غازی علم الدین شہید |
غازی علم دین شہید کو سزا کا فیصلہ متعصبانہ تھا‘ ریکارڈ
کی درستگی ضروری ہے
۔
لاہور (وقائع نگار خصوصی) بھٹو کیس کے ری اوپن ہونے کے ساتھ ہی کئی دہائی قبل کے عدالتی مقدمات کی دوبارہ سماعت کے لئے درخواستیں دائر کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ سب سے پہلے عاشق رسول غازی علم الدین شہید کو 80 سال قبل لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے گستاخ رسول راج پال کے قتل پر دی گئی پھانسی کی سزا کے فیصلہ پر نظرثانی کرنے کی درخواست دی گئی ہے۔ یوں مختلف سیاسی عدالتی حلقوں کی جانب سے بھٹو کیس کے ری اوپن کرنے سے جو پنڈورا بکس کھلنے کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ اور عدالت عظمٰی میں جہاں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں اور ججوں کی کمی کے باعث پہلے ہی سائل شدید مصائب و مشکلات کا شکار ہیں وہاں پرانے مقدمات کو ری اوپن کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تو پرانے مقدمات پر دوبارہ فیصلوں سے سوائے ریکارڈ کی درستگی کے کسی کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں لیکن اس کا نقصان براہ راست عدلیہ اورسائلین کو ضرور پہنچے گا کیونکہ اس سے عدلیہ پر نہ صرف کام کا دباﺅ بڑھے گا بلکہ اسے آئینی و قانونی حوالوں سے بھی کئی قسم کی پیچیدگیوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جہاں تک لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے عاشق رسول غازی علم الدین شہید کو گستاخ رسول راج پال کے قتل پر پھانسی کی سزا دینے کا معاملہ ہے اس پر ریکارڈ کی درستگی کئی حوالوں سے ضروری ہے خصوصاً مذہبی حوالوں سے بھی درخواست گذار سمیت بہت سے لوگوں کا یہ خیال تھا 1929ءمیں ہونے والے اس مقدمے کا فیصلہ متعصبانہ تھا جس میں قائداعظم محمد علی جناحؒ جیسے وکیل کی مدلل دلائل کے بعد بھی غازی علم الدین شہید کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی تھی۔ اس ضمن میں درخواست گذار امتیاز رشید قریشی کی جانب سے بیرسٹر ڈاکٹر فاروق حسن کی وساطت سے دائر درخواست میں م¶قف اختیار کیا گیا ہے 80 سال قبل 1929ءمیں لاہور ہائیکورٹ کے انگریز جج نے بدنیتی کی بنا پر فیصلہ سناتے ہوئے غازی علم الدین کو موت کی سزا سنائی۔ درخواست گذار نے استدعا کی عدالت انگریز جج کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے غازی علم الدین شہید کو قوم ہیرو کا درجہ دینے کے احکامات جاری کرے۔ درخواست میں کہاگیا ہے موجودہ دور کی عدالت عالیہ پریہ جوڈیشل فرض ہے وہ سابقہ فیصلے کو اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نظرثانی کے اصول سے کالعدم قرار دے اور مزید یہ کہ وہ عاشق رسول غازی علم الدین شہید کو ان تمام اعزازت سے نوازے جو بین الاقوامی سطح پر اس قسم کے مقدمات میں مسلمہ حقیقت کے حامل ہیں۔ درخواست میں غازی علم الدین شہید کیس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کس طرح ایک 18‘ 19 سالہ لڑکا آناً فاناً ہندو پبلشر راج پال کو قتل کر کے پھانسی گھاٹ تک پہنچ گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چار ستمبر 1929ءکو جب وہ لاہور کی مسجد وزیر خان کے قریب سے گذر رہا تھا کہ اس کو ایک جلسے میں جانے کا موقع ملا جس میں مقررین نے راج پال کو واجب القتل قرار دیا۔ جس نے رسول اللہ کے بارے میں انتہائی نازیبا اور قابل اعتراض کتاب شائع کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی۔ یہ مقدمہ قتل جب لاہور ہائیکورٹ کے روبرو پیش ہوا تو دو انگریز ججوں نے مختصر فیصلے کے بعد اس کی سزائے موت کو برقرار رکھا جس میں قائداعظم محمد علی جناحؒ بطور ڈیفنس وکیل پیش ہوئے جبکہ انگریز جج نے اپنے فیصلے میں قائداعظمؒ کے پرمغز دلائل کا کوئی جواب نہیں دیا چنانچہ استدعا ہے عدالت عالیہ اپنے آئینی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ فیصلہ صادر کرے کہ 1929ءکا فیصلہ غلط تھا اور مزید یہ کہ عاشق رسول غازی علم الدین شہید کو باعزت بری کرتے ہوئے یہ حکم صادر کرے کہ اس کو ازسرنو سرکاری جنازہ کا اہتمام کرے جس طرح کہ آئرلینڈ میں روجر کیس منٹ کے کیس میں ہوا تھا اور اس کو بعد از موت ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس ضمن میں بیرسٹر فاروق حسن نے بات کرتے ہوئے کہا یہ کیس ری اوپن کرنے کا خیال بھٹو کیس ری اوپن ہونے کے بعد سب سے پہلے درخواست گذار امتیاز رشید قریشی کو آیا تھا تاہم میں اس کیس پر ذاتی طور پر گذشتہ دو سال سے تحقیق کر رہا تھا اور سمجھتا تھا میرے لئے ایک بڑے اعزاز کی بات ہے کہ غازی علم الدین شہید جیسے بڑے آدمی کا مقدمہ لڑنے جا رہا ہوں۔ ایک ایسے عظیم آدمی کا مقدمہ جس کی پیروی علامہ محمد اقبال جیسے نابغہ روزگار ہستی نے کی اور جس کی وکالت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کی۔ یوں مسلمانان ہند کے اس ہیرو کا مقدمہ لڑنا میرے لئے عزت‘ فخر اور خوشی کی بات ہے۔ یہ اتنا بڑا مقدمہ تھا کہ جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو متحد کر دیا تھا اور ان کی سوچ کو ایک نئی سمت دی جس کی منزل تحریک پاکستان ٹھری۔ اس مقدمے میں علامہ اقبالؒ خصوصی دلچسپی لے رہے تھے اور وہی قائداعظم محمد علی جناحؒ کو یہ مقدمہ لڑنے کےلئے لائے تھے۔ بہرحال اگر کل یہ ایک بہت بڑا مقدمہ تھا تو آج بھی یہ اتنا ہی بڑا ہے اور آٹھ دہائیاں گزرنے کے باوجود اسکی اہمیت کم نہیں ہوئی چنانچہ ریکارڈ درست ہونا چاہئے جس کےلئے اس کام کو ایک مشن کی طرح لیکر نکلے ہیں
غازی علم دین شہید
بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDelete