3.7.11

7 ستمبر:قادیانیوں کے خلاف تاریخی فیصلہ

    

   7 ستمبر:قادیانیوں کے خلاف تاریخی     فیصلہ

  حضرت محمد مصطفی اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اوررسول ہیں۔ آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی تشریعی‘ غیرتشریعی‘ ظلی‘ بروزی یا نیا نبی نہیں آئے گا۔ آپ کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کری‘ وہ کافر‘ مرتد‘ زندیق اور واجب القتل ہے۔ قرآن مجید کی ایک سو سے زائدآیات ِمبارکہ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریباً دوسو دس احادیث ِمبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس بات پر ایمان ”عقیدہ ¿ ختم نبوت“ کہلاتا ہے۔ ختم نبوت اسلام کا متفقہ‘ اساسی اور اہم ترین بنیادی عقیدہ ہے۔ دین اسلام کی پوری عمارت اس عقیدے پر کھڑی ہے۔ یہ ایک ایسا حساس عقیدہ ہے کہ اگر اس میں شکوک و شبہات کا ذرا سا بھی رخنہ پیدا ہوجائے تو ایک مسلمان نہ صرف اپنی متاعِ ایمان کھو بیٹھتا ہے بلکہ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے بھی خارج ہوجاتا ہے۔ پوری امت ِمسلمہ کا اس امر پر اجماع ہے کہ سب سے اوّل نبی حضرت آدم علیہ السلام اور سب سے آخری حضرت محمد مصطفیٰ ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں جھوٹے مدعیانِ نبوت اور ان کے پیروکار ہمیشہ تاویلات اور جھوٹی باتوں کو بنیاد بناکر دینِ اسلام میں تبدیلی وتحریف کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ منکرینِ ختم نبوت اپنی شپرہ چشمی کو آفتاب‘کج فہمی کو دلیل‘ بکاین کو انگور‘ زہرکو امرت‘ ظلمت کو اجالا اور پیتل کو زرِخالص تسلیم کروانے پر مُصر رہے مگر امت ِمسلمہ نے دینِ اسلام میں ذرا سی بھی تبدیلی‘ تحریف یاکمی بیشی کو گوارا نہ کیا۔ بلکہ ہر قسم کے مشکل اور نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے دل وجان سے عقیدہ ¿ ختم نبوت کی حفاظت کی اور منکرینِ ختم نبوت کے خلاف بھرپور جہاد کیا۔ موجودہ دور میں منکرینِ ختم نبوت کا گروہ فتنہ ¿ قادیانیت کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس فتنے کا بانی آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی تھا جس نے انگریزوں کے اشارے پر ملت اسلامیہ کو پارہ پارہ کرنے کی ناپاک سازشیں کیں۔ مرزا قادیانی اور اس کے پیروکاروں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور شعائرِ اسلامی کی توہین بھی شروع کردی۔ اسلام اور اس کی مقدس شخصیات کے خلاف قادیانیوں کی گستاخیوں اور ہرزہ سرائیوں کو اکٹھا کیا جائے تو کئی دفتر تیار ہوسکتے ہیں۔ پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئرمارشل ظفرچوہدری نے جہازوں کی ایک ٹولی کی قیادت کرتے ہوئے 1973ءمیں قادیانی جلسہ میں اپنے ”خلیفہ“ مرزا ناصرکو سلامی دی تھی‘ اس موقع پر قادیانی خلیفہ نے اپنے پیروکاروں کو خوشخبری دی کہ ”پھل پک چکا ہی....جلد ہی ہماری جھولی میں گرنے والاہی“۔ قادیانیوں کے کفریہ عقائدکی بناءپر ملک کی منتخب جمہوری حکومت نے متفقہ طور پر 7 ستمبر 1974ءکو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور آئین پاکستان کی شق (2) 160 اور (3) 260 میں اس کا اندراج کردیا۔ جمہوری نظام میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ دنیا کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ حکومت نے فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصرکو پارلیمنٹ کے سامنے اپنا مو ¿قف پیش کرنے کا پورا پورا موقع دیا۔ یحییٰ بختیار کی جرح کے دوران مرزا ناصر احمد نے اپنے ان تمام مذہبی عقائدکو تسلیم کیا جس پر پوری امت ِ مسلمہ کو قادیانیوں سے نہ صرف شدید اختلاف ہے بلکہ وہ اسے اپنے مذہب میں مداخلت بھی سمجھتے ہیں‘ اور یہی وجہ ہے کہ قادیانیوں کے ان عقائد کی سرعام تبلیغ وتشہیرکی وجہ سے ملک ِ عزیز میں کئی بار لاءاینڈ آرڈرکی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قادیانی پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی حکومت‘ پارلیمنٹ یا کوئی اور ادارہ انہیں ان کے عقائد کی بناءپر غیر مسلم قرار نہیں دے سکتا بلکہ الٹا وہ مسلمانوںکوکافر اور خود کو مسلمان کہتے ہیں اور آئین میں دی گئی اپنی حیثیت تسلیم نہیں کرتے۔ قادیانی آئینی طور پر غیر مسلم ہونے کے باوجود بھی سرعام شعائر اسلامی کی بے حرمتی اور اپنے باطل مذہب کی تبلیغ وتشہیرکرتے رہے۔ چنانچہ اس سے روکنے کے لیے 26 اپریل 1984ءکو حکومت پاکستان نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس کی رو سے قادیانی اپنے مذہب کے لیے اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کرسکتے۔ اس سلسلے میں تعزیرات ِپاکستان میں دفعہ 298/B‘ میں 298/C کا اضافہ کیاگیا جس کی رو سے کوئی قادیانی خودکو مسلمان نہیں کہلواسکتا‘ نہ ہی اپنے مذہب کو بطور اسلام پیش کرسکتا ہے اور نہ ہی شعائر اسلامی کا استعمال کرسکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ 3 سال قید اور جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہوگا۔ قادیانیوں نے اس پابندی کو وفاقی شرعی عدالت‘ لاہورہائی کورٹ‘ کوئٹہ ہائی کورٹ وغیرہ میں چیلنج کیا جہاں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بالآخر قادیانیوں نے پوری تیاری کے ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائرکی کہ انہیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے اس کیس کی مفصل سماعت کی۔ دونوں طرف سے دلائل و براہین دیے گئے۔ اصل کتابوں سے متنازع ترین حوالہ جات پیش کیے گئے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے یہ جج صاحبان کسی دینی مدرسہ یا اسلامی دارالعلوم کے مفتی صاحبان نہیں تھے بلکہ انگریزی قانون پڑھے ہوئے تھے۔ ان کا کام آئین وقانون کے تحت انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے۔ فاضل جج صاحبان نے جب قادیانی عقائد پر نظر دوڑائی تو وہ لرزکر رہ گئے۔ فاضل جج صاحبان کا کہنا تھا کہ قادیانی اسلام کے نام پرلوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ کے تاریخی فیصلے ظہیرالدین بنام سرکار‘ (1993 SCMR 1718) کی رو سے کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلواسکتا اور نہ ہی اپنے مذہب کی تبلیغ کرسکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ تعزیرات ِپاکستان کی دفعہ 298-C کے تحت 3 سال قید کا مستوجب ہے۔ اس کے باوجود قادیانی آئین‘ قانون اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑاتے ہوئے خودکو مسلمان کہلواتی‘ اپنے مذہب کی تبلیغ کرتی‘ گستاخانہ لٹریچر تقسیم کرتی‘ شعائر اسلامی کا تمسخر اڑاتے اور اسلامی مقدس شخصیات و مقامات کی توہین کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قادیانیوں کی ان آئین شکن‘ خلاف ِقانون اور انتہائی اشتعال انگیز سرگرمیوں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرمانہ غفلت اور خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے بعض اوقات لاءاینڈ آرڈرکی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ خود سپریم کورٹ کے فل بینچ نے اپنے نافذالعمل فیصلے میں لکھا: ”ہر مسلمان کے لیے جس کا ایمان پختہ ہو‘ لازم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے بچوں‘ خاندان‘ والدین اوردنیا کی ہرمحبوب ترین شے سے بڑھ کر پیارکرے۔“ (صحیح بخاری“، ”کتاب الایمان“، ”باب حب الرسول من الایمان“) کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو مورد الزام ٹھیرا سکتا ہے اگر وہ ایسا دل آزار مواد جیسا کہ مرزا صاحب نے تخلیق کیا ہے سننی‘ پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی؟ اگر کسی قادیانی کو انتظامیہ کی طرف سے یا قانوناً شعائر اسلام کا علانیہ اظہارکرنے یا انہیں پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ اقدام اس کی شکل میں ایک اور ”رشدی“ (یعنی رسوائے زمانہ گستاخِ رسول ملعون سلمان رشدی جس نے شیطانی آیات نامی کتاب میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے حد توہین کی) تخلیق کرنے کے مترادف ہوگا۔ کیا اس صورت میں انتظامیہ اس کی جان‘ مال اور آزادی کے تحفظ کی ضمانت دے سکتی ہی؟ اور اگردے سکتی ہے تو کس قیمت پر؟ ردعمل یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی قادیانی سرعام کسی پلے کارڈ‘ بیج یا پوسٹر پرکلمہ کی نمائش کرتا ہے یا دیوار یا نمائشی دروازوں یا جھنڈیوں پر لکھتا ہے یا دوسرے شعائر اسلامی کا استعمال کرتا یا انہیں پڑھتا ہے تو یہ علانیہ رسول اکرم کے نام نامی کی بے حرمتی اور دوسرے انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کی توہین کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کا مرتبہ اونچا کرنے کے مترادف ہے جس سے مسلمانوں کا مشتعل ہونا اورطیش میں آنا ایک فطری بات ہی‘ اور یہ چیز نقص امن عامہ کا موجب بن سکتی ہی‘ جس کے نتیجے میں جان ومال کا نقصان ہوسکتا ہے۔“ ”ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ قادیانیوںکو اپنی شخصیات‘ مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب‘ القاب یا نام وضع کرنے میں کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخرکار ہندوﺅں‘ عیسائیوں‘ سکھوں اور دیگر برادریوں نے بھی تو اپنے بزرگوں کے لیے القاب وخطاب بنارکھے ہیں۔“ (ظہیرالدین بنام سرکار 1993 SCMR 1718)۔ افسوس ہے کہ قادیانی آئین میں دی گئی اپنی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں اورسپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اس صورت حال میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ قادیانیوں کو آئین اور قانون کا پابند بنائے تاکہ ملک بھر میں کہیں بھی لاءاینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا نہ ہو۔

جھوٹے مدعیان نبوت   عن  ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال لا تقوم الساعۃ حتٰی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول ...