24.5.11

مجاهد اعظم علامه فضل حق بن مولانا فضل امام خير آباد ي

 مجاهد  اعظم علامه فضل حق بن مولانا فضل امام خير آباد ي       

مجاهد اعظم، بطل حريت علامه فضل حق بن مولانا فضل امام خير آباد ي كي عبقري شخصيت جنگ آزادي1857ئ كے عظيم ره نماو ں اور اس كے نماياں هيروو ں ميں شمار كي جاتي هے۔ جنگ آزادي ميں جوش و خروش اور اشتعال انگيزي علامه هي كے دم قدم سے هوئي۔ علامه كي شخصيت1857ئ كے مسلّم ره نماے جنگ علما ے اهلِ سنت ميں هے۔ مگر آج كچھ لوگوں نے تاريخي حقائق پر پرده ڈالنے اور جنگ آزادي كے مسلّم ره نماو ں كے خلاف فضا پيدا كرنے كي ناپاك كوشش كي هے۔ تاريخ كا يه الميه هر دور ميں رها هے كه طاغوتي طاقتيں علماے ربانيين كي واقعي كوششوں اور ا ن كے حقيقي كارناموں كو تاريخ كے صفحات سے يكسر ختم كرنے ميں كوشاں رهيں۔ ان سے بغض و عناد ركھنے والے متعصب تاريخ سازوں نے جھوٹي روايتيں اور من گڑھت واقعات سے هميشه ان كے روشن و تاب ناك كردار كو آلوده كيا هے۔ اور جو ننگِ دين و ملت اس كے اهل نهيں تھے اسے اس كا سب سے بڑا ركن ركين بنا كر پيش كيا جاتا هے، ايجاد و تحسين كا سهرا ان كے گلے كي زينت بنتا هے

مثال ايسي هے اس دورِ خرد كے هوش مندوں كي

نه هو دامن ميں ذره اور صحرا نام هو جائے

انھيں ميں علامه فضل حق خير آبادي كي ذات والا صفات بھي هے۔ اسلامي تاريخ كے دعوے داروں نے تاريخي حيثيت سے انھيں زياده گزند پهنچايا۔ بالخصوص وهابي، ديوبندي جماعت ميں سيد احمد راے بريلوي اور اسماعيل دهلوي كے سيرت نگاروں نے تو يه التزام هي اپنے ليے ركھا كه جس طرح بھي هو تاريخ كے صفحات ميں علامه كي شخصيت كو اجاگر نه هونے ديں گے، بلكه فضل حق سے آزادي كي زمام چھينني هے، چناں چه مولانا عبد الشاهد خاں شرواني لكھتے هيں:


٫٫شاه اسماعيل دهلوي كي سوانح لكھنے والوں نے علامه كے ساتھ بڑا ظلم روا ركھا، رنگ آميزي اور بهتان طرازي سے بھي دريغ نه كيا۔٬ ٬(1)


مولانا مثال كے طور پر مرزا حيرت دهلوي صاحبِ حياۃطيبه شاه اسماعيل دهلوي كے بارے ميں لكھتے هيں:


٫٫مرزا حيرت دهلوي صاحب حياۃطيبه نے تو محوِ حيرت هي بنا ديا نه صرف علامه بلكه ان كے والد ماجد مولانا فضل امام كو بھي پڑھا لكھا ماننے ميں تامل كيا هے۔ حيرت هوتي هے كه انسان معاندانه روش اختيار كرتے وقت نابينا كيوں هو جاتا هے۔٬٬ (2)


مرزا حيرت دهلوي اور ايسے هي محمد جعفر تھانيسري كے متعلق اكثر كي راے يهي هے كه يه دونوں پاے اعتبار سے ساقط هيں۔ ان كي تاريخ گوئي اور روايت بياني منظور نظر نهيں، بلكه هرزه سرائي هے ۔(3)


ان كي تصانيف اس شعر كي مصداق هيں


تو لطفِ تماشه ليتا جا مت ڈھونڈ سراغِ اصليت

تصنيف كے صورت خانے ميں كچھ وهم اور كچھ سچائي هے

انھيں جيسے نام نهاد مورخين نے تاريخيں تصنيف كيں۔ جنگ آزادي كے مجاهدين اور شهدا كے خلاف كهانياں گڑھيںاور انگريز كے جاسوس كو دين كا دشمن اور جنگ آزادي كا هيرو ثابت كرنے كے ليے ايڑي چوٹي كا زور لگا ديا۔اس كے ليے انھوں نے تاريخي ماخذ ميں غلط بياني سے كام ليا اور ان سے صرف نظر كركے من گڑھت كهانيوں كي تشهير كي اور كئي ننگ اسلام كو قدسي صفات بنا كر پيش كر ديا۔ ليكن مشهور هے كه ٫٫دروغ گو را حافظه نباشد٬٬ كسي نه كسي پهلو سے كسي طرح منه سے سچي بات كبھي نكل هي آتي هے، جيسا كه آگے ملاحظه كريں گے۔ علامه كي ذات اور ان كے نماياں كارناموں پر تاريخي حيثيت سے پرده ڈالنے كي بھر پور كوشش كي گئي۔


مشاهدے كو تو كانٹوں كي بھيك بھي نه ملي

سنا هے صحنِ گلستاں ميں پھول كھلتے هيں

مشهور اديب و نقاد نادم سيتا پوري لكھتے هيں:


٫٫مولانا فضل حق خير آبادي گزشته صدي كا وه بد نصيب كردار هے جسے دشمنوں سے زياده دوستوں نے نقصان پهنچايا۔ انگريز اور ان كے هوا خواه مولانا سے اس ليے ناراض تھے كه انقلاب سن ستاون كے سلسله ميں كسي نه كسي نهج سے ان كا نام آگيا هے۔ ليكن خود مسلمانوں كا ايك ٫٫پروپيگنڈسٹ گروپ٬٬ مولانا سے اس ليے بے زار تھا كه وه ان كے مذهبي نظريات كے خلاف عالمانه مجاهده كر چكے تھے۔ يه باوقار علمي مباحثے كوئي ذاتي اور عاميانه جنگ نهيں تھے جس كا سهارا لے كر مولانا خير آبادي كے خلاف ايك مستقل محاذ قائم كر ديا جاتا، ليكن هوا كچھ ايسا هي۔ مولانا كے اكثر سيرت نگاروں نے نادانسته نهيں دانسته مولانا كي مدح سرائي اس انداز سے كي كه خود٫٫مدح٬٬ اور ٫٫هجو بليغ٬٬ سر بگريباں هو گئے۔ چناں چه اس كا نتيجه يه نكلا كه آج جب ريسرچ اور تحقيق كي نگاهيں تاريخ كے ان اوراق تك پهنچيں تو دنيا هي بدلي هوئي نظر آئي۔٬٬ (4)


مزيد لكھتے هيں:


٫٫اس ميں شك نهيں كه مولانا فضل حق﴿خير آبادي﴾ كے كئي سيرت نگاروں نے من گھڑت ، جھوٹي اور بے سروپا حكايتيں بيان كر كے مولانا كے نيك كردار كو خواه مخواه سبك كرنے كي كوشش كي هے۔ ٬٬(5)


اس سلسلے ميں علامه فضل حق كے ايك سيرت نگارمفتي انتظام الله شهابي كے بارے ميں نادم سيتا پوري لكھتے هيں:


٫٫جھوٹي روايات،من گھڑت واقعات اور فرضي كتابوں كے غلط حوالے مفتي صاحب كي ادبي زندگي كا شان دار شاه كار رها هے۔٬ ٬(6)


ان تاريخ سازوں ميں كچھ تو جنگ آزادي كا ذكر كرتے هوئے علامه فضل حق خير آبادي كا نام بھي لينا گوارا نهيں كرتے۔ كچھ تو يه كهتے هيں كه انھوں نے محض انگريزوں كے خلاف فتويٰ ديا تھا۔ كسي جنگ ميں حصه نهيں ليا اور كوئي قابلِ قدر خدمت انجام نهيں دي۔ كوئي يه كهتا هے كه فتويٰ تو انھوں نے ديا هي نهيں اور فضل حق شاه جهان پوري كے بجاے انھيں پكڑ كر كالا پاني كي سزا دي گئي تھي جهاں وه شهيد هو گئے۔ مولانا امتياز علي عرشي رام پوري اپنے مقاله٫٫مولانا فضل حق خير آبادي اور 1857ئ كا فتواے جهاد٬٬ مطبوعه ماه نامه تحريك دهلي، اگست1957ئ ميں علامه كے فتواے جهاد كے منكر نظر آتے هيں۔ ملاحظه هو:


٫٫مولانا نے علماے زهاد اور ائمه اجتهاد كے فتويٰ دينے كا ذكر تو كيا هے مگر اپنا حواله بالكل نهيں ديا۔ اس سے يه نتيجه نكلتا هے كه اگر وه شريكِ فتويٰ بھي هوتے تو جيسا كه آگے چل كر اربابِ حكومت كو اپنے مشورے دينے كا تذكره فرماتے هيں، يهاں بھي فتويٰ كي طرف كچھ نه كچھ اشاره ضرور كرتے۔ ٬٬(7)


ڈاكٹر مالك رام لكھتے هيں:

٫٫مولانا فضل حق مرحوم نے 1857ئ كي تحريك ميں واقعي حصه نهيں ليا تھا۔ انھوں نے اس سے پهلے لوگوں كو جو تلقين بھي كي هو ليكن جب يه هنگامه شروع هوا تو وه عملاً سب سے الگ تھلگ رهے، نه علمي پهلو سے اس ميں شريك هوئے نه عملي لحاظ سے، انھوں نے نه كوئي فتويٰ لكھا اور نه تلوار اٹھائي ۔٬٬(8)


يه تھي تاريخ ميں علامه فضل حق خير آبادي كي مظلوم شخصيت۔ آئيے به نظر صداقت و تحقيق علامه كي فقيد المثال، نابغه روز گار هستي كے فتواے جهاد اور ان كي روشن خدمات كا جائزه ليا جائے۔ اربابِ علم و دانش كي نظر ميں علامه خير آبادي كا كردار كتنا بلند هے۔ انھوں نے كس گرم جوشي اور ملي درد كے ساتھ اس پهلي جنگ آزادي ميں حصه ليا هے۔ انشائ الله هم اسے حقانيت كے آئينے ميں پيش كريں گے۔


راجا غلام محمد نے نهايت بسط وتحقيق كے ساتھ اپني كتاب ٫٫امتياز حق٬٬ ميں ان غلط پروپيگنڈوں كي دھجياں بكھير دي هيں۔ وه ايك جگه لكھتے هيں:


٫٫ان لوگوں نے بهت چاها كه فضل حق خير آبادي كي قربانيوں پر اپني مصلحتوں اور مخالفتوں كے پردے ڈاليں مگر ان كے كردار كي پختگي ، عزم كي سلامتي اور استقلال و همت كي جزئيات پر نظر ڈاليں تو يقين آتا هے


آكے گرا تھا ايك پرنده لهو ميں تر

تصوير اپني چھوڑ گيا هے چٹان پر(9)

كتب تواريخ ميں علامه كے فتواے جهاد كا ذكر كس زور و شور سے هے، آنے والي عبارتوں سے اس كا اندازه كيجيے۔ ميں صرف آپ كو علامه كے فتويٰ كي باز گشت سناتا هوں۔ خورشيد مصطفي رضوي٫٫جنگ آزادي1857ئ٬٬ ميں لكھتے هيں:


٫٫علما نے جس جس طرح بغاوت كو منظم كيا، اس كا مفصل بيان كرنے كے ليے تو ايك علاحده كتاب كي ضرورت هے۔ مگر ان كا كچھ تذكره ان صفحات پر كيا جا رها هے ۔ اس حقيقت پر بڑے بڑے مورخ بھي انكار كي جرا ت نهيںكر سكے هيں كه يه علما ميں بے حد مقبول تھے۔ ان كي تحرير و تقرير كا بڑا اثر هوتا تھا۔ چناں چه دهلي ميں جنرل بخت خاں كي تحريك پر مولانا فضل حق خير آبادي اور دوسرے علما نے جو جهاد كا فتويٰ ديا ، اس كے بارے ميں مولوي ذكائ الله دهلوي نے بھي اپني تاريخ ميں اقرار كيا هے كه اس سے مذهبي جوش و خروش بهت بڑھ گيا تھا۔٬ ٬(10)


نيز اسي ميں دوسري جگه لكھتے هيں:


٫٫كها جاتا هے كه 1857ئ قريب آنے پر آپ ﴿فضل حق﴾ نے اكثر واليانِ رياست كو بغاوت پر آماده كرنے كي كوشش كي۔ اگست57ئ ميں دهلي آگئے اور يهاں جنرل بخت خاں كي تحريك پر جهاد كا فتويٰ مرتب كر كے پيش كيا، جس سے مسلمانوں ميں بے حد جوش و خروش پيدا هو گيا۔٬٬ (11)


علامه كے فتواے جهاد كے متعلق مجله خيال لاهور كے سن ستاون نمبر ميں شكور احسن صاحب مفتي صدر الدين آزرده پر مضمون لكھتے هوئے علامه كے فتواے جهاد كا ذكر كرتے هيں:


جب برطانوي استعمار كے خلاف 1857ئ كا هنگامه شروع هوا تو بعض شاعروں ، اديبوں اور عالموں نے اس ميں سرگرمي سے حصه ليا اور انگريزي حكومت كا اقتدار بحال هو جانے كے بعد ان پر مصيبت كے پهاڑ ٹوٹ پڑے۔ مولانا فضل حق كو جهاد كا فتويٰ صادر كرنے كے جرم ميں انڈمان بھيج ديا گيا، صهبائي كو پھانسي كے تختے پر لٹكايا گيا، شيفته كو قيد و بند كي مصيبتيں جھيلني پڑيں۔٬ ٬(12)


جب بھي كوئي مورخ تاثرات كو تعصبات سے قطع نظر كر كے 1857ئ كا حال لكھے گا تو علامه فضل حق خير آبادي كے فتواے جهاد كا ذكر ضرور كرے گا۔ آپ هي نے جامع مسجد ميں فتويٰ پڑھ كر سنايا، علما كے دستخط كروائے، اس فتوے كي اشاعت سے جد و جهدِ آزادي ميں زور پيدا هوا۔ بالآخر مقدمه كے موقع پر علامه فضلِ حق اس بات پر بر قرار رهے كه يه فتويٰ انھوں نے لكھا هے اور اب تك ان كي يهي راے هے:


٫٫جب 1857ئ كا هنگامه عظيم دهلي ميں رونما هوا تو ﴿مولانا فضل حق﴾فوراً دهلي پهنچے اور جهاد كا فتويٰ ديا۔ جنرل بخت خاں كمانڈر انچيف افواجِ ظفر سے ملے اور اس كي بڑي اعانت و امداد كي۔ ٬٬(13)


سه ماهي ٫٫الزبير٬٬ بهاول پور كے تحريكِ آزادي نمبر1970ئ ميں هے:


٫٫مولانا فضل حق نے ايك دن بعد نمازِ جمعه جامع مسجد ميں انگريزوں كے خلاف فتويٰ پڑھ كر سنايا تو بهتوں كے ليے باعثِ تشويش بنا۔ اس فتويٰ پر مفتي صدر الدين آزرده اور دوسرے پانچ علما كے دستخط تھے۔ اس كا شائع هونا تھا كه جد و جهد نے ايك نيا زور پكڑا اور جگه جگه انگريزوں كے چھكے چھوٹ گئے۔ تاريخ ذكائ الله كے بيان كے مطابق اس فتويٰ كے بعد صرف دهلي ميں نوے هزار سپاه جمع هو گئي۔ ٬٬(14)


غير مقلد مورخ غلام رسول مهر جو شاه اسماعيل كے بڑے مداح هيں۔ علامه فضلِ حق خير آبادي اور شاه اسماعيل كے مابين ٫٫مسئله امتناع النظير٬٬ پر وقوع مناظره اور علامه كا شاه صاحب كو كافر قرار دينے كے سبب مورخ مذكور هر گز علامه كي شخصيت كو داد و تحسين كي نگاه سے ديكھنا پسند نهيں كرتا۔ تاريخ ميں بے شمار ايسے لوگ گزرے هيں جو تحريف في التاريخ كے ناتے سے پهچانے جاتے هيں۔ ان لوگوں نے بهت سے پاك باز نفوس قدسيه كے روشن كردار كو مسخ كيا اور كئي ننگ اسلام شخصيتوں كو قدسي صفات بنا كر عرش بريں سے بھي اونچا كر ديا۔ مگر الحق يعلو ولا يُعليٰ۔حق كي تابانيوں سے عالم روشن هو گيا۔ حق كسي نه كسي طرح مورخين كے قلم سے صادر هو كر رها۔ حتي كه مهر صاحب بھي اس حقيقت كو تسليم كيے بغير نهيں ره سكے كه فتويٰ كے سلسلے ميں فضل حق كي كاركردگي سب سے زياده نماياں هے، اگر وه نه هوتے تو اس فتويٰ كا وجود هي نه هوتا


بات بن سكتي نهيں كوئي صداقت كے بغير

تير كي پشت په كردارِ كماں هوتا هے

مهر صاحب لكھتے هيں:


٫٫مولانا﴿فضل حق خير آبادي﴾ كے دهلي پهنچنے سے پيش تر بھي لوگوں نے جهاد كا پرچم بلند كر ركھا تھا۔ مولانا پهنچے تو مسلمانوں كو جنگ آزادي پر آماده كرنے كي غرض سے باقاعده ايك فتويٰ مرتب هوا، جس پر علماے دهلي كے دستخط ليے گئے۔ ميرا خيال هے كه يه فتويٰ مولانا فضل حق هي كے مشورے سے تيار هوا تھا اور انھيں نے علما كے نام تجويز كيے جن كے دستخط ليے گئے۔٬٬ (15)


سعيداحمداكبر آبادي فاضل ديوبند علامه كے فتواے جهاد كے بارے ميں لكھتے هيں كه كتبِ تواريخ ميں موجود فتواے جهاد پر علامه كے دستخط نظر نه آئے تو كيا اس كا مطلب يه هے كه اس سے انكار هي كر ديا جائے۔ هر گز نهيں بلكه علامه كا ايك مستقل فتويٰ تھا جس كا ذكر معتبر تاريخوں ميں ملتا هے:


٫٫اس وقت همارے سامنے فتويٰ كي جو نقل هے اس پر 38دلي كے علما و مشائخ كے دستخط هيں۔ مولانا فضل حق خير آبادي كے اس پر دستخط نهيں هيں ليكن ان كا الگ مستقل فتواے جهاد تھا جس كا ذكر 1857ئ كي جنگ آزادي كي اسلامي تاريخوں ميں تفصيل كے ساتھ كيا گيا هے۔٬٬


٫٫مولانا بلند پايه عالمِ دين هونے كے ساتھ رئيسانه طور طريق زندگي ركھتے تھے، ليكن اس كے باوجود ان كي ايماني جرا ت و جسارت اور ديني حميت و غيرت كا يه عالم تھا كه انھوں نے هر چيز سے بے نياز هو كر دلي كي جامع مسجد ميں نمازِ جمعه كے بعد جهاد كے واجب هونے پر ايك نهايت ولوله انگيز تقرير كي اور اس كے بعد جهاد كے ايك اور فتويٰ كا اعلان هوا، جس پر صدر الصدور مفتي صدر الدين خاں آزرده، مولانا فيض احمد بدايوني، ڈاكٹر مولوي وزير احمد خاں اكبر آبادي اور دوسرے علما كے دستخط تھے۔٬ ٬(16)


علامه كي زندگي اور ان كے كار هاے نماياں كي تفصيلات كے ثقه جامع مولانا عبد الشاهد خاں شرواني علي گڑھي مولف باغي هندستان تاريخ مولوي ذكائ الله كے حوالے سے لكھتے هيں:


٫٫علامه سے جنرل بخت خاں ملنے پهنچے۔ مشورے كے بعد علامه نے آخري تير تركش سے نكالا بعد نمازِ جمعه جامع مسجد ميںعلما كے سامنے تقرير كي ،استفتا پيش كيا۔ مفتي صدر الدين خاں آزرده صدر الصدور دهلي، مولوي عبد القادر ، قاضي فيض الله دهلوي، مولوي فيض احمد بدايوني، ڈاكٹر مولوي وزير خاں اكبر آبادي، سيد مبارك شاه رام پوري نے دستخط كر ديے۔ اس فتويٰ كے شائع هوتے هي ملك ميں عام شورش بڑھ گئي، دهلي ميں نوے هزار سپاه جمع هو گئي تھيں۔ ٬٬(17)


ان چند تاريخي شواهد سے آفتاب نصف النهار كي طرح روشن هو گيا كه علامه نے 1857ئ كي جنگ آزادي ميں وجوبِ جهاد كا فتويٰ ديا اور اس دور كے معاصر علما سے بھي استفتا كر كے وجوبِ جهاد كا فتويٰ ليا جس پر اس دور كي تاريخيں اور قلمي مخطوطات بھي شاهد عدل هيں، جن كا انكار دن ميں طلوعِ آفتاب كے انكاركے مترادف هوگا۔ معكوسه فتاويٰ ميں علامه كا دستخط نه پا كر انكار كرنا هر گز شيوه تحقيق نهيں۔ سعيد احمد اكبر آبادي فاضل ديوبند كي حقيقت آشكار عبارت گزر چكي هے ۔ علامه كي شخصيت پر تاريخي شكوك و شبهات وارد كرنے والوں كويه خبر نهيں كه چاند پر تھوكنے سے اپنے هي چهرے آلوده هوں گے۔ مولانا عبد الشاهد خاں شرواني نے اپني كتاب ٫٫باغي هندوستان٬٬ كے چوتھے ايڈيشن مطبوعه ٫٫المجمع الاسلامي مبارك پور٬٬ ميں بنام مقدمه كي كارروائي ايك مستقل باب كا اضافه كيا هے۔ جس ميں مقدمات كي مسل اور اس دور كے كچھ سركاري كاغذات كي مدد سے نئے زاويه تحقيق كي روشني ميں تاريخي ماخذوں كي تغليط كرنے والوں كے شكوك دور كر ديے هيں اور اپنے معاصر و كرم فرما امتياز علي عرشي رام پوري اور مالك رام پر خامه فرسائي كرتے هوئے عدم طعن و تشنيع كي ارتجا بھي ٫٫ايں گناهے است كه در شهر شما نيز كنند٬٬ اس كے بعد اخير ميں راقم هيں:


٫٫مقدمه كي كارروائي معاصرين و مورخين كي شهادتيں اور انگريزوں كے بيانات كي روشني ميں محترم بزرگ مولانا امتياز علي خاں عرشي رام پوري اور جناب مالك رام صاحب كے نظريه مذكوره پر نظر ڈاليں تو آپ كو صاف نظر آئے گا


حريف صافي و دردي نه ايں خطا ايں جاست

نا خوش و خوش مي كني بلا ايں جاست

اور اس كے سوا كيا كها جا سكتا هے كه

تفاوت ست ميان شنيدن من و تو

تو بستن در و من فتحِ باب مي شنوم(18

پهلي جنگ آزادي ميں بطل حريت علامه فضل حق خير آبادي كي نماياں خدماتِ عاليه سنهرے حرفوں ميں لكھے جانے كے قابل هيں۔ علامه هي كي جد و جهد سے اس ميں اشتعال انگيزي، اسلامي جوش و خروش اور ملي جذبه پيدا هوا۔ آپ حكومت انگلشيه كے ابتدائي ملازمت هي سے اس كے متعصبانه رويه سے سخت متنفر هو چكے تھے۔ جهاں كهيں بھي وه ملكي عهدے پر فائز المرام رهے، هميشه مسلمانوں ميں ان كے ديني جذبے ، ملي درد، اسلام كي روحاني طاقت و قوت اور قرونِ اوليٰ كے مسلمانوں كي شان و شوكت كے ساتھ قومي عظمت باقي ركھنے كي كوشش كرتے، اور دل هي دل ميں هندستاني قوم كے نوشته تقدير غلامي پر خون كے آنسو بهاتے۔ همارے جس عظيم ره نما نے سب سے پهلے هماري آزادي كے ليے اپنا خونِ جگر صرف كيا ، ترغيبِ جهاد اور فكري ره نمائي كے ذريعه پوري قوم ميں آزادي كي روح پھونكي اور قوم پر اپني قائدانه صلاحيتوں كو قربان كرتے هوئے ملك بدر هو كر ديارِ غير ميں شديد مصائب و آلام اور لرزه بر اندام تكليفوں كو جھيلتا هوا شوقِ شهادت پورا كر گيا۔ افسوس كه اس قائد اعظم كي مجاهدانه رياضتوں اور مشقتوں كو بعض تاريخ كے صفحات پر قطع و بريد كے ساتھ پيش كياگيا هے۔ چناں چه مالك رام كا نظريه گزر چكا كه وه علامه كے فتواے جهاد اور مجاهدانه سرگرميوں كے منكرهيں۔ غير مقلد مورخ غلام رسول مهر اگرچه كسي نه كسي طرح فتويٰ كي تائيد كر گئے، مگر وه بھي علامه كے مجاهدانه كارناموں كا انكار كرتے هيں:


٫٫غالباً يهي وه فتويٰ تھا جو انجام كار مولانا ﴿فضل حق﴾كے خلاف مقدمے كا باعث بنا ورنه انھوں نے نه كسي جنگ ميں حصه ليا ، نه ان كے پاس كوئي عهده تھا، نه كسي كے قتل ميں شركت كي اور نه ان كے خلاف كوئي اور سنگين الزام تھا۔ ٬٬(19)


تاريخ ميں اسي منافقانه چال اور معاندانه رويه اختيار كرنے كے سبب رئيس احمد جعفري اپني تاريخ٫٫بهادر شاه ظفر اور ان كا عهد٬٬ ميں چهره حقيقت سے نقاب كشائي كرتے هوئے رقم طراز هيں كه غدر 1857ئ كي روح رواں اور محرك اعظم صرف دو شخصيتيں هيں جن ميں دوسرے علامه موصوف هيں۔


٫٫هم نے غدر كے جن هيروو ں كا ذكر كيا هے ان ميں سے صرف بخت خاں اور مولانا فضل حق خير آبادي دو ايسي شخصيتيں هيں جنھوں نے دهلي كے محاربات غدر ميں مركز نشين هو كر حصه ليا هے۔ بخت خاں اور مولانا فضل حق خير آبادي كے احوال و سوانح ، واقعات و حوادث ، كارناموں اور سرگرميوں كي تفاصيل معلوم كرنا آسان نه تھا غدر كے بعد غدر كا ذكر بھي كتنا روح فرسا تھا۔ اور ان شخصيتوں كا تذكره جنھوں نے اس انقلابي تحريك ميں مردانه وار حصه ليا تھا، اپني جان سے هاتھ دھونا تھا ان اكابر كا اول تو مرتب و منضبط صورت ميں كهيں ذكر نهيں ملتا اور اگر كهيں ملتا بھي هے تو مخالفانه اور معاندانه انداز ميں ۔ ان مشكلات كے باوجود زياده سے زياده معتبر اور مستند مواد حاصل كرنے كي اپنے مقدور بھر هم نے كوشش كي هے۔٬ ٬(20)


روايت و تواريخ كے پيشِ نظرعلامه كي ملي و سياسي خدمات كا جائزه لينے سے قبل درايتي فكر و نظر كي روشني ميں اس وقت كے سياسي و ملكي حالات كو سامنے ركھ كر سنجيدگي كے ساتھ شعورِ انساني كو دعوتِ فكر ديں كه آيا علامه جيسا صاحبِ فكر و نظر صائب الراے ، دور انديش شخص حياتِ آزادي كے ليے كي جانے والي جد و جهد كے وقت خاموش تماشائي بنا ره سكتا هے، يا بے خطر اس آتشِ آزادي ميں كود پڑتا هے۔


اورنگ زيب عالم گير كي وفات كے بعد مغل شهزادوں كے درميان اختلاف و انتشار كے سبب زوال كے اثرات رو نما هو چكے تھے۔ ادھر هندستان كے جنوب مشرقي ساحل پر انگريزي قوميں به غرضِ تجارت يورپ سے هندستان آكر يهاں حكمراني كے خواب ديكھ رهي تھيں۔ رفته رفته حكومت كم زور، اور بيروني طاقت زور پكڑتي رهي۔ بالآخر غدر سے پهلے هندستاني مسلمانوں كي زبوں حالي كس قدر روح فرسا هے، قارئينِ تاريخِ هند سے يه بات مخفي نهيں۔غير ملكي پورے طور پر بيدار هو كر مسلمانوں كي فطري صلاحيتوں اور ان كے جوش و جذبے كو اپني حسنِ تدبير سے يكسر منجمد كر رهے تھے۔ ان كے حكمرانوں كي غفلت و لاپروائي اور نا اهل عهدے داروں كي عياشيوں اور عاقبت نا انديشوں سے فائده اٹھاتے هوئے ان كے ارد گرد سازشوں كا جال بچھا ديا۔ هميشه تاريخ كے اوراق كچھ غداروں كے شرم ناك كرتوت سے سياه رهے۔ ايك منظم طاقت كسي غدار كے مكر و فريب اور اس كي دغا بازيوں كے سامنے هيچ هے۔آنے والي سفيد رو قوم نے اس ميدان ميں اپني خصوصي توجه مبذول كي۔ اسے يقين تھا كه كبھي بھي صرف ميدانِ جنگ ميں قومِ مسلم كو مغلوب نهيں كيا جا سكتا۔ بالآخر اس نے هماري هي قوم ميں چند ننگِ دين و ملت پيدا كر كے ان كے ذريعه اپنے قدم جمانے شروع كيے، پھر تو مختلف اضلاع و صوبه جات پر ان كا تسلط هوتا گيا۔


علامه كي پيدائش كے دوسرے سال1799ئ ميں سلطان ٹيپو كي شهادت كے بعد ملك كے اكثر حصه پر انگريز قابض هو چكے تھے۔ اٹھارهويں صدي عيسوي كے اختتام كے بعد غير ملكي طاقت پورے هند پر چھا گئي۔ هندي قوم كے عروج كا ستاره غروب هو كر غلامي ان كا مقدر بن چكي تھي۔ مغلوں كي بادشاهت صرف قلعه كي چهار ديواري كے اندر محدود تھي۔ شاطر و عيار دشمن اب هندستانيوں كے مذهبي امور ميں مداخلت كر رها تھا۔ ليكن هر دور ميں فرعوني طاقت كي سركوبي كے ليے ايك موسيٰ كا وجود قانونِ فطرت هے۔ اس وقت بھي اجله علماے كرام، محدثينِ عظام اور صوفيا و مشائخ كي ايك جماعت موجود تھي، جن كے سينے اسلامي علوم و افكار سے مملو تھے۔


ديني تعليم ميں حكومت كي لاپروائي كے سبب علما كي اكثريت سياسيات سے يك گونه الگ هو كر تجديد دين و احياے سنت ميں مشغول تھي۔ يه مقدس جماعت اپنے مقدور بھر مسلمانوں كے قلوب ميں انساني حريت اور اسلامي جذبے وديعت كرتي رهي۔ علامه فضل حق خير آبادي اپنے زمانے كے فضلا و علما ميں سرخيلِ جماعت كي حيثيت ركھتے تھے۔ علامه كا خاندان ديني عظمت كے ساتھ ساتھ دنياوي وجاهت بھي ركھتا تھا، اس ليے آپ مختلف جگه ملكي اعليٰ مناصب پر فائز هوتے رهے اور اس اسلام دشمن طاقت كا مشاهده بهت قريب سے كيا، جس سے ان كے سينے ميں مسلسل حريت و آزادي كي چنگاري مشتعل هوتي رهي۔ اس ليے علامه جهاں كهيں بھي رهے حتي الامكان هندي قوم ميں آزادي كي لهر پھونكتے رهے۔


بالآخر غلامي جب اپني انتها كو پهنچ گئي، ظلم كے تركش كا آخري تير مذهبي معاملات ميں دخيل هونے لگا اور منه سے توڑي جانے والے كارتوس ميں سور اور گاے كي چربي كي آميزش كي گئي۔ جس سے هندي فوج يك لخت مشتعل هو كر انگريزوں كے خلاف محاذ آرا هو گئي۔﴿جس كي پوري تفصيل علامه كي كتاب الثورۃ الهنديه ميں ملاحظه كريں﴾۔


علامه فضل حق جيسا درد مند حساس اور دانش مند مفكر جو اپني عمر عزيز كے ايك بڑے حصے ميںان كي اسلام دشمني كے سبب خون كے تلخ گھونٹ پي چكا هو بھلا ايسے زريں موقع پر كيسے خاموش ره سكتا هے۔ فوراً علامه نے اپنا فتواے جهاد جاري كيا، پھر محض فتويٰ دے كر عورتوں كي طرح گھروں ميں بيٹھنا كيسے متصور هو سكتا هے، يقينا علامه نے اس جنگ آزادي ميں بھر پور حصه ليا ۔ يه مسلم هے كه ميدانِ جنگ ميں لڑنے والي فوج وه كام نهيں كر سكتي جو ايك دانش ور قائد كي قيادت و ره نمائي كر سكتي هے۔ ايامِ بغاوت ميں امورِ حرب و ضرب اور مملكتي نظام ميں اعيانِ سلطنت كو علامه كا مشوره دينا اور ان كي ره نمائي كرنا، بادشاهِ وقت كو فوجيوں كي بھر پور مدد اور به وقت ضرورت ان كي عملي قيادت پر بر انگيخته كرنا مخفي امر نهيں۔(21)خود علامه كو دهلي مدعو كيا جانا بھي اس پر بين ثبوت هے۔ وه الثورۃ الهنديه ميں لكھتے هيں:


٫٫توجھت تلقائ دهلي مما كان محلّي، فالقيت بھا رحلي ولا قيت بھا اهلي واشرت الي الناس بما اقتضيٰ رائي و قضي به عقلي فلم يا تمروا بما اشرت ولم يا تمروا بما امرت ٬٬(22)


ميں نے دهلي كا رخ كيا، وهاں پهنچ كر اهل و عيال سے ملا، اپني عقل و فهم كے مطابق لوگوں كو اپني راے اور مشوره سے آگاه كيا، ليكن نه انھوں نے ميرا مشوره قبول كيا اورنه ميري بات ماني۔


روايتي پهلو سے علامه خير آبادي كي سرگرمياں ملاحظه هوں۔ اس دور كے روز نامچوں اور تاريخوں ميں پوري تفصيل تو مذكور نهيں، پھر بھي بهت سي سرگرميوں كا سراغ ضرور ملتا هے۔ علامه بغاوت شروع هوتے هي دلي آگئے، وهاں اعيانِ سلطنت كي ره نمائي اور حكومت كے دستور العمل كي ترتيب شروع كر دي۔ اس كے بعد هي آپ نے اپنا فتواے جهاد صادر كيا۔ انگلش حكومت كے مخبرين كي بعض تحريريں هم تك پهنچ سكي هيں۔ چناں چه ايك جاسوس تراب علي لكھتا هے:


٫٫مولوي فضل حق جب سے الور سے آئے هيں وه فوجيوں اور شهريوں كو برطانيه كے خلاف بھڑكانے ميں مصروف هيں۔٬٬


٫٫مولوي فضل حق كي اشتعال انگيزيوں سے متاثر هو كر شهزادے بھي ميدان ميں نكل آئے هيں اور سبزي منڈي كے پھل والے محاذ پر صف آرا هيں۔٬٬


ايك دوسرے مخبر چني لال نے خبر دي:


٫٫مولوي فضل حق اپنے مواعظ سے عوام كو مسلسل بھڑكا رهے هيں۔٬٬


دوسري فائل ميں بھي كچھ اطلاعيں درج هيں:


٫٫مولوي صاحب﴿فضل حق﴾ جب بھي بادشاه سے ملتے وه بادشاه كو مشوره ديتے كه جنگ كے سلسله ميں رعايا كي همت افزائي كريں اور ان كے ساتھ باهر نكليں اور دستوں كو جس حد تك ممكن هو بهتر معاوضه ديں۔٬٬


ايك مجلسِ مشاورت قائم كي گئي تھي۔ علامه جس كے ايك نهايت فعال متحرك ركن بھي تھے:


٫٫بادشاه نے جنرل بخت خاں ، مولوي سرفراز علي اور مولوي فضلِ حق پر مشتمل وركنگ كونسل بنائي۔٬ ٬(23)


مغليه حكومت كي طرف سے علامه كو بڑے بڑے اختيارات بھي حاصل تھے جن پر مختلف احكام كے نفاذ كي تفصيل مخبرين كے اپنے اپنے روز نامچوں ميں مرقوم هے۔برطانيه حكومت كے ايك جاسوس منشي جيون لال كے روز نامچه ميں وسط اگست1857ئ اور اوائل ستمبر ميں علامه كي كاركردگيوں كا ذكر موجود هے۔ (24)


اسي جيون لال كے ايك بيان سے يه پته چلتا هے كه آپ نے شاهي فوج كي كمان بھي كي هے، تراب علي كي مذكوره رپورٹ بھي اس كي طرف اشاره كرتي هے ۔(25)


روز نامچوں كي ان تفصيلات سے علامه كے سياسي حالات سے باخبري اور انقلابي سرگرميوں كا اندازه هوتا هے۔


پھر سقوطِ دهلي كے پانچ روز بعد علامه خانماں بربادوں كي طرح اپني متاعِ عزيز كتب خانه اور ديگر ساز و سامان دشمن كے رحم و كرم پر چھوڑ كر خير آباد كوچ كر گئے۔ خرابيِ دهلي كے بعد جنگ آزادي كي سرگرميوں كا مركز ملكه حضرت محل زوجه نواب واجد علي شاه رئيس اودھ، بني۔ علامه بھي چند دن بعد ملكه كي معاونت كے ليے اودھ پهنچ گئے۔ وهاں حسب منزلت علامه كو اعليٰ عهدے پر فائز كيا گيا، اس كي مجلسِ مشاورت كے ايك اهم اور ممتاز ركن رهے اور انھيں مفيد مشوروں سے نوازتے رهے۔ مگر ناكامي و نامرادي اور هزيمت مقدر هو چكي تھي۔ بالآخر اودھ اور اس كے ارد گرد كے تمام علاقے انگريزوں كے زيرِ نگيں آگئے۔ پھر كچھ دنوں بعد علامه گرفتار كر ليے جاتے هيں جهاں سے ان كي ابتلا و آزمائش كا سنگين دور شروع هوتا هے ۔(26)


يه تھي دهلي اور اودھ ميں علامه كي مجاهدانه سرگرميوں كي ايك جھلك ۔ اس كے علاوه مقدمات كے بيان سے بھي واضح هوتا هے كه علامه نے پورے طور پر جنگ آزادي ميں فداكارانه حصه ليا اور اس كے زبردست محرك بھي رهے، ورنه بهت سے علما كي شركت اور بوقت جنگ آزادي بقيدِ حيات هونے كے باوجود اتني بھيانك سزا صرف علامه هي كے ليے كيوں منتخب كي گئي، يه امر بھي تو ايك جداگانه دعوتِ فكر اور لمحه نظريه هے۔ مختصراً مقدمات كي رپورٹ نذر قارئين هے:


1 اودھ كے چيف كمشنر كا سكريٹري اپنے سركاري مراسلے ميں لكھتا هے:


٫٫مندرجه ذيل لوگوں كے چلے جانے كے بعد حكومت كو قيامِ امن ميں كافي سهولت هو رهي هے، فيروز شاه، لكڑ شاه، مولوي فضل حق جو هماري حكومت كا دشمنِ جان هے، حالاں كه حكومت نے اسے اور اس كے اعزه كو اعليٰ مناصب عطا كيے تھے۔٬ ٬(27)


2 مسٹر جارج كيمبل جوڈيشنل كمشنر اودھ و ميجر بار و قائم مقام كمشنر خير آباد نے 4 مارچ1859ئ كو فيصله صادر كرتے وقت لكھا:


٫٫بغاوت شروع هونے سے قبل وه الور ميں ملازم تھا ، يهاں سے ديده و دانسته دهلي آيااور اس كے بعد وه باغيوں اور بغاوت كے قدم به قدم چلتا رها۔ ايسے شخص كو سخت ترين سزا ملني چاهيے اور اُسے خاص طور پر هندستان سے جلا وطن كر دينا چاهيے۔٬٬ (28)


علامه كے جهادِ آزادي ميں شريك هونے كي معاصر شهادتيں آپ نے ملاحظه كر ليں۔ بعد كي تاريخوں ميں بھي اس كا چرچا سنيے۔ مولانا حسين احمد مدني جنگ آزادي ميںعلامه فضل حق اور بعض معاصر علما اور ان كے تلامذه كے بڑے پيمانے پر شريك كار هونے كي شهادت ديتے هيں:


٫٫بهر حال مسلمان علما ميں سے مولانا احمد الله شاه صاحب، دلاور جنگ مدراسي اور مولانا فضلِ حق خير آبادي اور مولانا امام بخش صهبائي اور ان حضرات كے تلامذۃ وغيره نے جهادِ حريت1857ئ ميں بڑے پيمانے پر حصه ليا تھا۔٬ ٬(29)


محمد اسماعيل پاني پتي جنگ آزادي ميں علامه كي سياسي خدمات كے بارے ميں لكھتے هيں:


٫٫﴿علامه فضل حق نے﴾1857ئ كے هنگامه ميں انگريزوں كے خلاف سخت حصه ليا جس كے نتيجے ميں گرفتار كر كے كالے پاني بھيج ديے گئے ، جهاں اس فاضلِ اجل، عالمِ بے بدل نے نهايت كس مپرسي، بے بسي اور لاچاري كي حالت ميں 20 اگست 1861ئ كو انتقال كيا اور علم و دانش اور فضل و هنر كا يه آفتاب هميشه كے ليے غروب هو گيا۔٬٬ (30)


دوسري جگه اپنے مضمون٫٫1857ئ ميں علماے كرام كا حصه٬٬ ميں رقم طراز هيں:


٫٫جب1857ئ كا هنگامه عظيم دهلي ميں رو نما هوا تو علامه فوراً دهلي پهنچے اور جهاد كا فتويٰ ديا۔ جنرل بخت خاں كمانڈر انچيف افواجِ ظفر سے ملے اور اس كي بڑي اعانت كي۔ ٬٬(31)


مولوي رحمان علي٫٫تذكره علماے هند٬٬ ميں لكھتے هيں:


٫٫جنگ آزادي 1857ئ ميں مولانا فضل حق نے مردانه وار حصه ليا۔ دهلي ميں جنرل بخت خاں كے شريك رهے۔ لكھنو ميں حضرت محل كي كورٹ كے ممبر رهے۔ ٬٬(32)


سوويت يونين كي سائنس اكيڈمي كے اداره علومِ شرقيه كي ايك ممتاز ركن٫٫مادام پولونكايا٬٬ اپنے ايك مضمون ميں لكھتي هيں:


٫٫مولانا﴿فضل حق﴾ الور تشريف لائے جهاں انھوں نے انگريزوں كے خلاف ايك مسلح بغاوت كا پرچار كيا۔ ان كا خيال يه تھا كه وه زميں دار جو برطانوي حكومت سے مطمئن نهيں هيںاس كي بنيادي طاقت هوں گے۔ مولانا موصوف كے معاصرين اور ان كے سوانح نگاروں نے ان كے بهت سے خطوط كا ذكر كيا هے جو انھوں نے مختلف رياستوں كے حكمرانوں كو لكھے تھے۔ انھوں نے برطانيه كے خلاف ايك مسلح بغاوت كا پيغام ديا تھا۔ بغاوت كے زمانے ميں مولانا انگريزوں كے مخالفوں كي صف ميں رهے۔٬٬(33)


پاكستان كے مشهور پروفيسر محمد ايوب قادري علامه كے دهلي اور الور دونوں جگه كے جهادميں شريك هونے اور اس پر جلا وطني كي سزا پانے كے بارے ميں لكھتے هيں:


٫٫جنگ آزادي1857ئ ميں مولانا فضل حق نے حصه ليا، دهلي ميں جنرل بخت خاں كے شريك رهے، لكھنو ميں بيگم حضرت محل كي كورٹ كے ممبر رهے، آخر ميں گرفتار هوئے، مقدمه چلا اور حبس دوام عبور به درياے شور كي سزا هوئي۔٬٬ (34)


دوسري جگه لكھتے هيں:


٫٫1857ئ كے ايك هنگامے ميں مولانا فضل حق الور سے دهلي پهنچے اور دهلي سے بعد از خرابيِ بسيار اودھ پهنچے، حضرت محل كي كورٹ كے ممبر هوئے، بعد ازاں مولانا فضل حق گرفتار هوئے، بغاوت كے الزام ميں اس يگانه روزگار شخصيت پر مقدمه چلا۔٬٬ (35)


نام ور مورخ رئيس احمد جعفري اپني تاريخ٫٫بهادر شاه ظفراور ان كا عهد٬٬ ميں جنگ آزادي ميں علامه كي زبردست قائدانه شركت اور بهادر شاه ظفر كے معتمدِ خاص اور مملكتي معاملات ميں دخيل هونے كے بارے ميں لكھتے هيں:


٫٫وه﴿علامه فضل حق خير آبادي﴾ انگريزوں سے نفرت كرتے تھے اور انگريزوں كو نكالنے كے ليے هر منظم اور باقاعده تحريك ميں حصه لينے پر دل و جان سے آماده رهتے تھے۔ چناں چه جب غدر شروع هوا تو مولانا بے تامل شريك هوئے۔ وه بهادر شاه كے معتمد، مقرب اور مشير تھے، ان كے دربار ميں شريك هوا كرتے تھے، انھيں اهم معاملات و مسائل پر مشوره ديتے تھے اور اس بات كے مساعي تھے كه آزادي كي يه تحريك كامياب هو اور انگريز اس ديش سے هميشه هميشه كے ليے رخصت هو جائيں۔ مولانا نے غدر ميں دليري اور جرا ت كے ساتھ علانيه حصه ليا۔ ٬٬(36)


وه منفعل هو كه مشتعل بلا سے مگر

كبھي تو حالِ دلِ زار برملا كهيے

مذكوره تفصيلات غدر اور بعد كے تاريخي شواهد سے يه بات روزِ روشن كي طرح عياں هو گئي كه بطلِ حريت علامه فضل حق خير آبادي شهيد جزيره انڈمان قومِ هند كي آزادي كي خاطر هميشه كوشاں رهے، يقينا علامه جيسي بيدار مغز ، حساس دل اور حريت نژاد طبع عظيم عبقري شخصيت كا ضمير يه هرگز گوارا نهيں كر سكتا تھا كه گلے ميں كسي كي غلامي كا پٹكا بالخصوص اس قوم كي بے جا ماتحتي كسيے قابلِ برداشت هو سكتي هے جو قوم الله و رسول كي دشمن اور اس كے لائے هوئے آسماني مذهب كي نيستي كي خواهاں اور رسول الله كے جاں نثاروں كے خون كي پياسي هو۔ اس شيرِ حق كي رگوں ميں اپنے زنده دل غيور اسلاف كا خون رواں تھا، وه منجمد كيوں كر هونے لگتا۔ افسوس كه اس مردِ حق گو كے ساتھ اهل هوا و هوس متعصب مزاج تاريخ سازوں نے بڑا ظلم كيا، جو ان مورخين كي سياه دامني اور بد كرداري كا سبب بن كر ان كي ذات كو داغ دار اور رسواے زمانه تو كر گئي مگر علامه كي مفرد و يگانه روزگار هستي پر كوئي حرف نهيں لا سكي۔


حوالے و حواشي

(1) مقدمه باغي هندوستان،ص:20

(2) باغي هندوستان،ص:194

(3) ديكھيے مضمون٫٫اغلاط كي تصحيح٬٬ از سيد حكيم محمود احمد بركاتي، مشموله

باغي هندوستان،ص:294

(4) به حواله باغي هندوستان،ص:417غالب نام آورم

(5) به حواله امتيازِ حق،ص:12،غالب نام آورم،ص:109

(6) ايضاً،ص:13

(7) تحريك، دهلي اگست 1957ئ به حواله باغي هندوستان،ص:419

(8) تحريك، دهلي جون1903ئ به حواله فضل حق خير آبادي اور ستاون

عيسوي،ص:79

(9) امتيازِ حق،ص:26

(10) امتيازِ حق،ص:23 و باغي هندوستان،ص:272

(11) ايضاً،ص:28

(12) ايضاً،ص:24و باغي هندوستان ص:272

(13) ايضاً،ص:25و باغي هندوستان، ص:272

(14) امتيازِ حق،ص:26و باغي هندوستان،ص:273

(15) ايضاً،ص:24

(16) به حواله مقدمه تحقيق الفتويٰ،ص:17

(17) ايضاً،ص:215 (18) ايضاً،ص:278

(19) امتيازِ حق،ص:35 (20) به حواله امتيازِ حق،ص:40

(21) تفصيل كے ليے ديكھيے،٫٫الثورۃ الهنديه مشموله باغي هندوستان٬٬

اور ٫٫فضلِ حق خير آبادي اور 57ئ٬٬

(22) باغي هندوستان،ص:46

(23) ساري تفصيل باغي هندوستان،ص:267-68سے منقول هے۔

(24) ايضاً

(25) فضل حق اور 57ئ،ص:51و امتيازِ حق،ص:50

(26) فضل حق اور 57ئ،ص:61-62و العلامۃ فضل حق

(27) باغي هندوستان،ص:415

(28) ايضاً،ص:416 (29-30) ايضاً،ص:271

(31) ايضاً،ص:272

(32) ايضاً،ص:277و امتيازِ حق، ص:42

(33) امتيازِ حق، ص:49

(34) باغي هندوستان،ص:275و امتيازِ حق

(35) ايضاً،ص:276 (36) ايضاً،ص:275-76

نوٹ: علامه فضل حق خير آبادي كے فتواے جهاد اور ان كے مجاهدانه كارناموں سے متعلق جو تاريخي شهادتيں پيش كي گئي هيں ، چوں كه هميں اصل ماخذ دستياب نهيں اس ليے يه تمام تاريخي بيانات ٫٫امتياز حق٬٬ اور ٫٫باغي هندوستان٬٬به اضافه مطبوعه 88ئ سے نقل كيے گئے هيں۔ هم نے كهيں ايك حواله درج كرنے پر اكتفا كيا هے ۔

No comments:

Post a Comment

جھوٹے مدعیان نبوت   عن  ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال لا تقوم الساعۃ حتٰی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول ...