارون رشید کے دور میں بھی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ میں نوح علیہ السلام ہوں۔ کیونکہ (اصلی) نوح علیہ السلام کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی جو ایک ہزار سے پچاس کم تھی جس کے پورا کرنے کے لیے اب اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اور اپنے دعویٰ پر قرآن مجید سے دلیل دی کہ ''الف سنۃ الا خمسین عاما''' فرمایا گیا ہے، یعنی نوح علیہ السلام دنیا میں پچاس سال کم ایک ہزار سال زندہ رہے۔
    اسے بھی اس دور کے علمائے سلف کے اتباع میں مرتد قرار دے کر قتل کا حکم دیا اور اسے بھی سولی دی گئی (کتاب المحاسن و المساوی، جلد اوّل، صفحہ ٦٤/ از امام بیہقی)

 

تحریک تحفظ ختم نبوت اور علامہ شاہ احمد نورانی

تحریک تحفظ ختم نبوت اور علامہ شاہ احمد نورانی

عقیدہ ختم نبوت اسلام کی اساس اور وہ بنیاد ہے جس پر دین اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے، یہی وہ عقیدہ ہے جوجسد اسلا م کی روح ہے، یہی وجہ ہے کہ اس عقیدہ کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر مسلمان ہر دور میں تحفظ ختم نبوت کیلئے بڑے حساس اور چوکس رہے ہیں، تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جب بھی کسی کمینہ خصلت نے قصر نبوت پر ڈاکہ زنی کی ناپاک جسارت کی، غیور مسلمانوں کی تلواریں اللہ کا انتقام بن کر اس کی طرف لپکیں اور اس جہنم واصل کر دیا،مسلمانوں کی تاریخ اس عقیدے کے تحفظ کیلئے قربانیاں دینے والوں سے بھری ہوئی ہے ، ختم نبوت اتنا اہم مسئلہ ہے کہ قرآن مجید میں سو سے زائد مقامات پر اس کا واضح الفاظ میں ذکر موجود ہے جبکہ خودرسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کم و بیش دو سے زائد احادیث مبارکہ میں اس امر کی وضاحت مختلف پیرائے میں کی کہ پوری امت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم نبوت کے مسئلہ پر یکسو اور متحد ہو گئی اور یہ پوری امت کا متفقہ عقیدہ قرار پایا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے لے کر آج تک ہر دور میں دنیا کے حریص اور طالع آزماﺅں نے جھوٹ، فریب، مکر و دجل اور شعبدے بازیوں سے قصر نبوت میں نقب لگانے کی جسارت کی، مگر امت مسلمہ اس جعلسازی کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیشہ مستعد رہی،مسیلمہ کذاب،طلیحہ بن خویلد ،اسود عنسی سے لے کر مرزا قادیانی تک امت مسلمہ نے ہر دور میں ان نقب زنوں کا کامیاب تعاقب کیا ، 1901ئ میں جب سے مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے خود ساختہ نبی ہونے کا اعلان کیا،تو علماءو مشائخ نے اس فتنے کے سدباب اورہر میدان میں قادیانیت کا محاسبہ جاری رکھا۔

بیسویں صدی کا آغاز امت مسلمہ کیلئے جن بدترین حالات میں ہو ا،اس کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،لیکن اس تاریک دور میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے امت کو ایسے افراد سے نوازا جنھوں نے کفر و طاغوت اور ظلم و استحصالی نظام کے خلاف ہر محاذ پر چومکھی لڑائی لڑی ،ان نفوس قدسیہ میں حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو ایک ممتاز اورمنفرد مقام حاصل ہے،علامہ شاہ احمد نورانی کی زندگی اسلام کے عملی نفاذ،دینی قوتوں اورجمہوری اداروں کی فروغ وبقا،پاکستان کے استحکام و سا لمیت، مسلم وحدت کی مسلسل جدوجہد ، احیائے اسلام اور کفر کے خلاف عالم اسلام کی بیداری سے عبارت ہے۔

یکم اپریل 1926ءمیں مبلغ اسلام سفیر پاکستان حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی رحمتہ اللہ علیہ کے گھر پیدا ہونے والے اس فرزند ارجمند نے زندگی بھر اپنے ایمان ،ضمیراور نسبی تقاضوں کوسامنے رکھ کر احقاق حق اور ابطال ِ باطل شمع روشن رکھی،علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی زندگی کا واحد مشن ملک خداداد پاکستان میں نظام مصطفی کا نفاذ اور مقام مصطفی کا تحفظ تھا،جناب شاکر حسین خان ریسرچ اسکالر علوم اسلامی جامعہ کراچی اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ

 ”قیام پاکستان کے بعد علماءو مشائخ نے 1953ءمیں قادیانیوں کے خلاف تحریک چلائی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی،اس کے باوجود علمائے حق نئی حکمت عملی سے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے اور ہر محاذ پر قادیانیوں کے سامنے سینہ سپر رہے،وہ علماءجنہوں نے حق کی آواز کو تحریک ختم نبوت 1953ءکی ناکامی کے بعد دوبارہ بلند کیا، ان میں روشن و تابندہ نام مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کا ہے،جنہوں نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے بھر پور طریقے سے عملی جدوجہد جاری رکھی،قادیانیوں کے خلاف تحریک چلائی اور ان کی ہر موڑ پر مخالفت کرتے رہے،مولانا کو قادیانیوں کی مخالفت کرنا ورثے میں ملی تھی،ان کے والد مولانا شاہ عبد العلیم صدیقی قادیانیوں کے اہم مخالفین میں سے تھے،انہوں نے افریقہ ،یورپ،سیلون ،انڈونیشیا، ملائیشیا،برما،اور عرب ریاستوں میں قادیانیت کے خلاف مہم چلائی اور ان کے رد میں انگریزی زبان میں ”The Mirror“ نامی کتاب لکھی۔۔۔۔۔انہوں نے ایک کتاب اردو میں بھی تحریر کی،جس کا نام ”مرزائی حقیقت کا اظہار “ ہے،اس کتاب کا ملائیشیا کی زبان میں ترجمہ شائع ہوا تو وہاں قادیانیوں کے خلاف زبردست تحریک چلی،جس کے بعد ملائیشیا میں قادیانیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا، چنانچہ مولانا نورانی نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قادیانیوں کی مخالفت کی اور ہمیشہ ان کے آگے آہنی چٹان کی مانند کھڑے رہے۔“ بحوالہ ماہنامہ پیام حرم کراچی ،نومبر 2005 ءص23

علامہ نورانی 1971میں پہلی بار جمعیت علماءپاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے،15اپریل 1972ء کو قومی اسمبلی کا سہ روزہ افتتاحی اجلاس شروع ہواتوعلامہ نورانی نے اجلاس کے پہلے ہی روز جمعیت علماء پاکستان کے پارلیمانی قائد کی حیثیت سے عبوری آئین کے حوالے سے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کو اپنا موضوع گفتگو بنایا، یہ پاکستان کی تاریخ میں قومی اسمبلی کے فلور پر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں بلند ہونے والی سب سے پہلی آواز تھی،قومی اسمبلی میں اپنے اوّلین خطاب میں علامہ نورانی نے آئین کے اندر مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا پرزور مطالبہ کیااور کہا کہ ” جو لوگ حضور اکرم صلی للہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے ہم ان کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔“

آپ کے اس مطالبے کا مقصد پاکستان کے اس اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں پر عقیدہ ختم نبوت کے مخالف قادیانیوں اور غیر مسلموں کے فائز ہونے کے امکانات کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ تھا،دراصل علامہ نورانی کا آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا مطالبہ قادیانیوں کو کافر اور غیرمسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک کانقطہ آغاز اور 1974ءکی تحریک ختم نبوت کی بنیادی اساس تھا، اس اجلاس میں مولانا نورانی نے مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ”مسلمان وہ ہے کہ جو کتاب وسنت اور ضرویات دین پر یقین رکھتا ہو اور قرآن کو ان تشریحات کے مطابق مانتا ہو جو سلف صالحین نے کی ہیں،نیز حضور صلی للہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرتا ہو،اگراسلامی آئین میں مسلمان کی یہ تعریف شامل نہ کی گئی تو ہم ایسے آئین کو اسلامی آئین نہیں کہیں گے“ بحوالہ مولانا شاہ احمد نورانی ایک عالم ایک سیاستداں ،ص 102-103

چنانچہ 17اپریل 1972ءکوجمعیت علماءپاکستان اور متحدہ اپوزیشن کی جانب سے مسلمان کی جامع تعریف کو پہلی بار اسمبلی میں پیش کی گئی، جسے بعد میں 1973ءکے آئین میں شامل کرلیا گیا،علامہ نورانی کی کوششوں کی بدولت مسلمان کی تعریف پاکستان کے آئین کا حصہ بن چکی تھی، دراصل آئین میں اس تعریف کی شمولیت نے قادیانیوں کو ایک ایسی غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا، جس کا مستقبل میں صرف اعلان ہونا ہی باقی رہ گیا تھا، اس تعریف کی شمولیت سے قادیانیوں کو بھی یہ یقین ہو چلا تھا کہ وہ ایک غیر اعلانیہ غیر مسلم اقلیت قرار پاچکے ہیں، علامہ شاہ احمد نورانی پاکستان کی پارلیمانی اورآئینی تاریخ میں پہلے سیاستدان تھے، جنہوں نے سب سے پہلے آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا مطالبہ کیا اورآپ نے آئین سازی کیلئے قائم کمیٹی میں سب سے پہلی ترمیم مسلمان کی تعریف اور اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دینے سے متعلق پیش کی۔

مولانا نورانی کو منکرین ختم نبوت قادیانیوں اور قادیانیت سے شدید نفرت تھی اور اسی نفرت نے انہیں زندگی بھر قادیانیت کے خلاف مصروف جہاد رکھا،قیام پاکستان کے بعد امت مسلمہ کو امید تھی کہ ایک اسلامی نظریاتی ملک ہونے کی وجہ سے حکومت وقت عوام کے مذہبی جذبات و احساسات کا خیال کرتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے گی،لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوااور وقت کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا،یہاں تک قادیانیوں کی اسلام اور ملک دشمن سرگر میوں کی وجہ سے امت مسلمہ کی نفرت نے 1953ءکی تحریک ختم نبوت کو جنم دیا، جسے حکومت نے طاقت کے بل پر وقتی طور پر دبالیا،لیکن قادیانی ذ رّیت سے یہ نفرت امت مسلمہ کے دلوں میں سلگتی رہی،علامہ نورانی جو کہ نوجوانی میں تحریک ختم نبوت 1953ءمیں جیداکابر علماء کے ساتھ”علماءبورڈ کے ممبر اور مجلس عمل تحفظ ختم نبوت سندھ کے جنرل سیکرٹیری“کی حیثیت سے مرکزی کردار ادا کرچکے تھے۔

اس تحریک کی ناکامی کے اسباب و عوامل سے پوری طرح واقف تھے، چنانچہ آپ نے تحفظ ختم نبوت اور عظمت مصطفی کو مملکت کا قانون بنانے اور آئینی تحفظ دینے کیلئے کام کرنا شروع کردیا، اس سفر کی کامیاب ابتداءآئین میں مسلمان کی تعریف کی شمولیت ،ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ،دیگر اسلامی دفعات کو آئینی تحفظ دینے کے علاوہ عائلی قوانین کی تنسیخ ، تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کیلئے مسلمان ہونے کی شرط ، فتنہ ارتداد کو روکنے کی ضمانت حاصل کرنے اور پاکستان کے دستور کو دو قومی نظریے سے ہم آہنگ کرنے کی کوششوں سے ہوچکی تھی اور آپ اپنے اہداف پر نظر رکھے ہوئے مرحلہ وار اس منزل کی جانب رواں دواں تھے۔

علامہ نورانی29اپریل 1973ءکو آزاد کشمیر اسمبلی میں میجر (ریٹائرڈ)محمد ایوب کی متفقہ طور پرمنظور کی جانے والی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرار داد سے بھی اچھی طرح واقف تھے اور محسوس کررہے تھے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرار داد پاکستان کی نیشنل اسمبلی کو بھی منظور کرکے پاکستان کے مسلمانوںکے جذبات کی ترجمانی کرنی چاہیے،واضح رہے کہ میجر (ریٹائرڈ) محمد ایوب کی قرار داد کا اصل محرک اور اس کی بنیاد 17اپریل 1972ءکوپاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کردہ مسلمان کی وہ متفقہ تعریف تھی جسے علامہ نورانی اور آپکے رفقاءنے تیار کیا تھا ،آزاد کشمیر اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ایک نئی تاریخ ہی رقم نہیں کی بلکہ پاکستان کی نیشنل اسمبلی کے اراکین کیلئے بھی آئندہ کا لائحہ عمل متعین کردیا تھا۔

مرزائی آئین میں مسلمان کی تعریف کی شمولیت سے پہلے ہی سخت پریشان تھے کہ آزاد کشمیر اسمبلی میں قادیانیوں کے خلاف قراردادکی منظوری نے ان کے تمام خدشات کو یقین میں بدل دیااور انہیں محسوس ہونے لگا کہ عنقریب اب پاکستان کی قومی اسمبلی میں موجود علماءان کے مستقبل کے بارے میں قرار داد پیش کرکے ان کیلئے رہے سہے راستے بھی بند کردیں گے اس صورتحال نے مرزا ناصر کو اس قدر سیخ پا کردیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہذیان بکنے لگا، اتفاق سے اسی دوران سانحہ ربوہ پیش آگیا،جس نے قادیانیوں کے خلاف عوامی نفرت کو مزید گہرا کردیا،بعد میں یہی سانحہ تحریک ختم نبوت 1974ءکی اصل بنیاد بنا،علامہ شاہ احمد نورانی جو کہ تمام حالات کا نہایت ہی باریک بینی سے جائزہ لے رہے تھے ، نے محسوس کیا کہ اب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کیلئے آئینی اور قانونی جنگ لڑنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے، چنانچہ 30، جون 1974ءکو آپ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے تاریخ ساز قراردادقومی اسمبلی میں پیش کی ،جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔

اس حوالے سے رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن لکھتے ہیں کہ ”علماء اس سے پہلے بھی موجود تھے۔۔۔۔ مگر یہ سعادت ماضی میں کسی کے حصے میں بھی نہیں آئی،تاریخ پاکستان میں پہلی بار ایک مرد حق ،پیکر صدق و صفا ،کوہ استقامت اور حاصل جرات و شجاعت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی اسمبلی میں پہنچے اور فتنہ انکار ختم نبوت یعنی قادیانیت کو کفر و ارتداد قرار دینے کی بابت قرار داد قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ،تاریخ اسلام میں ریاست و مملکت کی سطح پر فتنہ انکار ختم نبوت کو کفروارتداد قرار دینے اور ان کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کا اعزاز جانشین رسول خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوااور ان کے بعد یہ اعزاز انہی کی اولاد امجاد میں علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو نصیب ہوا۔“بحوالہ ماہنامہ کاروان قمر کراچی نومبر دسمبر 2004ءص 20

قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی جو کہ پورے ایوان پر مشتمل تھی نے دو ماہ میں قادیانی مسئلے پر غور خوض کیلئے 28اجلاس اور 96نشستیں منعقد کیں،اس دوران قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے روبرو قادیانی گروہ کے سرخیل مرزا ناصر، لاہوری گروپ کے امیر صدرالدین اور انجمن اشاعت اسلام لاہور کے عبدالمنان اور مسعود بیگ پر ان کے عقائد و نظریات،ملک دشمنی اور یہودی و سامراجی گٹھ جوڑ کے حوالے سے جرح ہوئی،علامہ نورانی فرماتے ہیں کہ ” مسلسل گیارہ روز تک مرزا ناصر پر جرح ہوتی رہی اور سوال اور جوابی سوال کیا جاتا رہا،مرزا کو صفائی پیش کرتے کرتے پسینہ چھوٹ جاتااور آخر تنگ آکر کہہ دیتا کہ بس اب میں تھک گیا ہوں،اسے گمان نہیں تھا کہ اس طرح عدالتی کٹہرے میں بٹھاکر اس پر جرح کی جائے گی۔۔۔۔ وہ اپنا عقیدہ خود اراکین اسمبلی کے سامنے بیان کرگیا اور اس بات کا اعلان کرگیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی حضور صلی للہ علیہ وسلم کے بعد مسیح موعود اور امتی نبی ہے،جن اراکین اسمبلی کو قادیانیوں کے متعلق حقائق معلوم نہیں تھے،انہیں بھی معلوم ہوگیااور انہیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ مولانا نورانی جنہیں اقلیت قرار دلوانے کی سعی کررہے ہیں وہ لوگ واقعی کافر،مرتداور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔“بحوالہ ماہنامہ ضیائے حرم ختم نبوت نمبر 1974ء

قادیانی مسئلے پر فیصلہ کرنے کیلئے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے قادیانی مسئلہ کو جانچنے اور پرکھنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں چھوڑا،کمیٹی کی کارکردگی اور اس کی کاروائیوں پر حزب اختلاف کے لیڈروں نے بھی پورے اطمینان کا اظہار کیا،اس طویل جمہوری و پارلیمانی کاروائی کے بعد قومی اسمبلی نے پورے تدبر سے کام لیتے ہوئے 7، ستمبر 1974ءکو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی میں آئین کی وہ واحد ترمیم منظورکی جس کی مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیااور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ ”جو شخص خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی صلی للہ علیہ وسلم کی حتمی اور غیر مشروط ختم نبوت میں یقین نہیں رکھتا یا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے،کسی بھی لفظ یا بیان کے ذریعے حضرت محمد صلی للہ علیہ وسلم کے بعد ایک ایسے دعویدار کو نبی تسلیم کرتا ہے،یا کہ مذہبی مصلح جانتا ہے،وہ آئین یا قانون کی رو سے مسلمان نہیں ہے۔“

یوں جہاں علامہ شاہ احمد نورانی کی پیش کردہ قرار داد کی منظور ی نے ختم نبوت کے ہر منکر کو خارج اسلام قرار دے دیا،وہاں اس قرارداد کی منظوری نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عہد حکومت کوایک منفرد اعزاز سے مشرف کردیا ، 1973ءکا آئین ملک کا پہلا آئین تھا ، جس میں پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ، مملکت کا مذہب اسلام ،جس کی حفاظت کی ذمہ دار مملکت، مسلمان کی تعریف کی شمولیت اور قرآن و سنّت کے منافی کو ئی قانون نہ بنانے کی شقوں کی وجہ سے 1956ئ، 1962ءکے آئین سے قدرے ممتاز تھا، لیکن قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم نے اس آئین کو دنیا کے تمام اور بالخصوص اسلامی ممالک کے دستاتیر میں ایک منفرد اور انوکھا اعزاز بخشا، وہ اعزاز یہ تھا کہ اس آئینی ترمیم کے زریعے اسلام کے ایک بنیادی عقیدے عقیدہ ختم نبوت جس پر اسلام کی بنیاد قائم ہے اور جس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں علمائے کرام قرآن و سنّت کی رو سے اس کے غیر مسلم ہونے کا اعلان کرتے تھے کو آئینی اور قانونی تحفظ دے کر اسے مملکت پاکستان کا ایک ایسا قانون بنادیا گیا تھا جس کی ر ±و سے عقیدہ ختم نبوت پر یقین نہ رکھنے والا اور آپ صلی للہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور شخص کی نبوت کو ماننے والا کافر و مرتد ،خارج اسلام اور غیر مسلم اقلیت قرار پایا۔

اس لحاظ سے 1973ءکادستور دنیا کے تمام دستاتیر میں منفرد حیثیت اور ممتاز مقام رکھتا ہے، علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی برصغیر پاک و ہند میں تحریک ختم نبوت کے قائدِ آخر ہیں ،آپ کے ہاتھوں پاکستان کی قومی اسمبلی کے ذریعے اس نوے سالہ فتنے کا اختتام ہوااور تحریک ختم نبوت اپنے منطقی انجام تک پہنچی، جناب شاکر حسین خان ریسرچ اسکالرعلام اسلامی جامعہ کراچی لکھتے ہیں کہ ” بے شک علامہ شاہ احمد نورانی عصر حاضر میں عاشقان مصطفی کے سردار ہیں،آپ نے مقام مصطفی کے تحفظ کیلئے بے پناہ خدمات سرانجام دیں،آپ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنے موقف پر ڈتے رہے،اللہ تعالیٰ جس سے کام لینا چاہے لے لیتا ہے،اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو چناآپ نے جو کارنامہ سرانجام دیا وہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا،جس کی بدولت آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔“بحوالہ ماہنامہ پیام حرم نومبر 2006ص 26

جھوٹے مدعیان نبوت   عن  ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال لا تقوم الساعۃ حتٰی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول ...