9.5.11

Sayyid Jama'at Ali Shah (rahmat Allah alayhi)

امیر ملت حافظ پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری 
رحمۃ اللہ علیہ
ولادت:حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1830ء اور 1840ء کے درمیان ہے ۔حضرت سید کریم شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے نورِ نظر امیر ملت قبلۂ عالم حضرت سید جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہردۂ عدم سے عالم وجود میں ظہورفرمایا ۔
حضرت قبلۂ عالم قدس سرہٗ العزیز کی ولادت مسعود کا صحیح دن اور وقت کسی طرح تحقیق نہ ہو سکا ۔1951ء میں آپ کی وفات سے چند روز قبل ایک ڈاکٹر نے آپ کی عمر دریافت کی تھی تو آپ نے فرمایا کہ ’’ایک سو دس سال سے ایک سو بیس سال تک ۔‘‘ اس سے صرف اتنا اندازہ کرنا ممکن ہے کہ آپ کی ولادت 1830ء اور 1840ء کے درمیان ہوئی ہو گی ۔
آپ کے والدِ ماجد حضرت سید کریم شاہ رحمۃ اللہ علیہ ایک کامل ولی اللہ تھے ۔آپ کو ازروئے کشف نومولود کے عظیم المرتبت ہونے کا حال روشن تھا ۔ اس لئے آپ نے حضرت امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت پر غیر معمولی جوش و مسرت کا اظہار کیا اور بارگاہ رب العزت میں ہدیۂ عجز و نیاز پیش کیا ۔عقیقہ کا دن آیا تو قصاب کو حکم ہوا کہ صحیح عمر و صحت کے بکرے لائے جائیں تاکہ سنت کی ادائیگی کما حقۂ انجام پائے ۔عقیقہ کے بال بجائے چاندی کے سونے میں تولے گئے۔ تاکہ بندگان خدا کو زیادہ سے زیادہ فیض پہنچ سکے ۔
نام:نام رکھنے کا مرحلہ پیش آیا تو جتنے منہ اتنی باتیں ۔ہر شخص نے اپنی رائے اور خیال کے مطابق نام تجویز کیا ۔لیکن آ پ کے والدِ ماجد نے ’’جماعت علی ‘‘ نام پسند کیا ۔ ’’خدا کی باتیں خدا ہی جانے‘‘ ایک فرد کا نام جماعت انوکھی سی بات ہے ۔لیکن منشائے ایزدی میں یہ امر مضمر تھا کہ یہ فرد ایک نہیں ،اس کے سات ایک جماعت ہو گی ۔لاکھوں انسانوں کی جماعت ،نام کا یہ انتخاب منجانب اللہ ارشاہ تھا ۔اس عظیم کام کی جانب جو اس فردِ واحد کے ہاتھوں اعلائے کلمۃ الحق اور احیائے سنت نبوی ﷺ کے لئے انجام پانے والا تھا۔
امتیازی صفات:آپ حالت طفلی ہی سے وہ شاہبازِ ولایت تھے کہ اپنے ہم عمروں میں امتیازی صفات کے مالک تھے ۔آپ کا بچپن عام بچوں سے جدا گانہ نوعیت رکھتا تھا ۔آپ ابتدا سے ذکر الہٰی میں مشغول رہتے ۔یہاں تک کہ عمر مبارک چار سال چار ماہ چار دن کی ہو گئی ۔تو آپ کے والدِ ماجد رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم کے لئے مسجد میں بھیج دیا۔
آپ کے والدِ ماجدِ رحمۃ اللہ علیہ حضرت حافظ شہاب الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو خاص طور پر اس کام کے لئے قلعہ سوبھا سنگھ سے علی پور شریف لائے تھے ۔حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے حافظ صاحب کا تلمذ اختیار کیا اور سب سے پہلے قرآن مجیدحفظ کیا ۔ حافظ صاحب مرحوم کو خانوادۂ حضرت قبلۂ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے تمام نو نہالوں کی استادی کا شرف حاصل رہا ۔


تحصیل علم میں دشواریاں 

  :انیسویں صدی کے وسط میں ذرائع حمل و نقل بے حد دشوار بلکہ ناپید تھے ۔لیکن حکمِ نبوی ﷺ کی پیروی اور سنت سلف کی اتباع میں حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے تحصیل علم کے لئے ہر قسم کی مشکلات کو آسان سمجھا اور دور دور کے سفر کئے ۔انیسویں صدی کے وسط میں عام طور پر نہ سڑکیں تھیں نہ سواریاں نہ ریلیں ۔گھوڑوں پر ،بیلوں کے تانگوں پر اور پید ل سفر کئے جاتے تھے ۔حضرت قبلۂ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے لاہور تک کے پیدل سفر کے واقعات معلوم ہیں ۔یہ بھی جاننا چاہئے کہ حضور کے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ زمیندار تھے ۔اس لئے حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کو تحصیل علم کے لئے سفر کرنے میں ایسی کچھ دشواریوں کا مقابل نہ کرنا پڑتا ہو گا۔ علی پور سیداں سے لاہور تک کا سفر سو ،سوا سو سال پہلے آسان نہ تھا اور حضور صبح پیدل چلتے تھے اور شام تک لاہور پہنچ جاتے تھے ۔آپ کے اساتذہ کرام کے صرف نام جان لینے سے واضح ہو جاتا ہے کہ آپ نے سہارنپور ،کانپور، لکھنو اور گنج مراد آباد جیسے دور دراز مقامات پر جا کر تحصیل علم فرمائی تھی اور مشکلات سفر و حضر کو سہل جانا تھا اور یہ تمام سفر پیدل یا گھوڑے پر کئے ۔
علم و فضل میں یگانۂ روزگار: حضور قبلۂ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو ذہن وقاد ،طبع سلیم اور عقل کامل فطری طور پر عطا ہوئی تھی ۔ اُستاد ان کامل الفن نے خصوصی توجہ سے ان میں اور چمک پیدا کر دی۔ علوم عقلی و نقلی پر عبور کامل حاصل کرنے کے ساتھ ہی آپ باطنی و روحانی ترقیاں حاصل کرتے رہے ۔چنانچہ دنیا پر روشن ہے کہ آپ حفظ میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اور ضبط میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم پلہ ہوئے ۔تو فصاحت میں حسان عصر اور خطبا ت میں یکتائے دہر بنے

ردِ مرزائیت
 جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو مسلمان بے حد مضطرب ہوئے ۔سب علماء اور صلحاء نے اس کے دعوے کی تکذیب کی اور دین متین میں اس نئے رخنے کا سدِ باب کرنے کی مساعی میں مصروف ہو گئے ۔حضرت امیر ملت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ اس جماعت کے سپہ سالار تھے ۔اور ابتدا سے کامل سر گرمی کے ساتھ مرزا کی مخالفت اور تکذیب فرماتے رہے ۔جہاں ضرورت ہوتی آپ فوراً پہنچ کر انسدادی اور تبلیغی کام شرو ع کر دیتے اور مسلمانوں کے دین ایمان کے تحفظ میں مشغول ہوجاتے ۔مرزا اور مرزائیوں سے ان مخالفتوں کی داستان بہت طویل ہے ۔
سیالکوٹ میں:

نومبر 1904ء میں سیالکوٹ کے مسلمان وفد بنا کر حضور امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے اور اطلا ع دی کہ مرزا غلام احمد اپنے مذہب کی تبلیغ کے لئے سیال کوٹ آنے والا ہے ۔ آپ فوراً سیالکوٹ پہنچ گئے اور مختلف بازاروں ،محلوں اور مسجدوں میں بڑے پیمانے پر جلسے منعقد کئے ۔ دوسرے علما ء کو بھی باہر سے دعوت دے کر بلایااور دوسروں کی تقریروں کے بعد آپ خود وعظ کہتے اور ختم نبوت کے مسئلے کو تفصیل سے سمجھاتے۔ دین متین اور عقائد حقہ پر قائم رہنے کی تاکید فرماتے تھے ۔حضور امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے کہ ’’ دوسری نئی چیزوں کے اختیار میں کوئی مضائقہ نہیں ،لیکن دین اپنا وہی پرانا رکھو ۔‘‘ چنانچہ آپ نے کم و بیش ایک ماہ سیالکوٹ میں قیام فرمایا ۔ اس دوران تمام اہتمامات کا بارخود برداشت کیا ۔اپنے اور رفقا کے لئے گھر سے برابر سامان خورد و نوش منگواتے رہے ۔مسلمانا نِ سیالکوٹ نے ان اجتماعات اور مواعظ حسنہ سے کامل فیض پایا اور خدا کے فضل سے مِرزا کو تمام عمر یہ ہمت نہ ہوئی کہ سیالکوٹ کا رُخ کرتا۔
تحریک قیام پاکستان:روزنامہ نوائے وقت لاہور نے 16اپریل 1970ء کو اپنی ’’اشاعت ملی‘‘ میں ایک مقالہ ’’تحریک پاکستان کا نڈر مجاہد‘‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا ۔اس میں مقالہ نگار نے لکھاتھا:
’’حضرت امیر ملت پیر جماعت علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ ہر وہ تحریک جو ہندوستان میں چلائی جاتی۔ آپ اس کا بغور مطالعہ فرماتے اور ایسی تحریکیں جو مسلمانوں کے مفاد کے خلاف مذہبی و دینی لحاظ سے ان کے لئے خطر ناک ثابت ہو سکتی تھیںآپ حکومتِ وقت کی پروا کئے بغیر ان کے خلاف نبردآزما ہو جاتے تھے ۔’’تحریک شہید گنج ‘‘ میں سکھوں اور انگریزوں کے خلاف ٹکرلے کر مسجدوں کی اہمیت و حرمت کے احساس کا جذبہ مسلمانوں کے اندر پیدا کیا اور قوم نے انہیں ’’امیر ملت‘‘ کے خطاب سے نوازا’’شدھی تحریک ‘‘ (مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک) کے سیلاب کے آگے بند باندھنے اور ہندؤوں کے زو ر کو توڑنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دی ۔شریعت مصطفےٰ ﷺ کو عام کرنے کے لئے آپ نے برصغیر پاک و ہند میں بے شمار دینی اور تبلیغی انجمنوں کی بنیادیں رکھیں ۔تاکہ مسلمانوں میں دینی فکر کی اساس مضبوط ہو سکے ۔ جیسا کہ آج بھی کئی ایسی انجمنیں مثلاً انجمن خدام الصوفیہ اور انجمن اسلامیہ وغیرہ زندہ ہیں جن کی بنیاد آپ نے رکھی تھی ۔
’’1940ء میں جب قرار داد لاہور پاس ہوئی تو آپ نے اس کی زبر دست حمایت کی اور پاکستان کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے ایک سرگرم مبلغ کی حیثیت سے مسلمانان پاک و ہند کو بیدار کیا ۔آپ مسلم لیگ کے زبر دست حامی تھے ۔قائد اعظم کی مقبولیت کے لئے کام کرتے رہے ۔پیر صاحب نے اپنے مریدوں سے کہہ رکھا تھا کہ میں اس شخص کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھاؤں گا جس نے تحریک پاکستان میں کسی نہ کسی رنگ میں حصہ نہ لیا ہو۔‘‘
مسلم لیگ کی حمایت: 

چنانچہ جب مسلم لیگ نے جماعتی حیثیت سے عوامی درجہ حاصل کر لیا اور 1940ء میں جب ’’قرار داد پاکستان‘‘ منظور ہو گئی ،تو حضرت قبلۂ عالم پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ نے علی الاعلا ن مسلم لیگ کی حمایت اور استحکام کے لئے کام شروع کر دیا اور سفر و حضر میں تلقین فرمانے لگے کہ سب مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو جانا واجب ہے ۔
ہندوستان بھر کے دو تنظیمی دورے: 

حضرت قبلہ عالم پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ نے تحریک قیام پاکستان کی تائید و حمایت کے لئے سارے برصغیر کے دو دورے فرمائے تھے ۔پہلی دفعہ مسلم لیگ کو مقبول بنانے اور مسلمانوں کی واحد سیاسی جماعت کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے لئے اور دوسری مرتبہ 1946ء کے مرکزی اور صوبائی انتخابات میں مسلم لیگی نمائندوں کی کامیابی کے لئے ۔نیز قیام پاکستا ن کے اعلان کے بعد صوبۂ سرحد میں ریفرینڈم کو کامیاب بنانے کے لئے آپ نے بنفس نفیس سرحد کے دورے فرمائے تھے ۔جملہ یاران طریقت کو ان سب موقعوں پر حکم تھا کہ کامل جوش عمل اور تگ و دو کا مظاہرہ کریں اور تحریک کی حمایت و اعانت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔لیکن افسوس نصاب تعلیم میں پاکستان کے مخالفین کو ہیرو بناکر پیش کیا گیا اور تحریک پاکستان میں کام کرنے والے علماء و مشائخ کے اسمائے گرامی تک کو نصاب تعلیم سے نکال دیا گیا ۔جس کو سازش کہا جانا غلط نہ ہو گا۔
قائداعظم کو مکتوب تہنیت:1946ء کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی تو حضرت قبلہ عالم پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ نے قائد اعظم کو ایک خط لکھا ۔جس کا پورا مضمون ’’روزنامہ جنگ کراچی یوم پاکستان ایڈیشن 1970‘‘سے نقل کیا جاتا ہے ۔
’’قائد اعظم صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
گزشتہ ہفتہ میں ایک پیغام عزم حج کی مبارکبادی پر بھیج چکا ہوں ،اب دوسری مرتبہ آپ کو مسلم لیگ کی کامیابی پر مبارک باد دیتا ہوں ،کیونکہ مسلم لیگ کی کامیابی کا سہرا ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں میں سے خدا وند کریم نے آپ ہی کو نصیب فرمایا اور باوجوود پانچ گروہوں کی مخالفت کے خُداوند تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے محض آپکو کامیابی بخشی۔ حالانکہ مخالفت میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپیہ صرف کر دیاکیا۔ باوجود کروڑوں روپیہ صرف کرنے کے ان کو ساری رُوسیاہی اور ذلت نصیب ہوئی۔ اُنہوں نے کوشش کی کہ مسلمانوں کو آپ سے برگشتہ کرکے بقول کشمیریاں گاندھی کا کتّا بنا یا جائے۔ مگر سوائے تین شخصوں کے اور کسی کو بھی وہ گاندھی کا کتّا نہ بنا سکے۔
اس پیغام میں دوسری مبارک باد حضور نظام اور اہلِ حیدر آباد کو دیتا ہوں جنہوں نے آپ کو سونے سے وزن کرکے دس کروڑ مسلمانوں کی لاج رکھ لی۔ کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک سونے سے وزن کرنے کی عزّت، سوا آغا خان اور آپکے ، کسی بادشاہ کو بھی کسی ملک کسی قوم میں نصیب نہیں ہوئی۔ کیونکہ خدا تعالی ؔ نے ساری د’نیا کے مسلمانوں سے برگذیدہ کرکے آپ کو یہ مرتبہ نصیب فرمایاہے۔
الراقم: سیّد جماعت علی عفی اللہ عنہ
از علی پور سیداں ۔ 17 جولائی 1946ء
ْ قائدِاعظم کے جوابی خطوط 

روزنامہ جنگ نے اسی اشاعت میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’پیر سیّد جماعت علی شاہ صاحب نے بعد میں ایک خط قائدِاعظم کو انگریزی میں بھی لکھوایا۔ جس میں مناسکِ حج اور زیارت کی تفصیلات ،مقامات کے فاصلے ، اور اخراجات تک تحریر کرائے تھے۔ قائدِآعظم نے ۱۳ِ اگست ۱۹۴۶ء کو جواب لکھا، جِس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
ڈئیر سیّد جماعت علی شاہ صاحب !
۱۷ء جولائی کے خط کے لئے بہت بہت شکریہ۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں تیزی سے جو تبدیلیاں ر’ونما ہو رہی ہیں، ان کی بنا پر میرے لئے اس وقت ہندوستان سے د’ور ہونا ممکن نہیں ۔
آپ کے شکریہ کے ساتھ
آپکامخلص‘ ایم اے جناح
اس سے قبل حضرت امیر ملت قدس سرّہ لعزیز قائد اعظم کو قیام پاکستان کی مبارکباد دے چکے تھے۔ حضور کی مُبارک باد کے جواب میں قائدِاعظم نے ۶اگست ۱۹۴۷ء کو جو خط لکھا تھا، اس کا ترجمہ یہ ہے۔
۱۰۔ اورنگ زیب روڈ نیو دہلی
۶۔اگست ۱۹۴۷ء
ڈیئر پیر صاحب !
آپ کی نیک تمّناؤں اور مبارک بادوں کا بہت بہت شکریہ۔ اور مجھے یقین ہے کہ مسلمان خوش ہیں آخر کار ہم نے، دو سو سال کی غلامی کے بعد، خود اپنے پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت بنا لی۔
آپ نے از راہِ لطف مجھے شفتالو’وں کا جو پارسل ارسال کیا ہے، اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
بہترین تمنّاؤں کے ساتھ
آپ کا مخلص
ایم اے جناح
قیامِ پاکستان پر مبارک باد:

  جب تقسیم برِ صغیر اور پاکستان کا اعلان ہوا تو حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمتہ اللہ علیہ بے حد مسر’ورہوئے کہ آج ہماری تگ’وَ دو اور جّدوجہد کا مثبت نتیجہ نکل آیا۔ آپ نے جناب قائدِ اعظم اور دوسرے زعما کو مبارک باد کے تار ارسال کئے۔ نواب افتخار حسین خان صاحب ممدوٹ کو آپ نے مبارکباد کا تار دیا تو قبل از وقت پنجاب کے وزیرِ اعلےٰ بننے کی مبارکبا د بھی دی۔ حضرت پیر صاحب مانکی شریف رحمہ اللہ علیہ کو آپ نے پیغام بھیجا تو لکھا۔ ’’پیر صاحب! پاکستان بن گیا۔ اب ہمارا کام ختم ہوا ۔ اب ملک چلانے والے جانیں اور ان کا کام‘‘۔
قائدِ اعظم کو آپ نے مبارک باد کا تار تحریر فرمایا: ’’ملک گیری آسان ہے۔ ملک داری بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ملک داری کی توفیق فرمائیں‘‘۔ ایک مرد مجاہد ،امیر ملت ،کشتۂ عشق رسالتﷺ اور دنیائے روحانیت کے مہر لطافت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ اتنی محنت و تحریک و عبادت کے بعد سفر آخرت باندھے ہوئے آخر کار 27,26ذیقعدہ 1370ھ بمطابق 31,30اگست 1951ء بروز جمعرات و جمعہ کی درمیانی شب گیارہ بجے آپ نے اس دارِ فانی سے سفر فرما کر بقائے دوام حاصل کیا اور لاکھوں ارادت مندوں اور عقیدت کیشوں کو اپنی ظاہری جدائی سے ملول و مغموم چھوڑ کر باقی باللہ ہونا پسند فرمایا ۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ۔
آپ کا سالانہ عرس مبارک 11,10مئی کو وارث علوم حضرت امیر ملت حضرت علامہ حافظ مفتی پیر سید افضل حسین شاہ جماعتی سجادہ نشین دربار عالیہ کی زیر صدارت منعقد ہوتا ہے ۔جس میں ملک و بیرون ملک سے لاکھوں عقیدت مند شرکت کرکے روحانی فیوض حاصل کر تے ہیں ۔جبکہ پیر سید منور حسین شاہ جماعتی آف لندن ،پیر سید مظفر حسین شاہ جماعتی ،پیر سید خورشید حسین شاہ جماعتی، پیر سید ذاکر حسین شاہ جماعتی اور پیر سید منظر حسین شاہ جماعتی مہمانانِ خصوصی ہوتے ہیں۔ پوری دنیا سے آنے والے زائرین اپنی روحانی پیاس بجھاتے ہیں اور علماء و مشائخ حضرت امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے


1 comment:

  1. سر آپ نے اس بلاگ میں جو تصویر پیر سید جماعت علی شاہ صاحب کے مزار شریف کی لگای ہے وہ ٹھیک ہے مگر قبر کی تصویر انکے کزن کی ہے
    http://www.facebook.com/video/video.php?v=110042935741151
    http://www.facebook.com/groups/alipurmureeds/photos/
    http://www.facebook.com/photo.php?fbid=1497715116109&set=o.34682356403&type=3

    ReplyDelete

جھوٹے مدعیان نبوت   عن  ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال لا تقوم الساعۃ حتٰی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول ...