9.5.11

Sayyid Jama'at Ali Shah (rahmat Allah alayhi)

امیر ملت حافظ پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری 
رحمۃ اللہ علیہ
ولادت:حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1830ء اور 1840ء کے درمیان ہے ۔حضرت سید کریم شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے نورِ نظر امیر ملت قبلۂ عالم حضرت سید جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہردۂ عدم سے عالم وجود میں ظہورفرمایا ۔
حضرت قبلۂ عالم قدس سرہٗ العزیز کی ولادت مسعود کا صحیح دن اور وقت کسی طرح تحقیق نہ ہو سکا ۔1951ء میں آپ کی وفات سے چند روز قبل ایک ڈاکٹر نے آپ کی عمر دریافت کی تھی تو آپ نے فرمایا کہ ’’ایک سو دس سال سے ایک سو بیس سال تک ۔‘‘ اس سے صرف اتنا اندازہ کرنا ممکن ہے کہ آپ کی ولادت 1830ء اور 1840ء کے درمیان ہوئی ہو گی ۔
آپ کے والدِ ماجد حضرت سید کریم شاہ رحمۃ اللہ علیہ ایک کامل ولی اللہ تھے ۔آپ کو ازروئے کشف نومولود کے عظیم المرتبت ہونے کا حال روشن تھا ۔ اس لئے آپ نے حضرت امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت پر غیر معمولی جوش و مسرت کا اظہار کیا اور بارگاہ رب العزت میں ہدیۂ عجز و نیاز پیش کیا ۔عقیقہ کا دن آیا تو قصاب کو حکم ہوا کہ صحیح عمر و صحت کے بکرے لائے جائیں تاکہ سنت کی ادائیگی کما حقۂ انجام پائے ۔عقیقہ کے بال بجائے چاندی کے سونے میں تولے گئے۔ تاکہ بندگان خدا کو زیادہ سے زیادہ فیض پہنچ سکے ۔
نام:نام رکھنے کا مرحلہ پیش آیا تو جتنے منہ اتنی باتیں ۔ہر شخص نے اپنی رائے اور خیال کے مطابق نام تجویز کیا ۔لیکن آ پ کے والدِ ماجد نے ’’جماعت علی ‘‘ نام پسند کیا ۔ ’’خدا کی باتیں خدا ہی جانے‘‘ ایک فرد کا نام جماعت انوکھی سی بات ہے ۔لیکن منشائے ایزدی میں یہ امر مضمر تھا کہ یہ فرد ایک نہیں ،اس کے سات ایک جماعت ہو گی ۔لاکھوں انسانوں کی جماعت ،نام کا یہ انتخاب منجانب اللہ ارشاہ تھا ۔اس عظیم کام کی جانب جو اس فردِ واحد کے ہاتھوں اعلائے کلمۃ الحق اور احیائے سنت نبوی ﷺ کے لئے انجام پانے والا تھا۔
امتیازی صفات:آپ حالت طفلی ہی سے وہ شاہبازِ ولایت تھے کہ اپنے ہم عمروں میں امتیازی صفات کے مالک تھے ۔آپ کا بچپن عام بچوں سے جدا گانہ نوعیت رکھتا تھا ۔آپ ابتدا سے ذکر الہٰی میں مشغول رہتے ۔یہاں تک کہ عمر مبارک چار سال چار ماہ چار دن کی ہو گئی ۔تو آپ کے والدِ ماجد رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم کے لئے مسجد میں بھیج دیا۔
آپ کے والدِ ماجدِ رحمۃ اللہ علیہ حضرت حافظ شہاب الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو خاص طور پر اس کام کے لئے قلعہ سوبھا سنگھ سے علی پور شریف لائے تھے ۔حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حافظ صاحب کا تلمذ اختیار کیا اور سب سے پہلے قرآن مجیدحفظ کیا ۔ حافظ صاحب مرحوم کو خانوادۂ حضرت قبلۂ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے تمام نو نہالوں کی استادی کا شرف حاصل رہا ۔


تحصیل علم میں دشواریاں 

  :انیسویں صدی کے وسط میں ذرائع حمل و نقل بے حد دشوار بلکہ ناپید تھے ۔لیکن حکمِ نبوی ﷺ کی پیروی اور سنت سلف کی اتباع میں حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے تحصیل علم کے لئے ہر قسم کی مشکلات کو آسان سمجھا اور دور دور کے سفر کئے ۔انیسویں صدی کے وسط میں عام طور پر نہ سڑکیں تھیں نہ سواریاں نہ ریلیں ۔گھوڑوں پر ،بیلوں کے تانگوں پر اور پید ل سفر کئے جاتے تھے ۔حضرت قبلۂ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے لاہور تک کے پیدل سفر کے واقعات معلوم ہیں ۔یہ بھی جاننا چاہئے کہ حضور کے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ زمیندار تھے ۔اس لئے حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کو تحصیل علم کے لئے سفر کرنے میں ایسی کچھ دشواریوں کا مقابل نہ کرنا پڑتا ہو گا۔ علی پور سیداں سے لاہور تک کا سفر سو ،سوا سو سال پہلے آسان نہ تھا اور حضور صبح پیدل چلتے تھے اور شام تک لاہور پہنچ جاتے تھے ۔آپ کے اساتذہ کرام کے صرف نام جان لینے سے واضح ہو جاتا ہے کہ آپ نے سہارنپور ،کانپور، لکھنو اور گنج مراد آباد جیسے دور دراز مقامات پر جا کر تحصیل علم فرمائی تھی اور مشکلات سفر و حضر کو سہل جانا تھا اور یہ تمام سفر پیدل یا گھوڑے پر کئے ۔
علم و فضل میں یگانۂ روزگار: حضور قبلۂ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو ذہن وقاد ،طبع سلیم اور عقل کامل فطری طور پر عطا ہوئی تھی ۔ اُستاد ان کامل الفن نے خصوصی توجہ سے ان میں اور چمک پیدا کر دی۔ علوم عقلی و نقلی پر عبور کامل حاصل کرنے کے ساتھ ہی آپ باطنی و روحانی ترقیاں حاصل کرتے رہے ۔چنانچہ دنیا پر روشن ہے کہ آپ حفظ میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اور ضبط میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم پلہ ہوئے ۔تو فصاحت میں حسان عصر اور خطبا ت میں یکتائے دہر بنے

ردِ مرزائیت
 جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو مسلمان بے حد مضطرب ہوئے ۔سب علماء اور صلحاء نے اس کے دعوے کی تکذیب کی اور دین متین میں اس نئے رخنے کا سدِ باب کرنے کی مساعی میں مصروف ہو گئے ۔حضرت امیر ملت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ اس جماعت کے سپہ سالار تھے ۔اور ابتدا سے کامل سر گرمی کے ساتھ مرزا کی مخالفت اور تکذیب فرماتے رہے ۔جہاں ضرورت ہوتی آپ فوراً پہنچ کر انسدادی اور تبلیغی کام شرو ع کر دیتے اور مسلمانوں کے دین ایمان کے تحفظ میں مشغول ہوجاتے ۔مرزا اور مرزائیوں سے ان مخالفتوں کی داستان بہت طویل ہے ۔
سیالکوٹ میں:

نومبر 1904ء میں سیالکوٹ کے مسلمان وفد بنا کر حضور امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے اور اطلا ع دی کہ مرزا غلام احمد اپنے مذہب کی تبلیغ کے لئے سیال کوٹ آنے والا ہے ۔ آپ فوراً سیالکوٹ پہنچ گئے اور مختلف بازاروں ،محلوں اور مسجدوں میں بڑے پیمانے پر جلسے منعقد کئے ۔ دوسرے علما ء کو بھی باہر سے دعوت دے کر بلایااور دوسروں کی تقریروں کے بعد آپ خود وعظ کہتے اور ختم نبوت کے مسئلے کو تفصیل سے سمجھاتے۔ دین متین اور عقائد حقہ پر قائم رہنے کی تاکید فرماتے تھے ۔حضور امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے کہ ’’ دوسری نئی چیزوں کے اختیار میں کوئی مضائقہ نہیں ،لیکن دین اپنا وہی پرانا رکھو ۔‘‘ چنانچہ آپ نے کم و بیش ایک ماہ سیالکوٹ میں قیام فرمایا ۔ اس دوران تمام اہتمامات کا بارخود برداشت کیا ۔اپنے اور رفقا کے لئے گھر سے برابر سامان خورد و نوش منگواتے رہے ۔مسلمانا نِ سیالکوٹ نے ان اجتماعات اور مواعظ حسنہ سے کامل فیض پایا اور خدا کے فضل سے مِرزا کو تمام عمر یہ ہمت نہ ہوئی کہ سیالکوٹ کا رُخ کرتا۔
تحریک قیام پاکستان:روزنامہ نوائے وقت لاہور نے 16اپریل 1970ء کو اپنی ’’اشاعت ملی‘‘ میں ایک مقالہ ’’تحریک پاکستان کا نڈر مجاہد‘‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا ۔اس میں مقالہ نگار نے لکھاتھا:
’’حضرت امیر ملت پیر جماعت علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ ہر وہ تحریک جو ہندوستان میں چلائی جاتی۔ آپ اس کا بغور مطالعہ فرماتے اور ایسی تحریکیں جو مسلمانوں کے مفاد کے خلاف مذہبی و دینی لحاظ سے ان کے لئے خطر ناک ثابت ہو سکتی تھیںآپ حکومتِ وقت کی پروا کئے بغیر ان کے خلاف نبردآزما ہو جاتے تھے ۔’’تحریک شہید گنج ‘‘ میں سکھوں اور انگریزوں کے خلاف ٹکرلے کر مسجدوں کی اہمیت و حرمت کے احساس کا جذبہ مسلمانوں کے اندر پیدا کیا اور قوم نے انہیں ’’امیر ملت‘‘ کے خطاب سے نوازا’’شدھی تحریک ‘‘ (مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک) کے سیلاب کے آگے بند باندھنے اور ہندؤوں کے زو ر کو توڑنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دی ۔شریعت مصطفےٰ ﷺ کو عام کرنے کے لئے آپ نے برصغیر پاک و ہند میں بے شمار دینی اور تبلیغی انجمنوں کی بنیادیں رکھیں ۔تاکہ مسلمانوں میں دینی فکر کی اساس مضبوط ہو سکے ۔ جیسا کہ آج بھی کئی ایسی انجمنیں مثلاً انجمن خدام الصوفیہ اور انجمن اسلامیہ وغیرہ زندہ ہیں جن کی بنیاد آپ نے رکھی تھی ۔
’’1940ء میں جب قرار داد لاہور پاس ہوئی تو آپ نے اس کی زبر دست حمایت کی اور پاکستان کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے ایک سرگرم مبلغ کی حیثیت سے مسلمانان پاک و ہند کو بیدار کیا ۔آپ مسلم لیگ کے زبر دست حامی تھے ۔قائد اعظم کی مقبولیت کے لئے کام کرتے رہے ۔پیر صاحب نے اپنے مریدوں سے کہہ رکھا تھا کہ میں اس شخص کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھاؤں گا جس نے تحریک پاکستان میں کسی نہ کسی رنگ میں حصہ نہ لیا ہو۔‘‘
مسلم لیگ کی حمایت: 

چنانچہ جب مسلم لیگ نے جماعتی حیثیت سے عوامی درجہ حاصل کر لیا اور 1940ء میں جب ’’قرار داد پاکستان‘‘ منظور ہو گئی ،تو حضرت قبلۂ عالم پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ نے علی الاعلا ن مسلم لیگ کی حمایت اور استحکام کے لئے کام شروع کر دیا اور سفر و حضر میں تلقین فرمانے لگے کہ سب مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو جانا واجب ہے ۔
ہندوستان بھر کے دو تنظیمی دورے: 

حضرت قبلہ عالم پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ نے تحریک قیام پاکستان کی تائید و حمایت کے لئے سارے برصغیر کے دو دورے فرمائے تھے ۔پہلی دفعہ مسلم لیگ کو مقبول بنانے اور مسلمانوں کی واحد سیاسی جماعت کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے لئے اور دوسری مرتبہ 1946ء کے مرکزی اور صوبائی انتخابات میں مسلم لیگی نمائندوں کی کامیابی کے لئے ۔نیز قیام پاکستا ن کے اعلان کے بعد صوبۂ سرحد میں ریفرینڈم کو کامیاب بنانے کے لئے آپ نے بنفس نفیس سرحد کے دورے فرمائے تھے ۔جملہ یاران طریقت کو ان سب موقعوں پر حکم تھا کہ کامل جوش عمل اور تگ و دو کا مظاہرہ کریں اور تحریک کی حمایت و اعانت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔لیکن افسوس نصاب تعلیم میں پاکستان کے مخالفین کو ہیرو بناکر پیش کیا گیا اور تحریک پاکستان میں کام کرنے والے علماء و مشائخ کے اسمائے گرامی تک کو نصاب تعلیم سے نکال دیا گیا ۔جس کو سازش کہا جانا غلط نہ ہو گا۔
قائداعظم کو مکتوب تہنیت:1946ء کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی تو حضرت قبلہ عالم پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ نے قائد اعظم کو ایک خط لکھا ۔جس کا پورا مضمون ’’روزنامہ جنگ کراچی یوم پاکستان ایڈیشن 1970‘‘سے نقل کیا جاتا ہے ۔
’’قائد اعظم صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
گزشتہ ہفتہ میں ایک پیغام عزم حج کی مبارکبادی پر بھیج چکا ہوں ،اب دوسری مرتبہ آپ کو مسلم لیگ کی کامیابی پر مبارک باد دیتا ہوں ،کیونکہ مسلم لیگ کی کامیابی کا سہرا ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں میں سے خدا وند کریم نے آپ ہی کو نصیب فرمایا اور باوجوود پانچ گروہوں کی مخالفت کے خُداوند تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے محض آپکو کامیابی بخشی۔ حالانکہ مخالفت میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپیہ صرف کر دیاکیا۔ باوجود کروڑوں روپیہ صرف کرنے کے ان کو ساری رُوسیاہی اور ذلت نصیب ہوئی۔ اُنہوں نے کوشش کی کہ مسلمانوں کو آپ سے برگشتہ کرکے بقول کشمیریاں گاندھی کا کتّا بنا یا جائے۔ مگر سوائے تین شخصوں کے اور کسی کو بھی وہ گاندھی کا کتّا نہ بنا سکے۔
اس پیغام میں دوسری مبارک باد حضور نظام اور اہلِ حیدر آباد کو دیتا ہوں جنہوں نے آپ کو سونے سے وزن کرکے دس کروڑ مسلمانوں کی لاج رکھ لی۔ کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک سونے سے وزن کرنے کی عزّت، سوا آغا خان اور آپکے ، کسی بادشاہ کو بھی کسی ملک کسی قوم میں نصیب نہیں ہوئی۔ کیونکہ خدا تعالی ؔ نے ساری د’نیا کے مسلمانوں سے برگذیدہ کرکے آپ کو یہ مرتبہ نصیب فرمایاہے۔
الراقم: سیّد جماعت علی عفی اللہ عنہ
از علی پور سیداں ۔ 17 جولائی 1946ء
ْ قائدِاعظم کے جوابی خطوط 

روزنامہ جنگ نے اسی اشاعت میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’پیر سیّد جماعت علی شاہ صاحب نے بعد میں ایک خط قائدِاعظم کو انگریزی میں بھی لکھوایا۔ جس میں مناسکِ حج اور زیارت کی تفصیلات ،مقامات کے فاصلے ، اور اخراجات تک تحریر کرائے تھے۔ قائدِآعظم نے ۱۳ِ اگست ۱۹۴۶ء کو جواب لکھا، جِس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
ڈئیر سیّد جماعت علی شاہ صاحب !
۱۷ء جولائی کے خط کے لئے بہت بہت شکریہ۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں تیزی سے جو تبدیلیاں ر’ونما ہو رہی ہیں، ان کی بنا پر میرے لئے اس وقت ہندوستان سے د’ور ہونا ممکن نہیں ۔
آپ کے شکریہ کے ساتھ
آپکامخلص‘ ایم اے جناح
اس سے قبل حضرت امیر ملت قدس سرّہ لعزیز قائد اعظم کو قیام پاکستان کی مبارکباد دے چکے تھے۔ حضور کی مُبارک باد کے جواب میں قائدِاعظم نے ۶اگست ۱۹۴۷ء کو جو خط لکھا تھا، اس کا ترجمہ یہ ہے۔
۱۰۔ اورنگ زیب روڈ نیو دہلی
۶۔اگست ۱۹۴۷ء
ڈیئر پیر صاحب !
آپ کی نیک تمّناؤں اور مبارک بادوں کا بہت بہت شکریہ۔ اور مجھے یقین ہے کہ مسلمان خوش ہیں آخر کار ہم نے، دو سو سال کی غلامی کے بعد، خود اپنے پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت بنا لی۔
آپ نے از راہِ لطف مجھے شفتالو’وں کا جو پارسل ارسال کیا ہے، اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
بہترین تمنّاؤں کے ساتھ
آپ کا مخلص
ایم اے جناح
قیامِ پاکستان پر مبارک باد:

  جب تقسیم برِ صغیر اور پاکستان کا اعلان ہوا تو حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمتہ اللہ علیہ بے حد مسر’ورہوئے کہ آج ہماری تگ’وَ دو اور جّدوجہد کا مثبت نتیجہ نکل آیا۔ آپ نے جناب قائدِ اعظم اور دوسرے زعما کو مبارک باد کے تار ارسال کئے۔ نواب افتخار حسین خان صاحب ممدوٹ کو آپ نے مبارکباد کا تار دیا تو قبل از وقت پنجاب کے وزیرِ اعلےٰ بننے کی مبارکبا د بھی دی۔ حضرت پیر صاحب مانکی شریف رحمہ اللہ علیہ کو آپ نے پیغام بھیجا تو لکھا۔ ’’پیر صاحب! پاکستان بن گیا۔ اب ہمارا کام ختم ہوا ۔ اب ملک چلانے والے جانیں اور ان کا کام‘‘۔
قائدِ اعظم کو آپ نے مبارک باد کا تار تحریر فرمایا: ’’ملک گیری آسان ہے۔ ملک داری بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ملک داری کی توفیق فرمائیں‘‘۔ ایک مرد مجاہد ،امیر ملت ،کشتۂ عشق رسالتﷺ اور دنیائے روحانیت کے مہر لطافت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ اتنی محنت و تحریک و عبادت کے بعد سفر آخرت باندھے ہوئے آخر کار 27,26ذیقعدہ 1370ھ بمطابق 31,30اگست 1951ء بروز جمعرات و جمعہ کی درمیانی شب گیارہ بجے آپ نے اس دارِ فانی سے سفر فرما کر بقائے دوام حاصل کیا اور لاکھوں ارادت مندوں اور عقیدت کیشوں کو اپنی ظاہری جدائی سے ملول و مغموم چھوڑ کر باقی باللہ ہونا پسند فرمایا ۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ۔
آپ کا سالانہ عرس مبارک 11,10مئی کو وارث علوم حضرت امیر ملت حضرت علامہ حافظ مفتی پیر سید افضل حسین شاہ جماعتی سجادہ نشین دربار عالیہ کی زیر صدارت منعقد ہوتا ہے ۔جس میں ملک و بیرون ملک سے لاکھوں عقیدت مند شرکت کرکے روحانی فیوض حاصل کر تے ہیں ۔جبکہ پیر سید منور حسین شاہ جماعتی آف لندن ،پیر سید مظفر حسین شاہ جماعتی ،پیر سید خورشید حسین شاہ جماعتی، پیر سید ذاکر حسین شاہ جماعتی اور پیر سید منظر حسین شاہ جماعتی مہمانانِ خصوصی ہوتے ہیں۔ پوری دنیا سے آنے والے زائرین اپنی روحانی پیاس بجھاتے ہیں اور علماء و مشائخ حضرت امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے


Ghazi ilm-ud-din shaheed, life and martyrdom of great muslim heroغازی علم الدین شہید

غازی علم الدین شہید

 

غازی علم دین شہید کو سزا کا فیصلہ متعصبانہ تھا‘ ریکارڈ

کی درستگی ضروری ہے

ـ 23 اپریل ، 2011

۔


لاہور (وقائع نگار خصوصی) بھٹو کیس کے ری اوپن ہونے کے ساتھ ہی کئی دہائی قبل کے عدالتی مقدمات کی دوبارہ سماعت کے لئے درخواستیں دائر کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ سب سے پہلے عاشق رسول غازی علم الدین شہید کو 80 سال قبل لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے گستاخ رسول راج پال کے قتل پر دی گئی پھانسی کی سزا کے فیصلہ پر نظرثانی کرنے کی درخواست دی گئی ہے۔ یوں مختلف سیاسی عدالتی حلقوں کی جانب سے بھٹو کیس کے ری اوپن کرنے سے جو پنڈورا بکس کھلنے کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ اور عدالت عظمٰی میں جہاں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں اور ججوں کی کمی کے باعث پہلے ہی سائل شدید مصائب و مشکلات کا شکار ہیں وہاں پرانے مقدمات کو ری اوپن کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تو پرانے مقدمات پر دوبارہ فیصلوں سے سوائے ریکارڈ کی درستگی کے کسی کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں لیکن اس کا نقصان براہ راست عدلیہ اورسائلین کو ضرور پہنچے گا کیونکہ اس سے عدلیہ پر نہ صرف کام کا دباﺅ بڑھے گا بلکہ اسے آئینی و قانونی حوالوں سے بھی کئی قسم کی پیچیدگیوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جہاں تک لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے عاشق رسول غازی علم الدین شہید کو گستاخ رسول راج پال کے قتل پر پھانسی کی سزا دینے کا معاملہ ہے اس پر ریکارڈ کی درستگی کئی حوالوں سے ضروری ہے خصوصاً مذہبی حوالوں سے بھی درخواست گذار سمیت بہت سے لوگوں کا یہ خیال تھا 1929ءمیں ہونے والے اس مقدمے کا فیصلہ متعصبانہ تھا جس میں قائداعظم محمد علی جناحؒ جیسے وکیل کی مدلل دلائل کے بعد بھی غازی علم الدین شہید کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی تھی۔ اس ضمن میں درخواست گذار امتیاز رشید قریشی کی جانب سے بیرسٹر ڈاکٹر فاروق حسن کی وساطت سے دائر درخواست میں م¶قف اختیار کیا گیا ہے 80 سال قبل 1929ءمیں لاہور ہائیکورٹ کے انگریز جج نے بدنیتی کی بنا پر فیصلہ سناتے ہوئے غازی علم الدین کو موت کی سزا سنائی۔ درخواست گذار نے استدعا کی عدالت انگریز جج کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے غازی علم الدین شہید کو قوم ہیرو کا درجہ دینے کے احکامات جاری کرے۔ درخواست میں کہاگیا ہے موجودہ دور کی عدالت عالیہ پریہ جوڈیشل فرض ہے وہ سابقہ فیصلے کو اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نظرثانی کے اصول سے کالعدم قرار دے اور مزید یہ کہ وہ عاشق رسول غازی علم الدین شہید کو ان تمام اعزازت سے نوازے جو بین الاقوامی سطح پر اس قسم کے مقدمات میں مسلمہ حقیقت کے حامل ہیں۔ درخواست میں غازی علم الدین شہید کیس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کس طرح ایک 18‘ 19 سالہ لڑکا آناً فاناً ہندو پبلشر راج پال کو قتل کر کے پھانسی گھاٹ تک پہنچ گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چار ستمبر 1929ءکو جب وہ لاہور کی مسجد وزیر خان کے قریب سے گذر رہا تھا کہ اس کو ایک جلسے میں جانے کا موقع ملا جس میں مقررین نے راج پال کو واجب القتل قرار دیا۔ جس نے رسول اللہ کے بارے میں انتہائی نازیبا اور قابل اعتراض کتاب شائع کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی۔ یہ مقدمہ قتل جب لاہور ہائیکورٹ کے روبرو پیش ہوا تو دو انگریز ججوں نے مختصر فیصلے کے بعد اس کی سزائے موت کو برقرار رکھا جس میں قائداعظم محمد علی جناحؒ بطور ڈیفنس وکیل پیش ہوئے جبکہ انگریز جج نے اپنے فیصلے میں قائداعظمؒ کے پرمغز دلائل کا کوئی جواب نہیں دیا چنانچہ استدعا ہے عدالت عالیہ اپنے آئینی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ فیصلہ صادر کرے کہ 1929ءکا فیصلہ غلط تھا اور مزید یہ کہ عاشق رسول غازی علم الدین شہید کو باعزت بری کرتے ہوئے یہ حکم صادر کرے کہ اس کو ازسرنو سرکاری جنازہ کا اہتمام کرے جس طرح کہ آئرلینڈ میں روجر کیس منٹ کے کیس میں ہوا تھا اور اس کو بعد از موت ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس ضمن میں بیرسٹر فاروق حسن نے بات کرتے ہوئے کہا یہ کیس ری اوپن کرنے کا خیال بھٹو کیس ری اوپن ہونے کے بعد سب سے پہلے درخواست گذار امتیاز رشید قریشی کو آیا تھا تاہم میں اس کیس پر ذاتی طور پر گذشتہ دو سال سے تحقیق کر رہا تھا اور سمجھتا تھا میرے لئے ایک بڑے اعزاز کی بات ہے کہ غازی علم الدین شہید جیسے بڑے آدمی کا مقدمہ لڑنے جا رہا ہوں۔ ایک ایسے عظیم آدمی کا مقدمہ جس کی پیروی علامہ محمد اقبال جیسے نابغہ روزگار ہستی نے کی اور جس کی وکالت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کی۔ یوں مسلمانان ہند کے اس ہیرو کا مقدمہ لڑنا میرے لئے عزت‘ فخر اور خوشی کی بات ہے۔ یہ اتنا بڑا مقدمہ تھا کہ جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو متحد کر دیا تھا اور ان کی سوچ کو ایک نئی سمت دی جس کی منزل تحریک پاکستان ٹھری۔ اس مقدمے میں علامہ اقبالؒ خصوصی دلچسپی لے رہے تھے اور وہی قائداعظم محمد علی جناحؒ کو یہ مقدمہ لڑنے کےلئے لائے تھے۔ بہرحال اگر کل یہ ایک بہت بڑا مقدمہ تھا تو آج بھی یہ اتنا ہی بڑا ہے اور آٹھ دہائیاں گزرنے کے باوجود اسکی اہمیت کم نہیں ہوئی چنانچہ ریکارڈ درست ہونا چاہئے جس کےلئے اس کام کو ایک مشن کی طرح لیکر نکلے ہیں
غازی علم دین شہید

28yrs Ashiq E Rasool Amir Cheema Shaheed

حضرت غازی عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ
حضرت غازی عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ ایک نظریہ ،ایک حقیقت
پندرہویں صدی کے شہید اعظم اور عالم اسلام کے ہیرو حضرت غازی عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ آج سے 32سال قبل 4دسمبر1977ء کو ضلع حافظ آباد میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد محترم نے ان کا نام عبد الرحمن رکھا جبکہ والدہ محترمہ نے ان کا نام عامر رکھا ۔اس طرح ان کا نام عامر عبد الرحمن چیمہ بن گیا ۔عامر چیمہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ان کی تین بہنیں ہیں ۔ان کے والدین کئی سال پہلے راولپنڈی منتقل ہو گئے تھے ۔عامر چیمہ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکو ل راولپنڈی سے شروع کی اور 1993ء میں گورنمنٹ ہائی سکول راولپنڈی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ایف ایس سی سر سید کالج راولپنڈی سے پاس کرنے کے بعد 1996ء میں عامر چیمہ فیصل آباد چلے گئے ۔یہاں انہوں نے نیشنل کالج آف ٹیکسٹائل انجینئرنگ میں داخلہ لیا ۔یہاں سے انہوں نے 2000ء میں انجینئر نگ کی ڈگری حاصل کی ۔ انہوں نے سب سے پہلے رائیونڈ کی ایک ٹیکسٹائل مل میں ملازمت اختیار کی ۔وہاں کچھ عرصہ ملازمت کر کے عامر چیمہ واپس راولپنڈی آگئے اور ایک پرائیویٹ کالج میں تدریس کا کام شروع کر دیا ۔جلد ہی انہوں نے یہ ملازمت چھوڑ کر پھر سے ایک ٹکسٹائل مل میں نوکری کر لی ۔کچھ عرصے کے بعد ٹیکسٹائل مل سے ملازمت چھوڑ کر عامر چیمہ لاہور چلے گئے ۔لاہور میں انہوں نے یونیورسٹی آف مینجمنٹ میں داخل لیا اور وہ 26نومبر2004ء کو ماسٹر آف ٹیکسٹائل مینجمنٹ کا کورس کرنے کے لئے جرمنی چلے گئے ۔ یونیورسٹی میں ان کے تین سمسٹر مکمل ہو چکے تھے ۔آخری سمسٹر باقی تھا۔
اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو ایسا عظیم الشان مقا م و مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ آپ ﷺ جیسی کوئی ہستی کائنات میں نہ کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی ۔آپ ﷺ نبی آخرالزماں ہیں، رحمۃ اللعالمین اور قیامت تک تمام انسانوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں ۔ہم سب حضور ﷺ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ۔جب تک ہم اپنے ماں ،باپ ، بہن، بھائیوں، سے بھی زیادہ حضور ﷺ سے پیار نہ کریں ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ہم حضور ﷺ کی اتنی عزت کرتے ہیں ،ان سے اس قدر محبت کرتے ہیں ان کو ایسا مقدس جانتے ہیں کہ درود پاک کے بغیر ان کا نام نامی اسم گرامی زبان پر نہیں لاتے ۔ظاہر ہے ہم جن کی اتنی عزت کرتے ہیں کوئی ان کی توہین کرے ،ہم یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ کی توہین ہو اور مسلمان خاموش رہیں ۔ہو ہی نہیں سکتا ،یہ در اصل محبت ،عشق ادب اور احترام کی نرالی ہی دنیا ہے ،کوئی انوکھا ہی رنگ ہے ۔جسے غیر مسلم ، مغرب والے ،یہودی ،عیسائی اور ہندو سمجھ ہی نہیں سکتے ۔
عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ محبت رسول اللہﷺ کے اسی نوکھے رنگ میں رنگے ہوئے تھے ۔جرمنی کے ایک اخبار Die Welte میں رسول اللہ ﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع ہوئے تو عامر چیمہ غم اور غصے سے تڑپ اٹھے ۔اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والی مختلف رپورٹوں کے مطابق اپنے پیارے نبی ﷺ کی توہین نے انہیں سخت بے قرار اور بے چین کر دیا تھا ۔ان کی یہ بے قراری اور بے چینی عامر چیمہ کو اس رسوائے زمانہ اخبارکے مرکزی دفتر میں لے گئی ۔وہ تیز قدموں سے اخبار کے گستاخ رسول ایڈیٹر کے کمرے کی طرف بڑھے ۔عامر چیمہ دوڑتے ہوئے ایڈیٹر کے کمرے میں گھس گئے اور اپنے کپڑوں میں چھپا یا ہوا خاص قسم کا شکاری خنجر نکال کر اس پر پے در پے وار کر کے اسے شدید زخمی کر دیا ۔اتنے میں دفتر کا عملہ اور سیکورٹی گارڈز جمع ہو گئے اور انہوں نے عامر چیمہ کو پکڑ لیا ۔عامر چیمہ نے مزید وار کر نے کے لئے اپنے آپ کو ان لوگوں کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ بہت سے لوگ تھے اس لئے عامر چیمہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے ۔جرمن پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔
تین دن بعد جرمن پولیس نے عامر چیمہ کو اپنے اس تحریری بیان کے ساتھ عدالت کے رو برو پیش کیا جس میں عامر چیمہ نے کہا تھا:’’ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے  ایڈیٹر پر قاتلانہ حملہ کیا ۔یہ شخص ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کا ذمہ دار تھا ۔اگر مجھے آئندہ بھی موقع ملا تو میں ایسے ہر شخص کو قتل کر دوں گا ۔‘‘ عامرچیمہ کے اس جرأت مند انہ اعتراف کے بعد کسی ریمانڈ ،کسی تحقیق اور تشدد کی گنجائش نہیں تھی ،لیکن ظالم ہٹلر کے ظالم اور درندہ صفت جانشینوں نے عامر چیمہ پر ظلم و ستم اور تشدد کے پہاڑ توڑدیئے ۔بعض اخباری رپورٹوں کے مطابق تفتیش کے دوران جب جرمن پولیس کے ایک اہلکار نے رسول اللہ ﷺ اور دیگر انبیاء کرام کے بارے میں گستاخانہ گفتگو کی تو عامر چیمہ نے اس کے منہ پر تھوک دیا ۔ان کو ایسی اذیتیں اور تکلیفیں دی گئیں کہ وہ بالآخر جبر و تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے آخرت کے سفر پر روانہ ہو گئے ۔ عامر چیمہ کی شہادت کی خبر سامنے آئی تو جرمن پولیس کے اس ظلم و ستم پر پاکستان کے ہر فرد کے دل پر ایک قیامت گزر گئی ۔وطن کے ہر گھر میں ہر زبان پر عامر چیمہ کا تذکرہ تھا ۔ سب نے عامر چیمہ کو ہیرو بنا کر اپنے دل کی دھڑکنوں میں بسا لیا تھا ۔لوگ جوق در جوق راولپنڈی کے علاقے ڈھوک کشمیریاں کی گلی نمبر18میں واقع عامر چیمہ کے گھر جانے لگے ۔وہاں ہر وقت ہجوم رہنے لگا۔ روزانہ سینکڑوں لوگ پھول ،گلدستے اور تہینتی کارڈ لے کر عامر چیمہ کے گھر جاتے ان کے والدین سے ملتے انہیں عامر چیمہ کی شہادت پر مبارک باد دیتے اور شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ۔کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔سچ تو یہ ہے کہ لوگوں نے عاشق رسول اللہ ﷺ عامر چیمہ شہید کے ساتھ عشق کا حق ادا کر دیا ۔جب 13مئی کو عامر چیمہ شہید کا جسد خاکی ان کے آبائی گاؤں ساروکی چیمہ (گوجرانوالہ) پہنچا تو عامر چیمہ کے ساتھ لوگوں کا عشق اپنی انتہا پر تھا ۔بچے ،بوڑھے، جوان،عورتیں، مرد ،امیر ،غریب، صبح سویرے ہی ساروکی چیمہ پہنچنا شروع ہو گئے تھے ۔سخت گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں شمع رسالت ﷺ کے پروانوں کا جوش و جذبہ دیکھ کر غیر ملکی میڈیا کے نمائندے ہی نہیں آسمان دنگ رہ گیا تھا ۔پر نم آنکھوں ،درد سے بھرے ہوئے دلوں اور بے قابو جذبات کے ساتھ لاکھوں لوگ عامر چیمہ شہید کے تابوت کو چھونے کے لئے لپک رہے تھے ۔تڑپ رہے تھے ۔فضاء میں عجب سا نور رقص کر رہا تھا ۔تلاوت قرآن ،نعرہ تکبیر ،نعرہ رسالت اور درود و سلام کی گونج نے ایک نرالا سماں پیدا کر دیا تھا ۔انوارو تجلیات کی پر کیف برسات جاری تھی جب وہ دوپہر تقریباً پونے دو بجے کے قریب عامر چیمہ شہید کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دیا گیا ۔
آفرین صد آفرین ،عامر بھائی ! آپ بازی لے گئے ،اللہ تعالیٰ آپ کی قربانی کو قبول فرمائے ،آپ پر رحمتیں نازل کرے اور آپ کی قبر کو ہمیشہ نور سے آباد رکھے۔
حضرت غازی عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کے والد پروفیسر نذیر احمد چیمہ اپنے اکلوتے بیٹے کی شہادت پر مطمئن ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے نے حضرت محمد ﷺ کی عزت و حرمت کی خاطر جان دی ہے ۔عامر بہت نیک اور سعادت مند بیٹا تھا ۔اس کی شہادت نے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا۔عامر چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کے والدہ محترمہ کہتی ہیں کہ میرا شیر جیسا بیٹا اعلیٰ ڈگری لینے جرمنی گیا تھا اور وہاں سے ایسی اعلیٰ ڈگری لے کر آیا کہ اس سے بڑی کوئی ڈگری نہیں ۔اگر میرا کوئی اور بیٹا ہوتا تو میں اسے بھی اسی راستے میں بھیجتی ۔اللہ تعالیٰ میرے بیٹے کی شہادت قبول فرمائے ۔عامر چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کی بہنیں کہتی ہیں کہ آخری دفعہ 6مارچ کو کزن کی شادی کے موقع پر بھائی نے مبارکباد کے لئے فون کیا تھا ۔ان کی بہنیں کہتی ہیں کہ عامر بھائی ہماری ہر بات مانتے تھے ۔کبھی انکار نہیں کرتے تھے ۔ہم نے اپنے بھائی جیسا خیال رکھنے والا اور محبت کرنے والا بھائی کبھی نہیں دیکھا ۔وہ ہم تینوں سے بہت پیار کرتے تھے ۔ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے بھائی کو اتنی شان بخشی۔
ٍ

8.5.11

Maulana Shah Ahmad Noorani Siddiqui Al-Qadiri (RA) Rahmatullah alaih

                                                               Qaid-e-Ahl Sunnat
His Eminence Maulana Shah Ahmad Noorani Siddiqui 
Al-Qadiri (RA) Rahmatullah alaih (1926-2003)



 
The great Sunni scholar, spiritual guide, political leader, founder of the World Islamic Mission, inviter to Allah’s Religion, leader of the Jamiat e Ulama e Pakistan (JUP) and lately President of the MMA, His Excellency Mawlana Shah Ahmad Noorani al-Siddiqui, son of His Eminence Hazrat Shaykh Abdul ‘Aleem Siddiqui Meerathi (may Allah have mercy on them both)-who was a khalifa (spiritual heir) to His Eminence Imam e Ahle Sunnat Ala Hazrat Imam Ahmad Riza Khan Barelvi and one of the greatest Islamic scholars of the twentieth century and spiritual had of the Qadiri and Chishti Sufi orders –may his innermost being be sanctified!-has passed away of a heart attack earlier today in Islamabad and thus left the future of the MMA in doubt and also, more importantly, left Sunnis all of the world in deep grief at his passing.His Eminence was born in Meerut, India in the holy month of Ramadan and became a hafiz-ul-quran (memorized the entire Holy Qur’an) at the tender age of eight. His noble lineage goes back to that of the greatest of human beings after the Prophets and Messengers, by ijma of this Ummah, Sayyidina Abu Bakr al Siddiq (may Allah be well pleased with him), the first Khalifah of the Prophet and the greatest of the Companions.Noorani Sahib Graduated from the National Arabic College, Meerut,lndia and obtained the Fazil -e-Arabi degree from Allahabad University and completed the renowned classical dars-e-Nizami (at advanced or Fazil level) from Darul-Uloom Arabia, Meerut. He also learned from his eminent father.
 After completing his education he started his full-fledged international missionary tours around the world soon after the birth of Pakistan. During his lifetime he held a number of important posts including:
• Honorary Secretary General of the WORLD MUSLIM ULAMA ORGANIZATION for 12 years thus working for the cause of Islamic Unity.
• Founder of WORLD ISLAMIC MISSION at Dar-ul-Arkam in Makkah al-Mukarramah in 1972
• President of INTERNATIONAL ISLAMIC MISSIONARIES GUILD
• Presided over the International Islamic Conference held at Bradford, U.K., in April 1974 and subsequently elected the First President of the WORLD ISLAMIC MISSION.
In his political career Mawlana was elected as a Member of Parliament from Karachi in 1970 and subsequently elected Leader of the Parliamentary Party of the JAMIAT ULAMA - PAKISTAN (JUP) unanimously. He retained his Karachi seat for a long time and was a Senator.

قائد اہل سنت ،علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی،ایک عظیم شخصیت





قائد اہلسنت شاہ احمد نورانی صدیقی 17 رمضان المبارک 1344/ 31مارچ 1926ء کو میرٹھ (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب والد و والدہ دونوں طرف سے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق سے جا ملتا ہے۔ آپ کے دادا کے برادر مولانا محمد اسماعیل میرٹھی تھے جن کی نظمیں آج بھی مشہور و معروف ہیں۔

مولانا شاہ احمد نورانی کی تعلیم و تربیت ایک علمی اور فکری خاندان میں ہوئی آٹھ سال کی عمر میں آپ نے قرآن کریم کو حفظ کر لیا ۔ حفظ قرآن کے بعد میرٹھ میں آپ نے اپنی ثانوی تعلیم نیشنل عربک کالج میں مکمل کی جہاں ذریعہ تعلیم عربی زبان تھی بعدازاں الہ آباد کالج سے گریجوایشن کیا اسی دوران میرٹھ کے مدرسہ اسلامیہ عربیہ میں حضرت علامہ غلام جیلانی سے درس نظامی کی مروجہ کتب پڑھیں بعد میں آپ نے اپنے والد کے حکم پر دیگر بین الاقوامی زبانیں سیکھ لیں اسی لئے آپ کو تقریباً 17 زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے سب سے پہلے حرمین شریفین کی زیارت 11سال کی عمر میں کی جب آپ کے والد قرأت کی تعلیم کے سلسلے میں مدینہ منورہ لے گئے۔ جہاں آپ نے ایک سال کی تجوید و قرأت کی تعلیم حاصل کی ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ کو کم از کم 16مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی اور آپ نے لاتعداد عمرے کیے

آپ کو مدینہ منورہ سے ایک خاص تعلق تھا اپنے آقا و مولیٰ کا شہر آپ کے والد کی تدفین بھی اسی شہر کے قبرستان جنت البقیع میں ہوئی تھی آپ کی شادی خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی نے اپنی پوتی سے کرائی تھی اس لئے آپ کا سسرال بھی مدینہ منورہ میں تھا۔ حضرت امام شاہ احمد نورانی نے خلوت و حلوت اتباع رسول میں گزاری کوشش یہ ہوتی کہ آپ کا کوئی عمل سنت رسول کے مخالف نہ ہو ۔
مولانا شاہ احمد نورانی کی عالمی مصروفیات

1955ء میں عالم اسلام کی تاریخی یونیورسٹی جامعہ الازہر (مصر) کے علماء کی دعوت پر مصر تشریف لے گئے ۔1956ء میں حضرت مفتی ضیاء الدین بابا فاتوف مفتی اعظم روس کی خصوصی دعوت پر روس کا تبلغی دورہ اور 1959ء میں مشرق وسطیٰ کا خیر سگالی دورہ کیا۔1960ء میں مولانا نورانی نے سری لنکا اور شمالی افریقہ کا دورہ 1962ء میں نائجیریا کے وزیر اعظم احمد وبیلو شہید کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے۔1962ء میں مدینہ منورہ میں مولانا نورانی کی شادی انجام پائی۔1963ء میں شاہ نورانی نے ترکی، فرانس، مغربی جرمنی، برطانیہ، ماریشس، نائجیریا اور اسکینڈے نیوین کے ممالک کا دورہ کیا۔1964 ء میں نورانی میاں امریکا اور کینیڈا گئے۔1968ء میں ایک مناظرہ ایک قادیانی مبلغ سے ٹرینیڈاڈ میں ساڑھے پانچ گھنٹے ہوا بالآخر وہ کتابیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔1969ء میں شاہ احمد نورانی نے پاکستان آنے کے بعد سب سے پہلا بیان قادیانی فتنہ پر دیا۔

سیاسی زندگی

1970ء میں جمعیت علمائے پاکستان کی جانب سے کراچی میں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی۔1971ء میں علامہ نورانی نے سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کا ڈیڑھ ماہ کا دورہ کیا۔1972ء میں فتنہ قادیانیت پر قومی اسمبلی سے خطاب کیا۔1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقابل متحدہ جمہوری محاذ بنایا۔1974ء میں مولانا نورانی نے 12اپریل کو بریڈ فورڈ کے سینٹ جارجز ہال میں ایک عظیم الشان عالمی کانفرنس کی صدرات کی۔ 30جون 1974ء میں مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے قرارداد پیش کی جس کے تحت ہمیشہ کے لئے قادیانیوں کو پاکستان کے آئین میں غیر مسلم قرارد دے دیا گیا۔1975ء میں چیئرمین ورلڈ اسلامک مشن کی حیثیت سے امریکا و افریقا کا دورہ کیا۔1976ء میں جمعیت علمائے پاکستان کی طرف سے پاکستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ 1977ء میں تحریک نظام مصطفیٰ میں گرفتاریاں اور قاتلانہ حملہ ہوا۔

1974ء کے تبلیغی دورے پر ماریشس گئے مئی 1974ء میں کیپ ٹاؤن (افریقا) گئے کیپ ٹاؤن کے میئر نے نورانی میاں کو ”سفیر اسلام“ کے خطاب سے مخاطب کیا۔ اس دورے میں105 افریقی یورپی اور مقامی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔1979ء میں علامہ نورانی نے برمنگم (برطانیہ) میں عظیم الشان ”نظام مصطفیٰ کانفرنس“ میں شرکت کی۔ فروری 1980ء میں امریکا کے شہر نیویارک میں کولمبیا یورنیورسٹی کے انٹرنیشنل ہال میں ”اسلام کی ہمہ گیریت“ کے موضوع پر انگریزی میں خطاب کیا یونیورسٹی کی ایک پروفیسر خاتون نے مولانا نورانی کی تقریر سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔1981ء میں مکہ مکرمہ میں عمرے ادا کیا۔1982ء میں مولانا نورانی ماریشس کے تبلیغی دورہ پر گئے۔ اس دورے میں بہت سے قادیانیوں نے اسلام قبول کیا ۔1983ء میں ڈربن (جنوبی افریقا) گئے جہاں میلاد مصطفیٰ کانفرنس سے خطاب کیا۔1984ء میں ماریشس گئے جہاں متعدد غیر مسلموں کو مسلمان کیا اسی سال احمد شاہ نورانی نے برطانیہ میں چند مساجد کا سنگ بنیاد رکھا۔1985ء میں ورلڈ اسلامک مشن برطانیہ کے تحت ویمبلے ہال لندن میں”حجاز مقدس کانفرنس“ میں شرکت کی۔ مارچ1986ء میں ایران عراق جنگ ختم کرانے کے لئے ورلڈ علماء کانفرنس کی قائم کردہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے عراق گئے نومبر1986ء میں برطانیہ، جنوبی افریقا، فرانس اور کینیا کا تفصیلی دورہ کیا۔ 1987ء میں ہالینڈ میں ایک مسجد کا افتتاح کیا اور بہت سے مذہبی اجتماعات سے خطاب کیا۔1989ء میں بھارت کا دورہ کیا اورہندو مت اور اسلام کے تقابل پر لیکچر دیئے۔1996ء میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں پہلی مسجد کا افتتاح کیا۔مولانا شاہ احمد نورانی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے 1974ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرارداد منظور کروائی جو طویل بحث و مباحثے کے بعد منظور کی گئی۔1972ء میں ورلڈ اسلامک مشن کی بنیاد رکھی۔

مولانا نے پوری دنیا میں دین اسلام کی سربلندی کے لئے تبلیغ کا عمل جاری رکھا ان کا شمار ایسے اسکالرز میں ہوتا ہے جن کا نام یورپ، افریقا اور امریکا میں تبلیغ اسلام کے لئے بہت معتبر سمجھا جاتا ہے مولانا نے پوری دنیا میں ورلڈ اسلامک مشن کی شاخیں قائم کیں اور درجنوں مساجد کی تعمیر کی۔ آپ نے اپنی زندگی میں اس قدر سفر کیا کہ اگر آپ کو ”سیاح عالم“ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔31دسمبر2003 بروز جمعرات امام شاہ احمد نورانی اس دنیا سے چلے گئے۔ آپ کے جنازے میں ہر مسلک کے متعدد رہنماء و سربراہ دو صوبے کے وزرائے اعلٰی کئی وفاقی و صوبائی حتیٰ کہ سرحد حکومت کی پوری کابینہ، ہزاروں علماء اکابرین اہلسنت ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما اور لاکھوں عوام نے شرکت کی۔

جھوٹے مدعیان نبوت   عن  ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال لا تقوم الساعۃ حتٰی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول ...