ماخوذ از : قادیانیت اور تحریک تحفظ ختم نبوت
شائع کردہ : ورلڈ اسلامک مشن ہالینڈ
مال و دولت، اقتدار و حکومت،عزت و وجاہت اور ناموری و شہرت کی طلب و چاہت انسانی فطرت میں داخل ہے۔ ان چیزوں کے حصول کے لیے انسان وہ سب کام کر ڈالتا ہے جس کی اجازت نہ عقل دیتی ہے اور نہ دین۔ اس مقصد کے لیے جان و مال عزت و آبرو حتیٰ کہ ایمان بھی داؤ پر لگا دیا جاتا ہے، جس کی گواہی میں حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حال کی تاریخ میں بے شمار واقعات آسانی سے مل جائیں گے۔
الوہیت کے بعد نبوت سب سے بڑا منصب ہے، اس منصب کے لیے سب سے اشرف مخلوق انسانوں میں سے ایسے مومن مرد کا انتخاب خداند قدوس خود کرتا ہے جو تمام انسانی خصائل حمیدہ کا جامع ہو، نبی اپنے دور کا انسانِ کامل ہی نہیں بلکہ مومن کامل اور خدائی انتخاب ہوتا ہے۔ اس میں کسب کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا کہ کوئی مرد یا عورت اپنے اخلاق و اعمال اور غیر معمولی صلاحیتوں اور کوششوں سے اسے حاصل کرسکے۔
نبوت کی اس ناقابل انکار حقیقت کے باوجود بعض لالچی و نفس پرست اور مکار لوگ اپنی عقل و ذہانت، علم و دانائی اور اقتدار و حکومت کے بل بوتے پر اس خدائی منصب پر از خود فائز ہونے کی ناپاک و ناکام جرأت سے باز نہیں رہے اور جھوٹا دعوائے نبوت کر بیٹھے۔ مرد تو مرد عورتیں بھی پیچھے نہیں رہیں۔
دورِ رسالت سے اب تک دعوائے نبوت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے، اخبارات اور رسالوں میں خبر چھپی کہ ندوہ کے پڑھے ہوئے مسیح الدین ندوی نامی ایک شخص نے حیدرآباد دکن میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور وہاں مخالفت ہوئی تو ناگپور میں آکر پناہ لی اور گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوا۔
تاریخ اسلام میں اس طرح کے بہت سے افراد ملیں گے جنہوں نے دعوائے نبوت کیا۔ ان میں بعض بہت مشہور ہوئے اور بعض گمنام ہوگئے۔ بذریعہ وحی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم تھا کہ بعض جھوٹے نبی پیدا ہوں گے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی ان لوگوں سے امت کو آگاہ فرمادیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ''انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین لا نبی بعدی'' (مسند احمد ج ٥/ ص ٢٧٨) کہ بیشک میری امت میں تیس کذاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے کو نبی کہے گا جبکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ دورِ رسالت کے مشہور مدعیانِ نبوت میں مسیلمہ کذاب و اسود عنسی اور سجاح بنت حارث گزرے ہیں۔
اسود عنسی
اس کا اصل نام عیلہ تھا۔ عنس بن قد حج کی نسبت کی وجہ سے عنسی مشہور ہوا۔ یہ ایک چرب زبان کاہن تھا۔ اس نے اپنی چرب زبانی اور کہانت کے زور پر بہت سے ضعیف الاعتقاد لوگوں کو اپنا گرویدہ اور پیروکار بنالیا۔ جب ان لوگوں پر اس نے پورا قابو پالیا تو نبوت کا دعویٰ کردیا اور کہنے لگا کہ مجھ پر خدا کی طرف سے وحی آتی ہے۔ جو فرشتہ لاتا ہے وہ گدھے پر سوار ہوتا ہے۔
اسی وجہ سے اسے ''ذو الحمار'' یعنی گدھے والا کہا جاتا ہے۔ اس کی پیشگوئیوں سے متاثر ہوکر لوگوں نے بلا لیت و لعل اسے نبی مان لیا۔
سرکوبی
اس نے اپنے پیروکاروں پر مشتمل لشکر تیار کرکے یمن کے دارالسلطنت صنعاء پر دھاوا بول دیا۔ یہ دورِ رسالت کی بات ہے۔ اس وقت صنعاء پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ شہر بن باذان حاکم تھے جو مقابلے میں شہید ہوگئے اور اسود صنعاء کا حاکم بن گیا اور ان کی بیوہ مرزبانہ کو جبراً اپنے عقد میں لے لیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جو یمن کے دیگر علاقوں کے حاکم تھے، اس جابر و ملعون مدعی نبوت کی سرکوبی کے لیے متعین فرمایا۔
اس نے اپنے پیروکاروں پر مشتمل لشکر تیار کرکے یمن کے دارالسلطنت صنعاء پر دھاوا بول دیا۔ یہ دورِ رسالت کی بات ہے۔ اس وقت صنعاء پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ شہر بن باذان حاکم تھے جو مقابلے میں شہید ہوگئے اور اسود صنعاء کا حاکم بن گیا اور ان کی بیوہ مرزبانہ کو جبراً اپنے عقد میں لے لیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جو یمن کے دیگر علاقوں کے حاکم تھے، اس جابر و ملعون مدعی نبوت کی سرکوبی کے لیے متعین فرمایا۔
ان دونوں حضرات نے مرزبانہ سے رابطہ کرکے اسود عنسی کے قتل کا منصوبہ ترتیب دیا۔ ایک رات مرزبانہ نے اسود کو کافی مقدار میں خالص شراب پلا کر مدہوش کردیا اور مرزبانہ کے چچازاد بھائی حضرت فیروز دیلمی اپنے ساتھیوں کی مدد سے مکان میں نقب لگا کر اندر داخل ہوگئے اور ملعون کا کام تمام کردیا۔ پہرے داروںنے ملعون کی خوفناک آواز سنی تو گھبرا کر دوڑے لیکن مرزبانہ نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے انہیں روک دیا کہ خاموش رہو تمہارے نبی پر وحی اتر رہی ہے۔ چنانچہ وہ خاموشی سے چلے گئے۔
جب اذانِ فجر میں موذن نے ایک شہادت کا اضافہ کرکے کہا ''اشھد ان عیلۃ کذاب'' تو سب کو قتل کی اطلاع ہوگئی اور اس کے پیروکار میں سے بہت سے مارے گئے اور بہت سے مشرف باسلام ہوگئے۔
فوراً یہ خوشخبری مدینہ بھیجی گئی مگر جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوچکا تھا۔ رحلت سے ایک رات پہلے بذریعہ وحی الٰہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمادیا تھا کہ آج رات اسود عنسی مارا گیا ہے اور ایک مردِ مبارک نے اسے مارا ہے، اس کا نام فیروز ہے۔ پھر فرمایا ''فاز فیروز'' کہ فیروز کامیاب ہوگیا۔ اس طرح یہ ناپاک مدعی نبوت انجام کو پہنچا۔
مسیلمہ کذاب
اس کا نام مسیلمہ بن ثمالہ تھا۔ اختلافِ روایت سن نو ہجری یا دس ہجری میں نجد کے وفد بنو حنیفہ کے ساتھ یہ بھی مدینہ آیا۔ اس کے سوا تمام ارکان وفد نے حاضر دربارِ رسالت ہوکر اسلام قبول کرلیا مگر یہ محروم رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیام گاہ پر جاکر فرمایا ''اگر تو میرے بعد زندہ رہا تو حق تعالیٰ تجھے ہلاک فرمائے گا''
ایک دوسری روایت کے مطابق یہ بھی مسلمان ہوگیا تھا مگر نجد جاکر مرتد ہوگیا اور نبوت کا دعویٰ بھی کردیا۔ شراب و زنا کو حلال کیا، نماز کی فرضیت ساقط کردی۔ یہ ایک بوڑھا اور انتہائی مکار انسان تھا۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ایک خط میں لکھا کہ ''زمین آدھی ہماری ہے اور آدھی قریش کی، مگر قریش زیادتی کرتے ہیں'' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً اسے لکھا ''اللہ کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے جھوٹے مسیلمہ کی طرف۔ اما بعد! کُل روئے زمین اللہ کی ہے، وہ جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے، اور بھلی عاقبت پرہیزگاروں کے لیے ہے''
سرکوبی
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی زندہ رہا۔ خلیفہ اوّل حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام کے اجماع اورمشورے سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے چوبیس ہزار کے لشکر کی مدد سے اس کی سرکوبی کے لیے جہاد کیا۔ جھوٹا مسیلمہ چالیس ہزار کے لشکر جرار کے ساتھ مقابلے پر آیا مگر خدائی مدد کے آگے ناکام ہوا اور جہنم رسید ہوا۔ اس عظیم جہاد میں بارہ سو صحابہ و تابعین نے اٹھائیس ہزار منکرین ختم نبوت کو جہنم رسید کرکے جام شہادت نوش کیا۔
سجاح بنت حارث
یہ ایک عورت تھی جس نے بنی تغلب میں اپنی نبوت کا دعویٰ کیا۔ چند ہوس پرست اس کے ہمنوا ہوگئے۔ یہ مسیلمہ ہی کے دور کی ہے۔ جھوٹے نبی نے جھوٹی مدعیہ نبوت کی مقبولیت سے خائف ہوکر مبارکباد اور تحفے بھیجے اور ملاقات کرکے اس سے شادی بھی کرلی۔ مہر میں سجاح کے پیروکاروں سے صبح و عشاء کی نماز ساقط کردی گئی۔ اتنے میں حضرت خالد کا لشکر آپہنچا اور ان پر غالب آیا۔ ایک روایت کے مطابق سجاح اور اس کے پیروکاروں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔
طلیحہ
عہدنبوت کے بعد اس نے دعوائے نبوت کیا۔ یہ قبیلہ بنی اسد سے تھا۔ اس کی سرکوبی کا فریضہ بھی دورِ صدیقی میں حضرت خالد بن ولید کے ذریعے انجام پایا۔ قبیلہ فزار کے لوگ اس کے پیروکار تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی کمان میں اس کی سرکوبی کے لیے اسلامی لشکر بھیجا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بنی طے میں پہنچے اور کوہِ سلمی اور کوہِ جاوا کے درمیان یہ لشکر ٹھہر گیا۔ آس پاس کے مسلمان بھی شریک لشکر ہوگئے۔ سب نے مل کر طلیحہ اور اس کے مکار حواری علینیہ بن حصین فزاری اور دیگر فزاریوں سے جنگ کی۔ فزاریوں کو شکست کا منہہ دیکھنا پڑا اور وہ اپنے سردار علینیہ سمیت اپنے جھوٹے نبی طلیحہ کو بے یار و مددگار چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
انجام
طلیحہ نے پہلے تو فرار کی راہ اختیار کی لیکن بعد میں امان لے کر حضرت خالد بن ولید کے پاس حاضر ہوگیا اور مسلمان ہوگیا۔ حتیٰ کہ جہادوں میں حصہ لیا۔ ایران کے محاذوں پر حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جہاد کیا اور دورِ فاروقی میں حضرت ساریہ کے ساتھ جنگ نہاوند میں شرکت کی اور شہادت پاکر داخل جنت ہوا اور انجام بخیر ہوا۔
مختار بن عبید ثقفی
اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا جس کی سرکوبی حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔ زمانہ خلافت راشدہ کے بعد بھی کچھ طالع آزماؤں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ارتداد و دعوائے نبوت کی وجہ سے انہیں مسلم حکمرانوں اور اس عہد کے علماء و مشائخ نے انہیں خارج از اسلام قرار دینے کے ساتھ ساتھ گرفتار کرکے سزائے موت دی۔ حتیٰ کہ بعض عرصے تک عبرت کے لیے سولی پر لٹکا کر رکھے گئے۔
عبد الملک بن مروان کے زمانے میں حارث نام کے ایک شخص نے دعوائے نبوت کیا اور اپنے شرعی اور منطقی انجام کو پہنچا۔
ہارون رشید کے دور میں بھی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ میں نوح علیہ السلام ہوں۔ کیونکہ (اصلی) نوح علیہ السلام کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی جو ایک ہزار سے پچاس کم تھی جس کے پورا کرنے کے لیے اب اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اور اپنے دعویٰ پر قرآن مجید سے دلیل دی کہ ''الف سنۃ الا خمسین عاما''' فرمایا گیا ہے، یعنی نوح علیہ السلام دنیا میں پچاس سال کم ایک ہزار سال زندہ رہے۔
اسے بھی اس دور کے علمائے سلف کے اتباع میں مرتد قرار دے کر قتل کا حکم دیا اور اسے بھی سولی دی گئی (کتاب المحاسن و المساوی، جلد اوّل، صفحہ ٦٤/ از امام بیہقی)
سبحان اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDelete