شہدائے ختم نبوت ﷺ 1953

  




شہدائے ختم نبوت 1953ء کی یاد میں

مارچ کا مہینہ آتے ہی تحریک تحفظ ختم نبوت ۱۹۵۳ء کی رُوح فرسا،یادیں قلب و جگر کے زخم تازہ کر دیتی ہیں۔ اِسی تحریک کے دوران پاکستان کا پہلا مارشل لاء نافذ کر کے اُسے ختم رسالت کے پروانوں کی مقدس جانوں پہ آزمایا گیااوردس ہزاربے گناہ ،معصوم و نہتے بچے، جوان اور بوڑھے شہری ناموسِ رسالت کے تحفظ کی پاداش میں خاک و خون میں تڑپا دیئے گئے۔
کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اُن پاکباز شہیدوں کا جرم کیا تھا !کیا وہ ریاست کے اندر ریاست کا قیام چاہتے تھے؟ کیا وہ ریاست کے باغی تھے؟ کیا وہ سیاست و کرسی کے خواہش مند تھے؟ ہر گز، ہرگز نہیں،بلکہ وہ توتحریکِ مقدس ،تحفظ ختم نبوت کے ایثار پیشہ کارکن تھے جو صرف ان تین مطالبات کی منظوری کے لئے    چلائی گئی تھی

                   ۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔
                 ۔قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے فارغ کیا جائے۔
    ۔قادیانی وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ خان کو بر طرف کیا جائے۔

ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیجیے کہ ان مطالبات میں نہ تو طلبِ اقتدار کی ہوس جھلکتی ہے اور نہ ہی مال و زر کی خواہش موجودہے، بلکہ اگر کوئی تمنا یا آرزو ہے تویہی ایک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ نبوت پرڈاکہ زنی کرنے والے منکرینِ ختم نبوت کو لگام دی جائے اور انہیں آئینی ترمیم کے      ذریعے غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائےبس یہی اِن پاک نفسوں کی روح کی آواز تھی جو سیالکوٹ، وزیر آباد، ملتان، گوجرانوالہ اور لاہور سے کراچی تک’’ ختم نبوت زندہ باد ‘‘کے نعروں کی شکل میں گونج رہی تھی۔ شیدایانِ ختم نبوت کی اِس صدائے رستا خیز کو دَبانے کے لئے وقت کے حکمرانوں نے فوج کے کندھے پر بندوق رکھی اور پھر گولیوں کی تڑتڑ سے لاہور کا مال روڈ اور مسجد وزیر خان کے قرب و جوار گونجتے رہے۔ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا نے آرڈر جاری کر رکھا تھا کہ مجھے یہ نہ بتایا جائے کہ کوئی ہنگامہ ختم کر دیا گیا ہے بلکہ مجھے یہ بتایا جائے کہ وہاں کتنی لاشیں گری ہیں؟

تحریک کا آغاز یکدم نہیں ہوا ۔پس منظر ملاحظہ کیجیے کہ:
جب پاکستان بن گیا تو مجلس احرار اسلام کے قائدین نے ملکی حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعدجنوری۱۹۴۹ء میں سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا اور اپنی جماعتی سرگرمیوں کو اِسلام کی تبلیغ، اصلاح معاشرہ اور تحفظ ختم نبوت کے اہداف تک محدود کر لیا اور سیاسی میدان کومسلم لیگ کے لئے کھلا چھوڑ دیا۔ مجلس احرار اسلام کے سیاسی محاذ کو چھوڑ دینے پر قادیانیوں کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے اِس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے پاکستان کے اقتدار پرقبضہ کرنے کے دیرینہ منصوبے زیرِعمل لانے کا فیصلہ کیا۔

مرزا بشیر الدین ۱۹۴۸ء میں بلوچستان کو قادیانی صوبہ بنانے کا اعلان کر چکا تھا اور اُس کی قیادت میں قادیانی جماعت نے نہ صرف اندرون ملک اپنی سازشوں کے جال پھیلا رکھے تھے، بلکہ قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کے حساس منصب کی بدولت بیرون ملک پاکستانی سفارت خانے حمیدنظامی مرحوم کے بقول قادیانیوں کی تبلیغ کے مراکز بن چکے تھے۔ اِس لیے اب قادیانی پاکستان پر اَپنی حکومت کے خواب دیکھنے لگے تھے۔

ان نازک حالات میں مجلس احرار اسلام کے دُور اَندیش رہنماؤں نے تمام مکتب فکرکو ۳ جون۱۹۵۲ء کو کُل جماعتی مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر متحد کیااورباقاعدہ تحریک شروع سے پہلے اپنے مذکورہ بالا تین مطالبات مرتب کیے۔ جنہیں منوانے اور حکمرانوں کو قادیانوں کی تمام سازشوں سے ثبوت اور دلائل کے ساتھ آگاہ کرنے کے لئے اُن سے بار ہا مذاکرات کئے ،لیکن حکمران طاقت کے نشے اور قادیانیت نوازی کے عشق میں اِس قدر مدہوش تھے کہ انہوں نے مذاکرات کومجلس عمل کی کمزوری سمجھا۔ مجلس عمل کا قیام عمل میں لانے کی وجہ یہ تھی کہ حالات کی نزاکت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ حکمرانوں کی بے حسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے مئی ۱۹۵۲ء کو کراچی میں قادیانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسلام کو ایک سوکھے ہوئے درخت اور قادیانیت کوخدا کے لگائے ہوئے پودے سے تشبیہ دے کر برسرِ عام اسلام کی توہین کا ارتکاب کر ڈالا تھا۔ ظفر اللہ خان کی اس ناپاک جسارت نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور عوامی جذبات کا لاوا اُبلنے لگا،مگر مجلس عمل کے مطالبات کوحکومتی ایوان نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔

۲۲؍جنوری ۱۹۵۳ء کو مجلس عمل نے اتمام حجت کے لئے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین سے کراچی میں مذاکرات کیے۔ جس پر تہجدگزارخواجہ ناظم الدین نے جواب دیا کہ: اگر میں آپ کے مطالبات مان لوں تو امریکہ ہمیں ایک دانہ گندم نہیں دے گا۔اِس کورے جواب کے باوجودمجلس عمل نے اپنے سہ نکاتی دینی مطالبات کی منظوری کے لئے حکومت کو مزید ایک ماہ کی مہلت دے دی۔

مجلس کی حکومت کو دی گئی ایک ماہ کی مہلت تیزی سے ختم ہوتی جا رہی تھی، لیکن حکومت ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے کوئی بھی قدم اٹھانے پر آمادہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ حضرت امیر شریعت مولانا سیّد عطا ء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی ہدایت پرمجلس عمل کے ایک وفد نے خواجہ ناظم الدین سے یہ معلوم کرنے کے لئے مزیدایک دفعہ پھر ملاقات کی کہ وہ مجلس عمل کے مطالبات کے متعلق کیا رویہ اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ جس کے جواب میں وزیر اعظم نے حسب سابق واضح کیا کہ مجلس عمل کے مطالبات تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔
۲۲فروری کو الٹی میٹم کی مدت ختم ہوگئی ۔جس پر۲۴،۲۵ فروری۱۹۵۳ء کی درمیانی شب کومجلس عمل کے زیر اِہتمام کراچی میں عظیم الشان تحفظ ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی ۔جس میں تمام مرکزیقائدین نے خطاب کیا۔ کانفرنس کی منظور کردہ متفقہ قرار داد کے مطابق پُرامن تحریک تحفظ ختمِ نبوت کا آغاز کرنے کا اعلان کر دیا گیا، مگر ۲۶، ۲۷ فروری ۱۹۵۳ء کی درمیانی شب کو دفتر مجلس احرار اسلام کراچی پر چھاپہ مار کر مجلس عمل کے مرکزی رہنماؤں حضرت امیر شریعت مولاناسیدعطا ء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ، مولاناسیّد ابوالحسنات قادری رحمہ اللہ ،صاحبزادہ سید فیض الحسن رحمہ اللہ ، تاج الدین انصاری رحمہ اللہ اور مولاناحامد بدایونی مرحوم سمیت متعدد رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ۔
پنجاب میں حکومت پنجاب کی ہدایت پربڑی تعداد میں گرفتاریوں کا سلسلہ جاری تھا ،لیکن جب کراچی میں مرکزی رہنماؤں کی گرفتاری کی خبر پنجاب میں پہنچی تو لوگوں کے جذبات مشتعل ہو گئے اور احتجاجی جلسوں، جلوسوں اور ہڑتالوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔مجلس عمل لاہورنے یہ طے کیاتھاکہ روزانہ پچیس رضا کار گورنمنٹ ہاؤس کے سامنے جا کر رضاکارانہ گرفتاری دیں گے، لیکن جب لاکھوں افراد کے جلوس کے ساتھ یہ رضا کار گورنمنٹ ہاؤس کی جانب بڑھتے تو انہیں راستے میں ہی روک کر گرفتار کر لیا جاتاتھا۔ جس پر مجلس عمل کے رہنماؤں نے نئی حکمت عملی کے تحت تحریک کا ہیڈ کوارٹر اَحرار پارک( بیرون دہلی دروازہ،لاہور) سے مسجد وزیر خان منتقل کر لیا،مگر وہاں جانے والے رضا کاروں پرپولیس نے شدید لاٹھی چارج کیا۔ جس سے عوام کی بڑی تعداد زخمی ہوئی اورلاتعدادگرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔
۳مارچ۱۹۵۳ء کو فوج آپہنچی اور لاہور شہر عملاً کرفیو کی زد میں آ گیا۔کرفیو کے باوجود جلوس نکل رہے تھے اور ختم نبوت زندہ باد کہنے کے جرم میں عاشقانِ ختم نبوت پر گولیاں اور ڈنڈے برس رہے تھے۔ گولیوں کا مینہ برستا رہا اور ساقئ کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے سینوں پر گولیاں کھا، کھا کرتحفظِ ناموسِ رسالت کے لئے جانیں قربان کرتے رہے۔

۵ فروری ۱۹۵۳ء کو گوالمنڈی لاہور میں پولیس کے دو اَفسروں نے مسلسل فائرنگ کر کے بے حساب افراد کو شہید کر دیا۔ جس سے عوام کے جذبات مزید بھڑکے اور سول نافرمانی بغاوت میں بدلتے ہوئے صاف دکھائی دینے لگی۔
لاہور شہر میں شہدائے ختم نبوت کے پاک جسموں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔جنہیں ٹرکوں میں ڈال کر چھانگا مانگا کے جنگل میں اجتماعی قبر کھود کر اُس میں ڈال دیا جاتا اور اُن کے اوپر تیل چھڑک کرآگ لگا دی جاتی تھی۔ تاکہ شہیدانِ عشقِ رسالت کا نام و نشاں مٹ جائے ،لیکن اُن بد بخت ہلاکو خانوں اور چنگیز خانوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ جاں نثارانِ رسول تو مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ انہیں کیا خبر تھی کہ اِن بے گناہوں کا مقدس خون کتنی جلدی رنگ لائے گااور سنگ دل قاتل بے نام و نشاں ہو کرخاک میں مل جائیں گے۔
لاہور کی تاریخ کا یہ نازک ترین دور تھا۔ جب پابندیاں، تعزیریں، ظلم و تشدد اور گولیاں بھی احرار رضا کاروں اورعقیدۂ ختم نبوت کے مجاہدوں کے متلاطم جذبات کے آگے بند باندھنے میں مکمل طور پرناکام ہو رہی تھیں۔
۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو ڈائرِ ثانی جنرل اعظم خان نے لاہور میں مارشل لاء نافذ کر کے ظلم وتشددکی تاریخ کاتاریک باب رقم کیااور قاتلِ اعظم کا لقب پایا۔فوج اور پولیس کے ہاتھوں تحریک تحفظ ختم نبوت کے دوران دس ہزار سے زائد فرزندانِ اسلام، جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس و منصب کی حفاظت کے مطالبہ کے جرم میں اپنے ہی خون میں نہلا دئیے گئے اور ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو جیلوں میں ٹھونس کر پولیس کے درندوں کے آگے ڈال دیا گیا۔
اگرچہ تحریکِ مقدس ،تحریک تحفظ ختم نبوت ریاستی ظلم و جبر کے ہتھکنڈوں سے کچل دی گئی، لیکن آنے والے دور نے شہدائے ختم نبوت کی صداقت،بے غرضی، اخلاص اور جرأتِ بے پناہ کوسلام پیش کیا۔اُن کا خونِ بے گناہی رنگ لایا اور جن تین بنیادی مطالبات کی منظوری کے لئے اُن پاک نفسوں نے اپنی ناتواں جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا ۔ایک ایک کر کے وہ تینوں مطالبات کافی حد تک پورے ہوتے گئے۔

اِسی تحریک کے نتیجے میں سر ظفر اللہ قادیانی رسوا ہوا ،اور عمر بھر وہ اقتدار کو ترستے ہوئے ایڑیاں رگڑتے ہوئے مرا۔ قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔اگرچہ کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کی مکمل برطرفی تاحال عمل میں نہیں آئی ،لیکن عملاً ان کی وہ پہلی حاکمانہ حیثیت باقی نہیں رہی ہے۔

اگر تحریک تحفظ ختم نبوت کے مطالبات مان لئے جاتے تو سر ظفر اللہ خان قادیانی کی جانبدارانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان امریکہ کی غلامی میں نہ آتا۔ سیٹو اور سینٹو جیسے رسوائے زمانہ معاہدوں پر دستخط کر کے پاکستان کی خود مختاری کو داؤ پرنہ لگایا جاتا۔

   ء ۱۹۶۵  کی پاک بھارت جنگ میں قادیانیوں کی فرقان بٹالین   پاکستانی فوج کو بے دست وپانہ کرسکتی۔

قادیانی جرنیل جنرل اخترملک پاک آرمی کی ہزیمت کاسبب نہ بنتا۔

پلاننگ کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئر مین ایم ایم احمدقادیانی کی ملک دشمن سازشیں کامیاب نہ ہوسکتیں اورملک کا مشرقی حصہ علیحدہ ہوکربنگلہ دیش نہ بنتا۔

نوبل انعام یافتہ قادیانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان کے ایٹمی راز امریکہ اوربرطانیہ کے حضورپیش کرنے کی جرأت نہ کرسکتا

اورکوئی امریکی غنڈہ ریمنڈڈیوس پاکستان میں ہی پاکستان کے شہریوں کے قتل کی جرأت نہ کرسکتا۔

افسوس ،صدافسوس! کہ حاکمانِ وقت نے عارضی قوت واِقتدارکے نشہ میں بدمست ہو کرپاکستان کے اِن جاں نثارو وفادار شہدائے ختم نبوت کی صدائے حق پر کان نہ دھرے ،بلکہ اُن کوآہن و بارود میں بھسم کر ڈالا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وطن عزیز غیروں کی غلامی میں چلا گیااورریاست کے اقتدار پر وہ لوگ قابض ہوتے چلے گئے ۔جن کا مذہب دولت و حکومت، جن کا مسلک بے حمیتی وبے وفائی اور جن کاآبائی پیشہ وشعار فرنگ پرستی اور ناموس رسالت کے دشمنوں کے ساتھ جنم جنم کی دوستی رہی ہے ۔یہ انجامِ بد ہے، شہیدانِ ختم رسالت پر ظلم و درندگی اور اُن کی صدا پر کان نہ دھرنے کا !کہ جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔
رہے وہ خلد آشیاں،ناموسِ رسالت پر قربان ہونے والے شہداء کہ ہمارے لیے اُن کا تذکرہ باعثِ اجر اوراُن کی راہوں کاچلن ہمارانشانِ راہ ہے اوراللہ کے حضوراُن کا مقام و مرتبہ ہمارے وہم و گمان سے بھی بلند ہے۔
بقول
جانشین امیرشریعت حضرت مولانا سید ابو ذر بخاری رحمہ اللہ :

جھوٹے مدعیان نبوت   عن  ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال لا تقوم الساعۃ حتٰی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول ...