26.8.11

سات ستمبر، قادینیوں کو کافر قرار دینے کا قانون منظور ھونے کادن



سات ستمبر، قادینیوں کو کافر قرار دینے کا قانون منظور ھونے کادن

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بلاشبہ چودھویں صدی کا سب سے بدترین اور غلیظ فتنہ ،فتنئہ قادیانیت تھا، چھونکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے برطانوی استعمار اور انگریز کی چھتری کے سائے میں دعوٰی نبوت کیا تھا ، اسلئے وہ اور اسکے ماننے والے مست ہاتھی کی طرح کسی کو خاطر میں لانے کے روادار نہ تھے۔


یہ انکی غلط فہمی تھی کہ وہ جو کہیں گے یا کریں گے ، انکی زبان ہا ہاتھ روکنے کی کسی میں جراءت نہیں ھوگی، چنانچہ قادیانیت کی تاریخ اٹھا کر دیکھئے ! تو مرزا قادیانی کے دعوٰی نبوت سے لے کر اسکی موت اور اسکے بعد حکیم نورالدین اور مرزا بشیر الدین محمود کے دور تک وہ کسی وائسرائے سے کم نظر نہیں آتے ، ان کے تحکم وتعلی آمیز دعوؤں سے ایسا لگتا ھے کہ وہ مسلمانوں کو ناکوں چنے چبوائیں گے۔


ان کی اس فرعونیت کا کرشمہ تھا کہ 1952 میں مرزا بشیر الدین محمود نے اعلان کیا کہ ہم پورے پاکستان کو نہیں تو کم از کم صوبہ بلوچستان کو قادیانی اسٹیٹ بنا کر رہیں گے۔


چنانچہ جب مرزا بشیر الدین نے یہ راگ الاپا تو مجلس عمل کے مرکزی رہنماؤں حضرت امیر شریعت مولاناسیدعطا ء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ، مولاناسیّد ابوالحسنات قادری رحمہ اللہ ،صاحبزادہ سید فیض الحسن رحمہ اللہ ، تاج الدین انصاری رحمہ اللہ اور مولاناحامد بدایونی
جانثاران ختم نبوت نے سر پر کفن باندھ کر غداران ختم نبوت و پاکستان کے خلاف میدان سنبھال لیا اور اعلان کیا کہ ہمارے جیتے جی قادیانیت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ھوگا ۔



دوسری جانب قادیانی سورما اپنے آقاؤں کی تائید و حمایت سے جارحیت پر اتر آئے، حکومت پاکستان اور وقت کے حکمران خواجہ ناظم الدین نے کھل کر قادیانیوں کی سرپرستی اور مسلمانوں کی مخالفر کی، 1953 میں مسلمانوں کی مبنی برحق تحریک کو دبانے کے لئے حکومت کے مظالم کی انتہا کردی، صرف لاھور میں دس ھزار مخلصین نے جام شہادت نوش کیا ،(سبحان اللہ) ۔۔اگرچہ وقتی طور پر یہ تحریک دب گئی ، مگر مسلمانوں کے پاک اور پاکیزہ لہو کے انتقام نے ان تمام سورماؤں کے اقتدار کا دھڑن تختہ کردیا اور ایسے ظالم ایک ایک کر کے اپنے انجام کو پہنچ گئے۔


اس تحریک کے وقتی طور پر دب جانے سے قادیانیوں کے دماغ خراب ھوگئے اور انہوں نے 1974 میں ربوہ اسٹیشن پر نشتر کالج کے طلبہ کی بوگی پر حملہ کر کے نہتے اور معصوم طلبہ کو" ختم نبوت زندہ باد " کے نعرے کا "مزہ چکھانے" کی غرض سے جب ان کو لہو لہان کیا تو قدرت نے ان کے غرور کو خاک میں ملانے اور مسلمانوں کی 90 سالہ جدوجہد کو قامیابی سے ہمکنار کرنے کا فیصلہ فرمالیا، یوں پورے ملک میں قادیانیوں کے خلاف بے زاری اور نفرت کی فضاء پیدہ ھوگئی اور ملک بھر سے یہ مطالبہ ھونے لگا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے، ان کو کلیدی عہدوں سے برطرف کیا جائے اور ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں کا تدارک کیا جائے۔


چنانچہ یہ ہر مسلمان کی آواز اور مطالبہ تھا ، دوسری طرف قادیانی 1971 کے انتخابات میں بھٹو حکومت کے حلیف تھے، بلاشبہ یہ جہاں مسلمانوں کے لئے مشکل کی گھڑی تھی وہاں بھٹو حکومت کے لئے دہرا عذاب تھا، ایک طرف پوری قوم کا مطالبہ اور آواز تھی اور دوسری جانب اس کی حلیف جماعت کا معاملہ تھا ۔

اپنے طور پر بھٹو نے بھی خواجہ ناظم الدین کی طرح اس تحریک کو دبانے کی بھرپور کوشش کی ، مگر چونکہ آسمان پر قادیانیت کی ذلت کا فیصلہ ھوچکا تھا اور تقدیر کا قلم چل چکا تھا ، اس لئے بھٹو حکومت کی کوئی تدبیر کارگر نہ ھوئی تو مجبوراً بھٹو صاحب نے قومی اسمبلی کو عدالت کا درجہ دے کر اس مسئلے کا فیصلہ اسمبلی کے حوالے کردیا۔

ان کا خیال تھا کہ اسمبلی میں زیادہ تر لوگ اس کے ہم خیال ہیں، اس لئے قادیانیوں کے خلاف فیصلہ نہیں ھوگا، مگر بھٹو صاحب کا یہ خواب شرمندہ نہ ھوسکا اور مسلسل 13 دن جرح کے بعد 7 ستمبر 1974 کو متفقہ طور پر طے پایا کہ قادیانیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، چنانچہ قانون میں ترمیم کرکے قرار دیا گیا کہ " ہر گاہ یہ قرین مصلحت ہے کہ بعد ازیں درج ذیل اغراض کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں مزید ترمیم کی جائے،"


لہٰذہ بزریعہ ہٰزہ حسب زیل قانون وضع کیا جاتا ھے:


**مختصر عنوان اور آغاذ نفاذ


1۔۔۔یہ ایکٹ آئین (ترمیم دوم) ایکٹ 1974 کہلائے گا،

2 ۔۔۔ یہ فی الفور نافذ العمل ھوگا،

**آئین کی دفعہ 106 میں ترمیم :


اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں ، جسے بعد ازیں آئین کہا جائے گا۔ دفعہ 106 کی شق (3) میں لفظ فرقوں کے بعد الفاظ اور قوسین اور قادیانی جماعت یا لاھوری جماعت کے اشخاص (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) درج کئے جائیں گے۔



** آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم :


آئین کی دفعہ 260 میں شق (2) کے بعد حسب زیل نئی شق درج کی جائے گی نعنی (3) جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو آخری نبی و رسول ہیں ، کے خاتم النبین ھونے پر قطعی اور غیر مشروط ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ھونے کا دعوٰی کرتا ھے یا ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ھے ۔ وہ آئین یا قانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ھے ۔"


بلاشبہ سات ستمبر کا دن جہاں شہدائے ختم نبوت اور جاں نثاران ختم نبوت کی قربانیوں کی یاد دلاتا ھے ، وہاں مسلمانوں کی 90 سالہ جدو جہد کی تاریخ ساز کامیابی کی سرخروی کا دن بھی ہے، اسی طرح سات ستمبر دراصل قادیانیت کی 90 سالہ ظلم و ستم کی سیا رات کے خاتمہ کی روشن صبح ھے، جس پر جتنی بھی خوشی اور مسرت کا اظہار کیا جائے کم ھے ۔


اسکے علاوہ ہماری وہ نسلیں جو 1953 ،1974، 1984 کے وقت تھیں ، اب قریباً عملی طور پر دست کش ہیں ، لہٰذہ ہمارہ فرض ھے کہ ہم اپنی نسلوں اور خصوصاً نوجوانوں کو مسئلہ قادیانیت ، قادیانی مظالم اور مسلمانوں کی جدوجہد سے آگاہ کریں اور بتلائیں کہ ان آستین کے سانپوں سے ھوشیار رہیں ، کہیں ایسا نہ ھو وہ تمہیں اور تمہاری نسلوں کو ڈس لیں۔


فتنہ انکار ختم نبوت کو کفرو ارتداد قرار دینے اور اُس کے خلاف سب سے پہلے علم جہاد بلند کرنے کا اعزاز جانشین رسول خلیفہ اوّل سیّدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا اور اُن کے بعد یہ اعزاز اُنہی کی اولاد امجاد میں علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو نصیب ہوا۔







7 ستمبر 1974ءکو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو اُن کے کفریہ عقائد کی بناءپر غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور یوں نوّے سالہ فتنہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔


چنانچہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قادیانیوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں اور ان کے اسلام کی خلاف ہرزہ سرائیوں،مضحکہ خیزیوں اور کفریہ عقائد و عزائم کا بھر پور محاصرہ کیا جائے اور ان کیلئے راہ فرار کے تمام دروازے بند کردیئے جائیں اور قادیانیت کی حقیقی گھناؤنی تصویر اور اسلام دشمن شرمناک کردار لوگوں کے سامنے رکھا جائے،آج اس کام کیلئے ہم سب کو اپنا بھرپور،فعال اور متحرک کردار ادا کرنا ہوگا،دعا ہے کہ اللہ کریم فتنہ قادیانیت کی سرکوبی اور بیخ کنی کیلئے ہمیں بھی اپنے اسلاف کی طرح سرفروشانہ کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بحر مة خاتم النیین سیّد المرسلیٰن وعلی و آلہ و اصحابہ اجمعین



20.8.11

قادیانیوں کے افکار اور عقائد :

قادیانیوں کے افکار اور عقائد  
:

- مرزاغلام احمدقادیانی نے اپنی نشاطات کا آغاز بطور ایک اسلامی داعی کے شروع کیں تا کہ اس کے ارد گرد لوگ جمع ہوجائیں اوراس کی جماعت بن جائے، پھر اس نے یہ دعوی کردیا کہ وہ مجدد ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے اسے احلام ہوتا ہے ، پھر اس کے بعدایک قدم اورآگے بڑھ کر یہ دعوی کردیا کہ وہ مھدی منتظر اور مسیح موعود ہے ، پھر اس کے بعد نبوت کا دعوی کردیا اور اس کا خیال یہ تھا کہ اس کی نبوت ( نعوذ بااللہ ) ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے اعلی اور زیادہ بہتر ہے ۔
- قادیانیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی روزے رکھتا اور نماز پڑھتا اور سوتا اورجاگتا ، لکھتااور غلطی کرتا اورمجامعت کرتا ہے ، اللہ تعالی ان سب عیوب سے جو وہ کہتے ہيں منزہ اور پاک ہے ۔
- مرزا قادیانی کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا الہ انگریز ہے اس لیےکہ وہ اس سے انگلش میں مخاطب ہوتا ہے ۔
- قادیانیوں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم نہیں ہوئ بلکہ جاری ہے ، اور اللہ تعالی حسب ضرورت رسول بھیجتا ہے اور یہ کہ مرزاغلام احمد قادیانی سب انبیاء سے افضل نبی ہے ۔
- قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد پر جبریل علیہ السلام نازل ہوتے اور اس پر وحی نازل کرتے تھے ، اوریہ کہ اس کے الہامات قرآن کر طرح ہیں۔
اور انکا کہنا ہے کہ قرآن وہی ہے جسے مسیح موعود ( مرزا غلام احمد ) نے پیش کیا ہے ، اورحديث وہی ہے جو کہ قادیانی کی تعلیمات کے مطابق ہونگی اورسب نبی مرزا غلام احمد قادیانی کی سراداری میں ہیں ۔
- ان کا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ ان کی کتاب " کتاب مبین " نازل شدہ ہے ۔
- ان کا یہ اعتقاد ہے کہ وہ ان کا دین نیا اور ایک مستقل دین ہے اور وہ نئےدین کے مالک اور ان کی شریعت مستقل ہے ، اور مرزا غلام احمد کے پیرو کار کادرجہ صحابہ کا ہے ۔
- وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ قادیان مدینہ شریف اور مکہ مکرمہ کی طرح بلکہ ان سے افضل ہے ، اور قادیان کی زمین حرم اور ان کا حج قادیان میں ہے ، اور یہ ہی ان کا قبلہ ہے ۔
- جھاد فی سبیل اللہ کو منسوخ قرار دیتے ہیں ، اور انگریزی حکومت کی اندھی اطاعت کا مطالبہ کرتے ہیں ، اس لیےکہ ان کے گمان میں وہ ولی الامر ہیں جو کہ نص قرآنی سے ثابت ہے ۔
- ان کے نزدیک ہر مسلمان کا فر ہے حتی کہ وہ قادیانیت میں داخل ہو جائے، اور اسی طرح جس نے کسی غیرقادیانی سے شادی کرلی یا اسے اپنی بیٹی دے دی تو وہ کافر ہے ۔
- وہ شراب ، افیون ، اور سب نشہ والی اشیاء اور مسکرات کو جائز قرار دیتے ہیں


مرزا غلام احمد قادیانی کی کفریات



- نبوت کا دعوی ۔
- استعماری قوت کی خدمت کے لیےجھاد فی سبیل اللہ کا منسوخ کرنا ۔
- مکہ مکرمہ سے حج کرنا ختم کرکے اسے قادیان کی طرف لےجانا ۔
- اللہ تعالی کو بشر کے ساتھ تشبیہ دینا ۔
- تناسخ ارواح اور حلول کا عقید ہ رکھنا ۔
- اللہ تعالی کی طرف اولاد کی نسبت کرنا اور یہ کہنا کہ وہ الہ کا بیٹا ہے
- محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت سے انکار بلکہ نبوت کا دروازہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے لیے کھولنا ۔
- قادیانیوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ، اور اسرائیل نے ان کے لیے دعوتی مراکز اور مدارس کھولے اور انہیں قادیانیت کے نام سے مجلہ نکالنے اور اپنا لٹریچر اور کتابیں طبع کرکے پوری دنیا میں پھیلانے کا موقع فراہم کرنا ۔
- قادیانیت کا یھودیت اور عیسائیت اورباطنی تحریکوں سے متاثر ہونا جو کہ ان کے عقائد اور سلوک میں واضح ہے باوجود اس کے کہ وہ ظاہری طور پر اسلام کا دعوی کرتے ہیں ۔

قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا

قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا

محمد متین خالد
گذشتہ دنوں اسپیکر قومی اسمبلی محترمہ فہمیدہ مرزا نے اپنے خصوصی اختیارات کے تحت سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے متعلق پارلیمنٹ کے بند کمرے کے اجلاس میں ہونے والی بحث کے ریکارڈ کو 36 سال بعد اوپن کرنے کی منظوری دے دی ہے، جبکہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے معاملے پر پارلیمنٹ کے حالیہ بند کمرے کے اجلاس میں ہونے والی بحث سیل کر دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ذرائع کے مطابق بھٹو دور میں 1974ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے سے متعلق پارلیمنٹ کے بند کمرے کا اجلاس تقریباً ایک ماہ سے زائد جاری رہا تھا۔ جس کے نتیجہ میں قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد کی بناء پر ملک کی منتخب جمہوری حکومت نے متفقہ طور پر 7 ستمبر1974 کو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا اورآئین پاکستان کی شق 160(2) اور 260(3) میں اس کا اندراج کردیا۔ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر بحث کا تمام ریکارڈ اسی وقت سیل کردیا گیا تھا۔ یہ شرط رکھی گئی تھی کہ اسے تیس سال سے کم کے عرصے میں اوپن نہیں کیا جائے گا۔ اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے اب اس وقت کی بحث کے ریکارڈ کو لائبریری میں رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسمبلی ترجمان نے بتایا کہ اس وقت بحث کا تمام ریکارڈ پرنٹنگ کے مراحل میں ہے اور جلد اسے لائبریری کا حصہ بنا دیا جائے گا۔
قادیانی 1974ء سے لے کر اب تک یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ اگر یہ کارروائی شائع ہو جائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہو جائے گا۔ قومی اسمبلی کی یہ کارروائی اوپن ہونے سے قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا۔ لیکن حیرت ہے کہ اس خبر سے قادیانیوں کے ہاں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ کیونکہ اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار مرحوم نے ایک سوال پر کہ ’’قادیانیوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ روداد شائع ہوجائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہوجائے گا۔‘‘ کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ کارروائی ان کے خلاف جاتی ہے۔ ویسے وہ اپنا شوق پورا کرلیں، ہمیں کیا اعتراض ہے۔ ان دنوں ساری اسمبلی کی کمیٹی بنادی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ ساری کارروائی سیکرٹ ہوگی تاکہ لوگ اشتعال میں نہ آئیں۔ میرے خیال میں اگر یہ کارروائی شائع ہوگئی تو لوگ قادیانیوں کو ماریں گے۔‘‘ (انٹرویو نگار منیر احمد منیر ایڈیٹر ’’ماہنامہ آتش فشاں‘‘ لاہور، مئی 1994ئ) سابق اٹارنی جنرل اور معروف قانون دان جناب یحییٰ بختیار نے جس لگن، جانفشانی اور قانونی مہارت سے امت مسلمہ کے اس نازک اور حساس کیس کو لڑا، قادیانی شاطر سربراہوں پر طویل اور اعصاب شکن جرح کے بعد جس طرح ان سے ان کے عقائد و عزائم کے بارے میں سب کچھ اگلوایا، بلکہ اعتراف جرم کروایا، وہ انہی کا حصہ ہے جس پر وہ صد ستائش کے مستحق ہیں۔ بلاشبہ ان کی یہ خدمت سنہرے حروف سے لکھی جانے کے قابل ہے۔ لیکن اس کے برعکس قادیانیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کارروائی کے نتیجہ میں قومی اسمبلی کا کوئی ایک رکن بھی قادیانی نہیں ہوا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے اجلاس سے واک آئوٹ نہیں کیا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے قادیانیوں کی حمایت نہیں کی۔ اس کے برعکس نہ صرف تمام ارکان نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا بلکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر کی ٹیم میں شامل ایک معروف قادیانی مرزا سلیم اختر چند ہفتوں بعد قادیانیت سے تائب ہو کر مسلمان ہو گیا۔ حالانکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر پوری ٹیم کے ساتھ مکمل تیاری سے بڑی خوشی سے قومی اسمبلی گیا۔ اس کے اسمبلی کے اندر داخل ہونے کا انداز بڑا فاتحانہ، تکبرانہ اور تمسخرانہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ میں تاویلات اور شکوک و شبہات کے ذریعے اسمبلی کو قائل کر لوں گا، مگر بری طرح ناکام رہا۔ قادیانی قیادت نے قومی اسمبلی کے تمام اراکین میں 180 صفحات پر مشتمل کتاب ’’محضر نامہ‘‘ تقسیم کی جس میں اپنے عقائد کی بھرپور ترجمانی کی۔ اس کتاب کے آخری صفحہ پر ’’دعا‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے: ’’دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے معزز ارکان اسمبلی کو ایسا نور فراست عطا فرمائے کہ وہ حق و صداقت پر مبنی ان فیصلوں تک پہنچ جائیں جو قرآن و سنت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوں۔‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قادیانیوں کی دعا قبول ہوئی تو وہ قومی اسمبلی کا یہ فیصلہ قبول کیوں نہیں کرتے؟ اور اگر دعا قبول نہیں ہوئی تو وہ جھوٹے ہیں۔
قادیانی اعتراض کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی کی اس کارروائی کو اِن کیمرہ، خفیہ کیوں رکھا گیا۔ یہ کارروائی اخبارات میں روزانہ کیوں شائع نہ ہوئی؟ اس سوال کا جواب قومی اسمبلی کے اس وقت کے سپیکر جناب صاحبزادہ فاروق علی خان نے اپنے ایک انٹرویو میں دیتے ہوئے کہا:
’’بحث اور کارروائی کے دوران ایسی باتوں کے پیش آنے کا بھی امکان تھا کہ اگر منظرعام پر آئیں تو مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی۔ قادیانی فرقوں کے رہنمائوں کو بھی بلانا تھا۔ ان کا نقطۂ نظر بھی سننا تھا۔ ظاہر ہے وہ جو کچھ کہتے، مسلمانوں کو ہرگز اتفاق نہ ہوتا۔ لہٰذا کارروائی خفیہ ہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ناموس رسالت کا مسئلہ نازک اور حساس ہے۔ مسلمان جان بھی قربان کر دینا ایک انتہائی معمولی بات سمجھتا ہے، لہٰذا کسی بھی خطرناک جذباتی صورتحال سے بچنے کے لیے اس کارروائی کو خفیہ رکھنا ہی مناسب تھا۔ حضور رسالت مآب ﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ امت کو جو والہانہ عشق ہے، اس کو زبان و قلم سے بیان کرنا ناممکن ہے۔ اس خفیہ بحث کا فیصلہ کھلا تھا اور اس فیصلے سے ملت اسلامیہ آج تک مطمئن ہے۔‘‘ (قومی اسمبلی کے سابق سپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان سے اختر کاشمیری صاحب کا انٹرویو، روزنامہ ’’جنگ‘‘ جمعہ میگزین 3 تا 9 ستمبر 1982ئ)
قادیانی کہتے ہیں یہ ایک یکطرفہ فیصلہ تھا۔ یہ بات لاعلمی اور تعصب پر مبنی ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوری نظام حکومت میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کا فیصلہ شاید دنیا کا واحد اور منفرد واقعہ ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو پارلیمنٹ میں آ کر اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے بلایا۔ جہاں اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے اس پر، قادیانی کفریہ عقائد کے حوالہ سے جرح کی۔ مرزا ناصر نے اپنے تمام عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ تاویلات کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا۔ لہٰذا ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے 13 دن کی طویل بحث و تمحیص کے بعد آئین میں ترمیم کرتے ہوئے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا لیکن قادیانیوں نے حکومت کے اس فیصلہ کو آج تک تسلیم نہیں کیا بلکہ الٹا وہ مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور انھیں سرکاری مسلمان ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ وہ خود کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور آئین میں دی گئی اپنی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ اس وقت اراکین اسمبلی کی اکثریت زانی اور شرابی تھی۔ انھیں کوئی حق حاصل نہ تھا کہ وہ ایسا فیصلہ کرتے۔ قادیانیوں سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے اس وقت اسمبلی کا بائیکاٹ کیوں نہ کیا؟ کیا انہیں وہاں زبردستی لے جایا گیا تھا؟ حالانکہ وہ تو وہاں گئے ہی اس لیے تھے کہ قومی اسمبلی جو بھی فیصلہ کرے گی، ہمیں قبول ہو گا۔ عجیب بات ہے کہ اگر قادیانیوں کو پارلیمنٹ غیر مسلم اقلیت قرار دے تو وہ زانی اور شرابی، اگر سپریم کورٹ انہیں کافر قرار دے تو یہ کہنا کہ یہ تو انگریزی قانون پڑھے ہوئے ہیں، انھیں شریعت کا کیا علم؟ اور اگر علمائے کرام انہیں غیر مسلم کہیں تو یہ اعتراض کہ ان کا تو کام ہی یہی ہے۔



قادیانی کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20 کے تحت ہر شہری کو مذہبی طور پر آزادی اظہار ہے۔ آپ کسی پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ قادیانیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ (نعوذ باللہ) قرآن مجید میں نئے حالات کے مطابق تبدیلی کر دی گئی ہے۔ اس میں سے کئی آیات خارج کر دی گئی ہیں اور کئی آیات شامل کر دی گئی ہیں اور پھر وہ اس نئے قرآن کی تبلیغ و تشہیر بھی کرے تو کیا اس شخص پر پابندی لگنی چاہیے یا نہیں؟ اگر وہ یہ کہے کہ مجھے آئین کے تحت آزادی اظہار ہے تو کیا اسے یہ اجازت دینی چاہیے؟ پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ہر شخص کو کاروبار کی مکمل آزادی ہے مگر ہیروئن اور منشیات وغیرہ فروخت کرنا سختی سے منع ہے۔ کیا یہ آزادی پر پابندی ہے؟ آزادی چند حدود و قیود کے تابع ہوا کرتی ہے۔ آپ اپنا ہاتھ ہلانے میں آزاد ہیں، جب اور جس طرح چاہیں، اسے ہلا سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے ہاتھ ہلانے سے کسی دوسرے کا چہرہ زخمی ہوتا ہے تو پھر اس کی آزادی کہاں گئی؟ لہٰذا آزادی ایک حد تک ہے۔ آزادی بے لگام یا شتر بے مہار ہو جائے تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دورحکومت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود قادیانی مسلسل شعائر اسلامی استعمال کرتے ہیں۔ غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کو مسجد، مرزا قادیانی کو نبی اور رسول، مرزا کی بیوی کو ام المومنین، مرزا قادیانی کے دوستوں کو صحابہ کرام، قادیان کو مکہ مکرمہ، ربوہ کو مدینہ، مرزا قادیانی کی باتوں کو احادیث مبارکہ، مرزا قادیانی پر اترنے والی نام نہاد وحی کو قرآن مجید، محمد رسول اللہ سے مراد مرزا قادیانی مراد لیتے ہیں۔ چنانچہ 26 اپریل 1984ء کو حکومت نے مسلمانوں کے پرُزور مطالبہ پر ایک آرڈیننس جاری کیا گیا جس میں قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے قانوناً روکا گیا۔ اس آرڈیننس کے نتیجہ میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/B اور 298/C کے تحت کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا، اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتا، اپنے مذہب کی تبلیغ و تشہیر نہیں کر سکتا، شعائر اسلامی استعمال نہیں کر سکتا۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ 3 سال قید اور جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہوگا۔ قادیانیوں نے اپنے خلیفہ مرزا طاہر کے حکم پر آرڈیننس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پورے ملک میں شعائر اسلامی کی توہین کی اور آرڈیننس کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائی۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان کے اکثر شہروں میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہوئی۔ قادیانی قیادت نے اس آرڈیننس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ



قادیانیوں پر پابندی بالکل درست ہے۔ اس کے بعد قادیانیوں نے چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس میں چیلنج کیا، یہاں پر بھی عدالتوں نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ آرڈیننس بالکل قانون کے مطابق ہے۔ قادیانیوں کو آئین میں دی گئی اپنی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے شعائر اسلامی استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ آخر میں قادیانیوں نے ان تمام فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ہمیں آئین کے مطابق آزادی کا حق حاصل ہے، لیکن ہمیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ لہٰذا عدالت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/B اور 298/C کو کالعدم قرار دے۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس کیس کی مفصل سماعت کی۔ دونوں طرف سے دلائل دیے گئے۔ قادیانیوں کی اصل کتابوں سے متنازعہ ترین حوالہ جات پیش کیے گئے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ ظہیر الدین بنام سرکار (1993 SCMR 1718) میں قرار دیا کہ کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا اور نہ اپنے مذہب ہی کی تبلیغ کر سکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ سزا اور جرمانے کا مستوجب ہوگا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ جج صاحبان کسی دینی مدرسہ یا اسلامی دارالعلوم کے استاد نہیں تھے بلکہ انگریزی قانون پڑھے ہوئے تھے۔ ان کا کام آئین و قانون کے تحت انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے۔ فاضل جج صاحبان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قادیانی اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ دھوکہ دینا کسی کا بنیادی حق نہیں ہے اور نہ اس سے کسی کے حقوق یا آزادی ہی سلب ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں لکھا: ’’ ہر مسلمان کے لیے جس کا ایمان پختہ ہو، لازم ہے کہ رسول اکرم ؐ کے ساتھ اپنے بچوں، خاندان، والدین اور دنیا کی ہر محبوب ترین شے سے بڑھ کر پیار کرے۔‘‘ (’’صحیح بخاری ‘‘ ’’کتاب الایمان‘‘، ’’باب حب الرسول من الایمان‘‘) کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو مورد الزام ٹھہرا سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا دل آزار مواد جیسا کہ مرزا صاحب نے تخلیق کیا ہے سننے، پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے؟ ’’ہمیں اس پس منظر میں قادیانیوں کے صد سالہ جشن کی تقریبات کے موقع پر قادیانیوں کے اعلانیہ رویہ کا تصور کرنا چاہیے اور اس ردعمل کے بارے میں سوچنا چاہیے، جس کا اظہار مسلمانوں کی طرف سے ہو سکتا تھا۔ اس لیے اگر کسی قادیانی کو انتظامیہ کی طرف سے یا قانوناً شعائر اسلام کا اعلانیہ اظہار کرنے یا انہیں پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ اقدام اس کی شکل میں ایک اور ’’رشدی‘‘ (یعنی رسوائے زمانہ گستاخ رسول ملعون سلمان رشدی جس نے شیطانی آیات نامی کتاب میں حضور ﷺ کی شان میں بے حد توہین کی) تخلیق کرنے کے مترادف ہوگا۔ کیا اس صورت میں انتظامیہ اس کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ضمانت دے سکتی ہے اور اگر دے سکتی ہے تو کس قیمت پر؟ رد عمل یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی قادیانی سرعام کسی پلے کارڈ، بیج یا پوسٹر پر کلمہ کی نمائش کرتا ہے یا دیوار یا نمائشی دروازوں یا جھنڈیوں پر لکھتا ہے یا دوسرے شعائر اسلامی کا استعمال کرتا یا انہیں پڑھتا ہے تو یہ اعلانیہ رسول اکرم ؐ کے نام نامی کی بے حرمتی اور دوسرے انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کی توہین کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کا مرتبہ اونچا کرنے کے مترادف ہے جس سے مسلمانوں کا مشتعل ہونا اور طیش میں آنا ایک فطری بات ہے اور یہ چیز نقض امن عامہ کا موجب بن سکتی ہے، جس کے نتیجہ میں قادیانیوں کے جان و مال کا نقصان ہو سکتا ہے۔‘‘ (ظہیر الدین بنام سرکار1993 SCMR 1718ئ)
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں مزید لکھا: ’’ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ قادیانیوں کو اپنی شخصیات، مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب، القاب یا نام وضع کرنے میں کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخر کار ہندوئوں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر برادریوں نے بھی تو اپنے بزرگوں کے لیے القاب و خطاب بنا رکھے ہیں اور وہ اپنے تہوار امن و امان کا کوئی مسئلہ یا الجھن پیدا کیے بغیر پرُامن طور پر مناتے ہیں۔‘‘ (ظہیر الدین بنام سرکار1993 SCMR 1718ئ)
افسوس ہے کہ قادیانی آئین میں دی گئی اپنی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اس صورتحال میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ قادیانیوں کو آئین اور قانون کا پابند بنائے تاکہ ملک بھر میں کہیں بھی لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا نہ ہو۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا قول ہے کہ قانون پر عملدرآمد ہی اصل قانون ہے۔

3.8.11

گستاخان رسول کے ٹکڑے .......قاری محمد یعقوب شیخ

گستاخان رسول کے ٹکڑے .......قاری محمد یعقوب شیخ
 
عتیبہ اپنے باپ ابو لہب اور ماں ام جمیل (اروی) کی طرح رسول اللہ کی ایذا رسانی، گستاخی اور بے ادبی میں آگے آگے تھا، نبی آخر الزمان کے خلاف بدکلامی کرنے میں بڑا بے باک تھا۔ اس نے ایک دن بڑی ناپاک جسارت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کو پھاڑ ڈالا اور آپ پر تھوکنے کی کوشش کی مگر ناکام و نامراد ہوا اس بہیمانہ گستاخی پر آپ نے اس کے خلاف بددعا فرمائی۔ اللھم سلط علیہ کلباًمن کلابک۔ اے میرے اللہ! اس پر اپنے کتوں میں سے کوئی کتا مسلط کر دے۔
قارئین کرام! پھر کیا ہوا؟ ایک مرتبہ مکہ سے شام کی طرف ایک تجارتی قافلہ روانہ ہوا جس میں یہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھا، راستے میں الزرقاءنامی جگہ پر قافلے نے پڑاﺅ ڈالا۔ جنگل کا ماحول تھا، خوف ناک فضا تھی، عتیبہ مارے ڈر کے کانپنے لگا کیونکہ اس کو رسول اللہؓ کی بددعا یاد آ رہی تھی۔ قافلہ والوں نے اونٹوں کے حصار میں بڑی حفاظت کے ساتھ پہرہ کا اہتمام کرتے ہوئے اس کو سلا دیا۔ رات کے وقت ایک محب رسول شیر اس گستاخ رسول عتیبہ کے تعاقب میں نکل آیا، سارے قافلے والے پریشان اور دہشت زدہ ہو گئے۔ عتیبہ کو اپنی جان کی پڑ گئی وہ بدحواس ہو کر چیخنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر یہ بات بار بار کہہ رہا تھا کہ یہ شیر مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کی بدولت کھا جائے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا جس کی توقع یہ گستاخ رسول کر رہا تھا۔
شیر سارے قافلہ کو پھلانگتا ہوا کسی اور کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر پہنچاتا ہوا اس ظالم عتیبہ کی طرف جھپٹا اور پل بھر میں اس کے اسی طرح ٹکڑے کر دیئے جس طرح اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کے ٹکڑے کئے تھے۔ اس گستاخ کا انجام پورے قافلہ نے دیکھا، کوئی بھی اس کی مدد کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا، اونٹوں کا حصار پہرہ داروں کا نیزہ و تلوار کسی کام نہ آ سکے سب ناکام مگر! اللہ تعالیٰ کے حکم سے آنے والا محب رسول شیر کامیاب ہو گیا۔
دنیا کی ہر باطل قوت اور گستاخ ملک کا حال و حشر اسی طرح ہو گا جس طرح عتیبہ کا ہوا، اللہ تعالیٰ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرے گا۔ ڈنمارک، ناروے اور ان کے پشتیبان ممالک نے عتیبہ کی تاریخ کو تازہ کرتے ہوئے توہین کی غرض سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہوئے نبی آخر الزمان کی طرف منسوب کرتے ہوئے جو خاکے شائع کئے ہیں بلکہ ان کی بار بار اشاعت کی جو مذموم حرکت کی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان ممالک کی عمر اب بہت ہی تھوڑی ہے۔ یہ جلد اپنے وجود سے ہاتھ دھو لیں گے اور اپنا اقتدار کھو بیٹھیں گے۔ جس طرح کسریٰ (خسرو) سب کچھ کھو بیٹھا تھا۔
قارئین کرام! نبی( صلی اللہ علیہ وسلم) نے تربیت و اصلاح کی غرض سے ابلاغ حق کیلئے شاہ فارس کسری کو خط لکھا، اس خط کو لے جانے کیلئے سیدنا عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو سفیر منتخب فرمایا۔ خط کسری تک پہنچا، پڑھ کر سنایا گیا جس کی ابتداءکچھ یوں ہے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد رسول اللہ کی طرف سے کسریٰ عظیم فارس کی جانب! ہر اس شخص پر سلام، جو ہدایت کو قبول کرے پیروی کرے۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔
میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، کیونکہ میں پوری انسانیت کیلئے اس کا رسول ہوں جو شخص زندہ ہے اسے انجام بد سے ڈرایا جائے اور کافروں پر اتمام حجت ہو جائے، تم اسلام لاﺅ سالم رہو گے اگر انکار کیا تو تم پر مجوس کا بھی گناہ ہو گا۔
خط سننے کے بعد کسریٰ نے اس کو چاک کر دیا اور نہایت متکبرانہ گستاخانہ انداز میں بولا: میری رعایا کا سب سے حقیر غلام اپنا نام مجھ سے پہلے اور میرا بعد میں لکھتا ہے....! حضرات! یہ خط کوئی عام خط نہ تھا، رسول اللہ کا خط تھا، اہم ترین دستاویز تھی قیمتی کلمات تھے جن کی لاج نہ رکھی گئی بے ادبی کی گئی اس کو حرمت کا خیال نہ رکھا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: اے اللہ! اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے“۔
کسریٰ نے اپنے یمن کے گورنر باذان کو لکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر کے میرے پاس حاضر کیا جائے اور اس کام کیلئے دو مضبوط آدمی روانہ کئے جائیں۔ باذان نے تعمیل کرتے ہوئے آپ کی طرف ایک خط دیکر دو آدمی روانہ کئے اور حکم دیا کہ ان دونوں کے ہمراہ آپ کسریٰ کے پاس حاضر ہو جائیں۔ وہ دونوں خط لیکر آپ کے پاس آئے کسری کا زبانی حکم نامہ سناتے ہوئے وہ مکتوب بھی، پیش کر دیا جو کسریٰ کے روبرو حاضر ہونے کا حکم نامہ باذان نے دیا تھا۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ملاقات کیلئے کل حاضر ہو جائیں۔ ادھر مدینہ منورہ میں یہ دلچسپ صورتحال تھی ، ادھر خسرو (کسریٰ) کے خلاف اس کے گھر میں بغاوت کا (علم) جھنڈا بلند ہو چکا تھا، جس کے نتیجے میں قیصر کی فوج کے ہاتھوں فارسی شکست کھا رہے تو ان حالات میں کسری (خسرو) کو اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کر کے خود اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے اپنے رسول کو سارا واقعہ بتا دیا۔ صبح ہوئی، دونوں فارسی باشندے حاضر ہوئے، آپ نے انہیں اس واقعہ کی خبر سنائی، دونوں نے پریشان ہو کر کہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کی بات ہم اپنے بادشاہ کو تحریر کر دیں؟ آپ نے فرمایا ہاں، میری اس بات کی خبر کر دو اور یہ بھی کہہ دوں کہ میرا دین اور میری حکومت وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک کسریٰ پہنچ چکا ہے بلکہ اس سے بھی آگے جہاں تک اونٹ اور گھوڑے کے قدم بھی نہیں جا سکتے اور اس کو جا کر کہنا کہ اگر تم مسلمان ہو جاﺅ تو جو کچھ تمہارے اقتدار میں ہے وہ میں تمہیں دے دوں گا اور تم کو تمہاری قوم کا بادشاہ بنا دوں گا۔ وہ دونوں مدینہ شریف سے روانہ ہوئے، باذان کے پاس پہنچے، سارا واقعہ اس کو سنایا، تفصیلات سے آگاہ کیا، تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ایک خط آیا کہ شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کر کے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اس خط میں شیرویہ نے یہ ہدایت بھی کی تھی کہ جس شخص کے بارے میں میرے باپ نے تمہیں لکھا تھا تا حکم ثانی ان کو کچھ نہ کہا جائے۔ اس واقعہ کی وجہ سے باذان اور اس کے ساتھیوں نے جو یمن میں تھے، اسلام قبول کر لیا۔ باذان کو اسلام نصیب ہوا، کسریٰ کو ذلت و پستی کی موت ملی۔ خود بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور ملک بھی ٹکڑوں میں تقسیم ہوا۔ اس کی موت اشاعت اسلام کیلئے بڑی کارگر ثابت ہوئی۔ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا جو اس کافر کے خلاف تھی وہ رنگ لائی، گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگ گئی۔ اہل یورپ کو یہ بات قطعاً بھولنی نہیں چاہئے کہ جو کچھ وہ گستاخی رسالت میں کر رہے ہیں اس کی سزا ان کو ملنی ہے۔ ان کی اولاد ان کو قتل کرے گی یہ خانہ جنگی کا شکار ہوں گے، درندے ان کوپھاڑیں گے اور اللہ کے فدائی دستے محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربی کے غلام اب ان پرچڑھ دوڑیں گے کیونکہ کافروں نے ان کی ایمانی غیرت کو للکارا ہے جس سے اب جہاد فی سبیل اللہ کا دروازہ کھل چکا ہے۔ اس سے یہ دین یورپ میں غالب ہو گا اور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک اونٹ اور گھوڑے کے قدم بھی نہیں جا سکتے۔

3.7.11

7 ستمبر:قادیانیوں کے خلاف تاریخی فیصلہ

    

   7 ستمبر:قادیانیوں کے خلاف تاریخی     فیصلہ

  حضرت محمد مصطفی اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اوررسول ہیں۔ آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی تشریعی‘ غیرتشریعی‘ ظلی‘ بروزی یا نیا نبی نہیں آئے گا۔ آپ کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کری‘ وہ کافر‘ مرتد‘ زندیق اور واجب القتل ہے۔ قرآن مجید کی ایک سو سے زائدآیات ِمبارکہ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریباً دوسو دس احادیث ِمبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس بات پر ایمان ”عقیدہ ¿ ختم نبوت“ کہلاتا ہے۔ ختم نبوت اسلام کا متفقہ‘ اساسی اور اہم ترین بنیادی عقیدہ ہے۔ دین اسلام کی پوری عمارت اس عقیدے پر کھڑی ہے۔ یہ ایک ایسا حساس عقیدہ ہے کہ اگر اس میں شکوک و شبہات کا ذرا سا بھی رخنہ پیدا ہوجائے تو ایک مسلمان نہ صرف اپنی متاعِ ایمان کھو بیٹھتا ہے بلکہ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے بھی خارج ہوجاتا ہے۔ پوری امت ِمسلمہ کا اس امر پر اجماع ہے کہ سب سے اوّل نبی حضرت آدم علیہ السلام اور سب سے آخری حضرت محمد مصطفیٰ ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں جھوٹے مدعیانِ نبوت اور ان کے پیروکار ہمیشہ تاویلات اور جھوٹی باتوں کو بنیاد بناکر دینِ اسلام میں تبدیلی وتحریف کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ منکرینِ ختم نبوت اپنی شپرہ چشمی کو آفتاب‘کج فہمی کو دلیل‘ بکاین کو انگور‘ زہرکو امرت‘ ظلمت کو اجالا اور پیتل کو زرِخالص تسلیم کروانے پر مُصر رہے مگر امت ِمسلمہ نے دینِ اسلام میں ذرا سی بھی تبدیلی‘ تحریف یاکمی بیشی کو گوارا نہ کیا۔ بلکہ ہر قسم کے مشکل اور نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے دل وجان سے عقیدہ ¿ ختم نبوت کی حفاظت کی اور منکرینِ ختم نبوت کے خلاف بھرپور جہاد کیا۔ موجودہ دور میں منکرینِ ختم نبوت کا گروہ فتنہ ¿ قادیانیت کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس فتنے کا بانی آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی تھا جس نے انگریزوں کے اشارے پر ملت اسلامیہ کو پارہ پارہ کرنے کی ناپاک سازشیں کیں۔ مرزا قادیانی اور اس کے پیروکاروں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور شعائرِ اسلامی کی توہین بھی شروع کردی۔ اسلام اور اس کی مقدس شخصیات کے خلاف قادیانیوں کی گستاخیوں اور ہرزہ سرائیوں کو اکٹھا کیا جائے تو کئی دفتر تیار ہوسکتے ہیں۔ پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئرمارشل ظفرچوہدری نے جہازوں کی ایک ٹولی کی قیادت کرتے ہوئے 1973ءمیں قادیانی جلسہ میں اپنے ”خلیفہ“ مرزا ناصرکو سلامی دی تھی‘ اس موقع پر قادیانی خلیفہ نے اپنے پیروکاروں کو خوشخبری دی کہ ”پھل پک چکا ہی....جلد ہی ہماری جھولی میں گرنے والاہی“۔ قادیانیوں کے کفریہ عقائدکی بناءپر ملک کی منتخب جمہوری حکومت نے متفقہ طور پر 7 ستمبر 1974ءکو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور آئین پاکستان کی شق (2) 160 اور (3) 260 میں اس کا اندراج کردیا۔ جمہوری نظام میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ دنیا کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ حکومت نے فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصرکو پارلیمنٹ کے سامنے اپنا مو ¿قف پیش کرنے کا پورا پورا موقع دیا۔ یحییٰ بختیار کی جرح کے دوران مرزا ناصر احمد نے اپنے ان تمام مذہبی عقائدکو تسلیم کیا جس پر پوری امت ِ مسلمہ کو قادیانیوں سے نہ صرف شدید اختلاف ہے بلکہ وہ اسے اپنے مذہب میں مداخلت بھی سمجھتے ہیں‘ اور یہی وجہ ہے کہ قادیانیوں کے ان عقائد کی سرعام تبلیغ وتشہیرکی وجہ سے ملک ِ عزیز میں کئی بار لاءاینڈ آرڈرکی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قادیانی پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی حکومت‘ پارلیمنٹ یا کوئی اور ادارہ انہیں ان کے عقائد کی بناءپر غیر مسلم قرار نہیں دے سکتا بلکہ الٹا وہ مسلمانوںکوکافر اور خود کو مسلمان کہتے ہیں اور آئین میں دی گئی اپنی حیثیت تسلیم نہیں کرتے۔ قادیانی آئینی طور پر غیر مسلم ہونے کے باوجود بھی سرعام شعائر اسلامی کی بے حرمتی اور اپنے باطل مذہب کی تبلیغ وتشہیرکرتے رہے۔ چنانچہ اس سے روکنے کے لیے 26 اپریل 1984ءکو حکومت پاکستان نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس کی رو سے قادیانی اپنے مذہب کے لیے اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کرسکتے۔ اس سلسلے میں تعزیرات ِپاکستان میں دفعہ 298/B‘ میں 298/C کا اضافہ کیاگیا جس کی رو سے کوئی قادیانی خودکو مسلمان نہیں کہلواسکتا‘ نہ ہی اپنے مذہب کو بطور اسلام پیش کرسکتا ہے اور نہ ہی شعائر اسلامی کا استعمال کرسکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ 3 سال قید اور جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہوگا۔ قادیانیوں نے اس پابندی کو وفاقی شرعی عدالت‘ لاہورہائی کورٹ‘ کوئٹہ ہائی کورٹ وغیرہ میں چیلنج کیا جہاں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بالآخر قادیانیوں نے پوری تیاری کے ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائرکی کہ انہیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ نے اس کیس کی مفصل سماعت کی۔ دونوں طرف سے دلائل و براہین دیے گئے۔ اصل کتابوں سے متنازع ترین حوالہ جات پیش کیے گئے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے یہ جج صاحبان کسی دینی مدرسہ یا اسلامی دارالعلوم کے مفتی صاحبان نہیں تھے بلکہ انگریزی قانون پڑھے ہوئے تھے۔ ان کا کام آئین وقانون کے تحت انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے۔ فاضل جج صاحبان نے جب قادیانی عقائد پر نظر دوڑائی تو وہ لرزکر رہ گئے۔ فاضل جج صاحبان کا کہنا تھا کہ قادیانی اسلام کے نام پرلوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ کے تاریخی فیصلے ظہیرالدین بنام سرکار‘ (1993 SCMR 1718) کی رو سے کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلواسکتا اور نہ ہی اپنے مذہب کی تبلیغ کرسکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ تعزیرات ِپاکستان کی دفعہ 298-C کے تحت 3 سال قید کا مستوجب ہے۔ اس کے باوجود قادیانی آئین‘ قانون اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑاتے ہوئے خودکو مسلمان کہلواتی‘ اپنے مذہب کی تبلیغ کرتی‘ گستاخانہ لٹریچر تقسیم کرتی‘ شعائر اسلامی کا تمسخر اڑاتے اور اسلامی مقدس شخصیات و مقامات کی توہین کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قادیانیوں کی ان آئین شکن‘ خلاف ِقانون اور انتہائی اشتعال انگیز سرگرمیوں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرمانہ غفلت اور خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے بعض اوقات لاءاینڈ آرڈرکی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ خود سپریم کورٹ کے فل بینچ نے اپنے نافذالعمل فیصلے میں لکھا: ”ہر مسلمان کے لیے جس کا ایمان پختہ ہو‘ لازم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے بچوں‘ خاندان‘ والدین اوردنیا کی ہرمحبوب ترین شے سے بڑھ کر پیارکرے۔“ (صحیح بخاری“، ”کتاب الایمان“، ”باب حب الرسول من الایمان“) کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو مورد الزام ٹھیرا سکتا ہے اگر وہ ایسا دل آزار مواد جیسا کہ مرزا صاحب نے تخلیق کیا ہے سننی‘ پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی؟ اگر کسی قادیانی کو انتظامیہ کی طرف سے یا قانوناً شعائر اسلام کا علانیہ اظہارکرنے یا انہیں پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ اقدام اس کی شکل میں ایک اور ”رشدی“ (یعنی رسوائے زمانہ گستاخِ رسول ملعون سلمان رشدی جس نے شیطانی آیات نامی کتاب میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے حد توہین کی) تخلیق کرنے کے مترادف ہوگا۔ کیا اس صورت میں انتظامیہ اس کی جان‘ مال اور آزادی کے تحفظ کی ضمانت دے سکتی ہی؟ اور اگردے سکتی ہے تو کس قیمت پر؟ ردعمل یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی قادیانی سرعام کسی پلے کارڈ‘ بیج یا پوسٹر پرکلمہ کی نمائش کرتا ہے یا دیوار یا نمائشی دروازوں یا جھنڈیوں پر لکھتا ہے یا دوسرے شعائر اسلامی کا استعمال کرتا یا انہیں پڑھتا ہے تو یہ علانیہ رسول اکرم کے نام نامی کی بے حرمتی اور دوسرے انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کی توہین کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کا مرتبہ اونچا کرنے کے مترادف ہے جس سے مسلمانوں کا مشتعل ہونا اورطیش میں آنا ایک فطری بات ہی‘ اور یہ چیز نقص امن عامہ کا موجب بن سکتی ہی‘ جس کے نتیجے میں جان ومال کا نقصان ہوسکتا ہے۔“ ”ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ قادیانیوںکو اپنی شخصیات‘ مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب‘ القاب یا نام وضع کرنے میں کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخرکار ہندوﺅں‘ عیسائیوں‘ سکھوں اور دیگر برادریوں نے بھی تو اپنے بزرگوں کے لیے القاب وخطاب بنارکھے ہیں۔“ (ظہیرالدین بنام سرکار 1993 SCMR 1718)۔ افسوس ہے کہ قادیانی آئین میں دی گئی اپنی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں اورسپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اس صورت حال میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ قادیانیوں کو آئین اور قانون کا پابند بنائے تاکہ ملک بھر میں کہیں بھی لاءاینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا نہ ہو۔

30.6.11

مرزا غلام احمد قادیانی

 
مرزا غلام احمد قادیانی
    اس نے ١٩٠٠؁ء میں انگریزوں کی سازش اور منصوبہ سے قادیان پنجاب میں نبوت کا دعویٰ کیا۔
مرزا کا تعارف
    مرزا غلام احمد قادیانی بقول اپنے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود ١٨٣٩؁ء یا ١٨٤٠؁ء میں ہندوستانی پنجاب کے مقام قادیان ضلع گورداسپور میں پیدا ہوا۔ اس دور میں رائج عربی و فارسی کی تعلیم مرزا نے اس دور کے بڑے بڑے اساتذہ علامہ فضل احمد، علامہ گل حسن شاہ اور علامہ فضل الٰہی سے حاصل کیا اور دین کی پوری تعلیم پائی۔ طب کی تعلیم اپنے والد مرزا غلام عطا محمد ولد مرزا گل محمد سے حاصل کی۔
انگریز کی ملازمت
    تقریباً ٢٤/ سال کی عمر میں انگریزی حکومت کے ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے آفس میں پندرہ روپے ماہانہ تنخواہ پر بحیثیت کلرک ملازمت شروع کی اور اس معمولی ملازمت کے ذریعہ تاج برطانیہ کا قرب حاصل کیا اور سامراج نے مرزا کو اپنے مطلب کا آدمی پاکر افتراق و انتشارِ بین المسلمین کا آلہ کار بنانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ مرزا نے بھی خوب حق نمک ادا کیا اور انگریزوں کا یہ ریزہ خوار بڑا وفادار ثابت ہوا۔
    انگریز کو ایسے وفادار ریزہ خوار اور آلہ کار کی تلاش تھی ہی، جب مرزا قادیانی کی شکل میں انہیں کام کا آدمی مل گیا تو اس سے جو اصل کام لینا تھا اس کے لیے کلرک کی خدمت چند سال بعد چھڑاوادی اور مرزا کو اصل کام پر لگادیا۔ اسی دوران ١٨٧٦؁ء میں اس کے والد مرگئے۔
مرزا میدانِ عمل میں
    باپ کی موت سے ایک طرح سے مرزا بالکل آزاد ہوگیا اور انگریز کے سپرد کردہ اصل کام کو صحیح ڈھنگ سے انجام دینے کے لیے عربی فارسی میں مزید پختگی کی کوشش کی اور عربی و فارسی کے ساتھ اردو زبان میں لکھنے کی مشق تیز کردی۔بقول شیخ محمد اکرام ان دنوں ان (مرزا قادیانی) کی حالت نیم مجذوبانہ سی رہتی تھی (موج کوثر ص ١٧٨)
    مرزا نے اوّلاً اپنے آپ کو ایک مصلح کی حیثیت سے پیش کیا اور ١٨٧٩؁ء میں تصانیف کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ عالم دین تو تھا ہی دوسری طرف انگریز کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ جلد ہی وہ ایک کامیاب و مقبول واعظ و مصلح کی حیثیت سے مشہور ہوگیا اور ایک اچھا خاصا طبقہ اس سے متاثر ہوگیا۔ اس ابتدائی کامیابی کے بعد حوصلہ بلند ہوا اور تدریجا ً منصوبہ بند طریقے سے مختلف قسم کے دعوے کرنے شروع کردیئے۔ سب سے پہلے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔ ١٨٨٢؁ء میں دعویٰ کیا کہ اسے کثرت سے الہامات ہوتے ہیں۔ پھر ١٨٨٨؁ء میں مہدی موعود بنا۔ پھر ترقی کرکے ١٨٩٠؁ء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بکواس کی کہ نہ وہ زندہ ہیں اور نہ چوتھے آسمان پر ہیں، بلکہ فوت ہوچکے ہیں اور ان کی قبر کشمیر میں ہے۔
اور یہ کہ وہ (یعنی قادیانی) عیسیٰ مسیح کی مثیل ہے۔ علمائے وقت کی طرف سے جب اس کی مخالفت ہوئی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کھلی توہین پر اتر آیا اور ان کی شان میں گالی گلوچ اور خرافات کی بھرمار کردی۔ ان کے معجزات کو مسمریزم کہا، اپنے کو ان سے افضل بتایا، انہیں نادان، چور، شریر، مکار، بدعقل، زانی خیال کیا، فحش گو، جھوٹا، گندی گالیاں دینے والا، پیروِ شیطان کا خطاب دیا اور آپ کی تین دادیوں اور نانیوں کو زناکار بتایا (معاذ اللہ)
    ١٩٠١؁ء میں مرزا نے ظلی و بروزی اور غیر تشریعی نبی اور پھر اصلی نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور ٢٩/ مئی ١٩٠٨؁ء کو اچانک قہر خدا کا شکار ہوا اور ہیضہ میں مبتلا ہوکر لاہور میں پاخانے کے اندر موت واقع ہوئی۔
جنازہ لوگوں سے چھپاکر اور مال گاڑی میں لاد کر قادیانی لایا گیا اور وہیں دفن کردیا گیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی اور دعوائے نبوت
    قادیانیت کے دوسرے امام اور مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین ١٩١٥؁ء نے قادیانیوں کے دوسرے مختصر گروپ لاہوری پارٹی کے خلاف حقیقۃ النبوۃ نام کی ایک کتاب لکھی جس کے پچاس صفحات صرف اس لیے سیاہ کیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اسی معنی کر اور اسی قسم کے نبی تھے جس معنی کے اور جیسے نبی پہلے آتے رہے اور اگلے نبیوں کے نہ ماننے والے جس طرح کافر ہیں اور نجات کے مستحق نہیں اسی طرح مرزا صاحب کے نہ ماننے والے سارے مسلمان بھی کافر اور نجات سے محروم رہنے والے ہیں۔
    اس میں مرزا کی نبوت پر بیس دلیلیں دی گئی ہیں۔ ان میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ مرزا صاحب نے خود اپنے کو نبی اور رسول کہا ہے۔ اس کے بعد اس کے لڑکے اور حقیقۃ النبوۃ کے مصنف نے مرزا کی کتابوں سے انتالیس عبارتیں درج کی ہیں ان میں سے کچھ آپ بھی پڑھیے، مرزا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
١-    میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے (تتمہ حقیقۃ الوحی، صفحہ ٦٨/ از مرزاقادیانی)
٢-    ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول و نبی ہیں (بدر، ٥/ مارچ ١٩٠٨؁ئ)
٣-    س
چا خدا وہی ہے جس نے قادیانی میں اپنا رسول بھیجا (دافع البلائ، صفحہ ١١)
٤-    خدا تعالیٰ۔۔۔۔۔۔ قادیان کو اس طاعون کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے (دافع البلائ، صفحہ ١٠)
٥-    پس خدا نے اپنی سنت کے موافق ایک نبی مبعوث ہونے تک وہ عذاب ملتوی رکھا اور جب وہ نبی مبعوث ہوگیا۔۔۔۔۔۔ تب وہ وقت آیا کہ ان کو ان کے جرائم کی سزا دی جائے (تتمہ حقیقۃ الوحی، ص ٥٢)
    مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے دعوائے نبوت کے ساتھ ساتھ کچھ خدائی الہامات بھی گڑھے ہیں۔ اس کے بیٹے بشیر الدین محمود نے ان الہامات میں کو بھی اپنے باپ کی نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان من گڑھت الہامات میں سے ہم صرف پانچ کو حقیقۃ الوحی کے حوالے سے ذکر کر رہے ہیں، مرزا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
١-    ''ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق و تھذیب الاخلاق'' وہی خدا جس نے اپنا رسول، ہدایت، دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔
٢-    ''انا ارسلنا احمد الی قوم فاعرضوا و قالوا کذاب اشر'' ہم نے احمد (مرزا غلام احمد قادیانی) کو ایک قوم کے پاس بھیجا تو اس نے اعراض کیا اور کہا یہ انتہائی جھوٹا اور بہت شریر ہے۔
٣-    ''انی مع الرسول اقوم و الوم من یلوم'' میں رسول کے ساتھ قائم ہوں اور ملامت کرنے والے کو ملامت کرتا ہوں۔
٤-    ''انی مع الرسول اقوم و افطر و اصوم'' میں رسول کے ساتھ قائم ہوں اور بے روزے کے رہتا ہوں اور روزے سے بھی۔
٥-    ''انی مع الرسول اقوم و من یلومہ الوم'' میں رسول کے ساتھ قائم ہوں اور جو اس کی ملامت کرتا ہے میں اس کی ملامت کرتا ہوں۔
    بشیر الدین محمود ان الہامات کو ذکر کرنے کے بعد سوال کرتا ہے کہ کیا سب نبیوں کو ہم اس لیے نبی نہیں مانتے کہ خدائے تعالیٰ نے ان کو نبی کہا ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ وہی خدا جس نے موسیٰ سے کہا تو نبی ہے تو وہ نبی ہوگیا اور عیسیٰ سے کہا کہ تو نبی ہے تو وہ نبی ہوگیا، لیکن آج مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی سے کہتا ہے کہ تو نبی ہے تو وہ نبی نہیں ہوتا؟ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی یقینی وحی کی موجودگی میں کوئی شخص مسیح موعود کی نبوت کا انکار کر سکتا ہے؟ اور جو شخص انکار کرتا ہے اسے ضرور پہلے نبیوں کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح کی نبوت دلائل اور جن الفاظ سے ثابت ہوتی ہے ان سے بڑھ کر دلائل اور صاف الفاظ حضرت مسیح موعود کی نبوت کے متعلق موجود ہیں، ان کے ہوتے ہوئے اگر مسیح موعود نبی نہیں ہوتا تو دنیا میں آج تک کبھی کوئی نبی ہوا ہی نہیں (حقیقۃ النبوۃ، ص ٢٠٠/ تا ٢٠١)
    باپ کی نبوت پر ایک اور دعویٰ دیکھئے، بشیر الدین محمود لکھتے ہیں ''بلحاظِ نبوت ہم بھی مرزا (غلام احمد قادیانی) صاحب کو پہلے نبیوں کے مطابق مانتے ہیں'' (ایضاً ص ٢٩٢) اور اس دعوے کی دلیل میں کہتے ہیں کہ ''اوّل دلیل حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) کے نبی ہونے پر یہ ہے کہ جس طرح خدائے تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت نوح اور حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کو نبی کہہ کر پکارا ہے حضرت مسیح موعود کو بھی قرآن کریم میں رسول کے نام سے یاد فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک تو آیت ''مبشرا برسول یاتی من بعد اسمہ احمد'' سے ثابت ہے کہ آنے والے مسیح کا نام اللہ تعالیٰ رسول رکھتا ہے۔ پس جس کا نام قرآن کریم رسول رکھتا ہے اس کے نبی اور رسول ہونے میں کیا شک کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔ اگر مسیح موعود نبی نہ تھے تو پہلے بزرگ بھی نبی نہ تھے، دونوں کی نبوت پر ایک ہی کتاب شاہد ہے'' (حقیقۃ النبوۃ ص ١٨٨)
مرزا صاحب کا خدائی دعویٰ
    ''رایتنی فی المنام عین اللہ و تیقنت اننی ھو'' (آئینہ کمالات اسلام، ص ٥٦٤/ از مرزا) میں نے نیند میں خود کو ہو بہو اللہ دیکھا اور مجھے یقین ہوگیا کہ میں وہی اللہ ہوں۔
خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ
    مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''انت بمنزلۃ ولدی'' (حقیقۃ الوحی، ص ٨٦) تم میرے بیٹے کی جگہ ہو۔
کرشن ہونے کا دعویٰ
    ٢/ نومبر ١٩٠٤؁ء کو مرزا صاحب نے سیالکوٹ میں ایک لیکچر دیا جس میں کرشن ہونے کا دعویٰ کیا۔ خود کو ''ہے کرشن جی رودد گوپال'' لکھا (البشریٰ، جلد اوّل، صفحہ ٥٦)
اوتار ہونے کا دعویٰ
    ہندؤں کو خطاب کرتے ہوئے لکھا برمن اوتار (یعنی مرزا) سے مقابلہ اچھا نہیں (ازالہ اوہام، ص ٦٥٨)
عیسیٰ ابن مریم ہونے کا دعویٰ
    نازل ہونے والا ابن مریم یہی ہے۔
محمد ہونے کا دعویٰ
    خدا نے مجھ پر اس رسول کا فیض اتارا اور اس کو پورا کیا اور مکمل کیا اور میری طرف اس رسول کا لطف اور جود بھرا، یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہوگیا (خطبہ الہامات، ص ١٧١)
احمد ہونے کا دعویٰ
    آیت کریمہ ''و مبشرا برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد'' میں لفظ ''احمد'' سے متعلق دعویٰ کیا کہ وہ احمد میں ہی ہوں (ایضاً ص ٦٧٣)
مجدد ہونے کا دعویٰ
    اس عاجز کو دعوائے مجدد ہونے پر اب بفضلہ تعالیٰ گیارہواں برس جاتا ہے (نشان آسمانی، ص ٣٤)
محدث ہونے کا دعویٰ
    میں محدث ہوں (حمامۃ البشریٰ ص ٧٩)
مہدی ہونے کا دعویٰ
    میں مہدی ہوں (معیار الاجتہاد، ص ١١)
مرزا کے کفریات
    مرزا قادیانی کے کفریات برساتی کیڑوں کی طرح سیکڑوں کی تعداد میں اس کی کتابوں میں رینگ رہے ہیں، ہم ان میں سے دس کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے مزید رد و جواب کے لیے مجددِ دین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کے رسائل کا مطالعہ کریں۔
کفر اوّل        میں احمد ہوں جو آیت ''و مبشرا برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد'' میں مراد ہے (ایک غلطی کا ازالہ، ص ٦٧٣)
کفر دوم        میں محدث ہوں (توضیح مرام، ص ١٦)
کفر سوم        سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا (دافع البلائ، ص ٢٦)
کفر چہارم    خدائے تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس عاجز کا نام امتی بھی رکھا ہے اور نبی بھی (براہین احمدیہ)
کفر پنجم        حضرت مسیح علیہ السلام سے اپنی برتری کا اظہار کیا ہے (دافع البلائ، ص ١٠)
کفر ششم        ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو۔ اس سے بہتر غلام احمد ہے (ایضاً ص ١٧)
کفر ہفتم        میں بعض نبیوں سے بھی افضل ہوں (معیار الاخیار)
کفر ہشتم        اگر میں اس قسم کے معجزات کو مکروہ نہ جانتا تو ابن مریم سے کم نہ رہتا (ازالہ اوہام، ص ١١٦)
کفر نہم        آپ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام) کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے (ضمیمہ انجام آتھم، ص ٧)
کفر دہم        ایک زمانے میں چار سو نبیوں کی پیش گوئی غلط ہوئی (ازالہ اوہام، ص ٢٣٤)
انبیاء و اولیا کی شان میں
مرزا کی گستاخیاں اور بدزبانیاں
١-    ان لوگوں نے چوروں، قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ شروع کردیا (ازالہ ص ٧٢٤)
٢-    کنجریوں کے بچوں کے بغیر جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگادی ہے باقی سب میری نبوت پر ایمان لا چکے ہیں (آئینہ کمالات، ص ٥٤٧)
٣-    دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں (نجم الہدیٰ، ص ١٠)
٤-    اے بد ذات فرقہ مولیاں! کب تک حق کو چھپاؤ گے؟ کب وہ وقت آئے گاکہ تم یہودیانہ خصلت کو چھوڑ دو گئے؟ (انجام آتھم، حاشیہ ص ٢١)
٥-    کذاب خبیث بچھو کی طرح نیش زن ہے، اے گولڑہ کی سرزمین تجھ پر خدا کی لعنت ہو۔ تو ملعون کے سبب ملعون ہوگئی (نزول المسیح، ص ٧٥)
٦-    مسیح (عیسیٰ علیہ السلام) کا چال چلن کیا تھا، ایک کھاؤ پیٹو، شرابی کبابی، نہ زاہد عابد، نہ حق کا پرستار، خود بیں، خدائی کا دعویٰ کرنے والا (مکتوب احمد، ج ٣/ ص ٢١)
٧-    آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کی تین دادیاں اور نانیاں زناکار اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا (ضمیمہ انجام آتھم، ص ٧)
٨-    پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو، اب نئی خلافت لو۔ ایک زندہ علی (مرزا قادیانی) تم میں موجود ہے۔ اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کو تلاش کرتے ہو (ملفوظات احمدیہ، ج ١/ ص ٣١)
٩-    حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں (ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ ص ١١)
اسلام کے مقابل ایک نیا دینی محاذ
    مرزا غلام احمد قادیانی نے سچے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل جھوٹا نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔۔۔۔۔۔ جس نے قادیان کو مسجد حرام کے مقابل ارضِ حرام قرار دیا۔۔۔۔۔۔ جس نے اپنی آبادی کو مکہ کے مقابل مکۃ المسیح بتایا۔۔۔۔۔۔ جس نے شہر لاہور کو مدینۃ الرسول کے مقابل ایک نیا مدینہ کہا۔۔۔۔۔۔ جس نے اپنے قبرستان کو خدا کی جنت کے مقابل مقبرہئ جنت کا نام دیا۔۔۔۔۔۔ جس نے اپنی بیویوں کو ازواجِ رسول کے مقابل امہات المومنین سمجھا۔۔۔۔۔۔ جس نے اپنے پیروکاروں کو امت رسول کے مقابل اپنی امت گردانا۔۔۔۔۔۔ جس نے اپنی بیٹی کو فاطمہ زہرا کے مقابل جنتی عورتوں کی سردار قرار دیا۔۔۔۔۔۔ جس نے ٹیچی کو جبریل کے مقابل فرشتہ وحی بتایا۔
مرزا صاحب اپنی نظر میں
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار

29.6.11

جھوٹے مدعیانِ نبوت

ماخوذ از : قادیانیت اور تحریک تحفظ ختم نبوت
شائع کردہ : ورلڈ اسلامک مشن ہالینڈ
    مال و دولت، اقتدار و حکومت،عزت و وجاہت اور ناموری و شہرت کی طلب و چاہت انسانی فطرت میں داخل ہے۔ ان چیزوں کے حصول کے لیے انسان وہ سب کام کر ڈالتا ہے جس کی اجازت نہ عقل دیتی ہے اور نہ دین۔ اس مقصد کے لیے جان و مال عزت و آبرو حتیٰ کہ ایمان بھی داؤ پر لگا دیا جاتا ہے، جس کی گواہی میں حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حال کی تاریخ میں بے شمار واقعات آسانی سے مل جائیں گے۔
    الوہیت کے بعد نبوت سب سے بڑا منصب ہے، اس منصب کے لیے سب سے اشرف مخلوق انسانوں میں سے ایسے مومن مرد کا انتخاب خداند قدوس خود کرتا ہے جو تمام انسانی خصائل حمیدہ کا جامع ہو، نبی اپنے دور کا انسانِ کامل ہی نہیں بلکہ مومن کامل اور خدائی انتخاب ہوتا ہے۔ اس میں کسب کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا کہ کوئی مرد یا عورت اپنے اخلاق و اعمال اور غیر معمولی صلاحیتوں اور کوششوں سے اسے حاصل کرسکے۔
    نبوت کی اس ناقابل انکار حقیقت کے باوجود بعض لالچی و نفس پرست اور مکار لوگ اپنی عقل و ذہانت، علم و دانائی اور اقتدار و حکومت کے بل بوتے پر اس خدائی منصب پر از خود فائز ہونے کی ناپاک و ناکام جرأت سے باز نہیں رہے اور جھوٹا دعوائے نبوت کر بیٹھے۔ مرد تو مرد عورتیں بھی پیچھے نہیں رہیں۔
    دورِ رسالت سے اب تک دعوائے نبوت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے، اخبارات اور رسالوں میں خبر چھپی کہ ندوہ کے پڑھے ہوئے مسیح الدین ندوی نامی ایک شخص نے حیدرآباد دکن میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور وہاں مخالفت ہوئی تو ناگپور میں آکر پناہ لی اور گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوا۔
    تاریخ اسلام میں اس طرح کے بہت سے افراد ملیں گے جنہوں نے دعوائے نبوت کیا۔ ان میں بعض بہت مشہور ہوئے اور بعض گمنام ہوگئے۔ بذریعہ وحی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم تھا کہ بعض جھوٹے نبی پیدا ہوں گے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی ان لوگوں سے امت کو آگاہ فرمادیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ''انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین لا نبی بعدی'' (مسند احمد ج ٥/ ص ٢٧٨) کہ بیشک میری امت میں تیس کذاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے کو نبی کہے گا جبکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ دورِ رسالت کے مشہور مدعیانِ نبوت میں مسیلمہ کذاب و اسود عنسی اور سجاح بنت حارث گزرے ہیں۔
اسود عنسی
    اس کا اصل نام عیلہ تھا۔ عنس بن قد حج کی نسبت کی وجہ سے عنسی مشہور ہوا۔ یہ ایک چرب زبان کاہن تھا۔ اس نے اپنی چرب زبانی اور کہانت کے زور پر بہت سے ضعیف الاعتقاد لوگوں کو اپنا گرویدہ اور پیروکار بنالیا۔ جب ان لوگوں پر اس نے پورا قابو پالیا تو نبوت کا دعویٰ کردیا اور کہنے لگا کہ مجھ پر خدا کی طرف سے وحی آتی ہے۔ جو فرشتہ لاتا ہے وہ گدھے پر سوار ہوتا ہے۔
اسی وجہ سے اسے ''ذو الحمار'' یعنی گدھے والا کہا جاتا ہے۔ اس کی پیشگوئیوں سے متاثر ہوکر لوگوں نے بلا لیت و لعل اسے نبی مان لیا۔
سرکوبی
    اس نے اپنے پیروکاروں پر مشتمل لشکر تیار کرکے یمن کے دارالسلطنت صنعاء پر دھاوا بول دیا۔ یہ دورِ رسالت کی بات ہے۔ اس وقت صنعاء پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ شہر بن باذان حاکم تھے جو مقابلے میں شہید ہوگئے اور اسود صنعاء کا حاکم بن گیا اور ان کی بیوہ مرزبانہ کو جبراً اپنے عقد میں لے لیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جو یمن کے دیگر علاقوں کے حاکم تھے، اس جابر و ملعون مدعی نبوت کی سرکوبی کے لیے متعین فرمایا۔
    ان دونوں حضرات نے مرزبانہ سے رابطہ کرکے اسود عنسی کے قتل کا منصوبہ ترتیب دیا۔ ایک رات مرزبانہ نے اسود کو کافی مقدار میں خالص شراب پلا کر مدہوش کردیا اور مرزبانہ کے چچازاد بھائی حضرت فیروز دیلمی اپنے ساتھیوں کی مدد سے مکان میں نقب لگا کر اندر داخل ہوگئے اور ملعون کا کام تمام کردیا۔ پہرے داروںنے ملعون کی خوفناک آواز سنی تو گھبرا کر دوڑے لیکن مرزبانہ نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے انہیں روک دیا کہ خاموش رہو تمہارے نبی پر وحی اتر رہی ہے۔ چنانچہ وہ خاموشی سے چلے گئے۔
    جب اذانِ فجر میں موذن نے ایک شہادت کا اضافہ کرکے کہا ''اشھد ان عیلۃ کذاب'' تو سب کو قتل کی اطلاع ہوگئی اور اس کے پیروکار میں سے بہت سے مارے گئے اور بہت سے مشرف باسلام ہوگئے۔
    فوراً یہ خوشخبری مدینہ بھیجی گئی مگر جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوچکا تھا۔ رحلت سے ایک رات پہلے بذریعہ وحی الٰہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمادیا تھا کہ آج رات اسود عنسی مارا گیا ہے اور ایک مردِ مبارک نے اسے مارا ہے، اس کا نام فیروز ہے۔ پھر فرمایا ''فاز فیروز'' کہ فیروز کامیاب ہوگیا۔ اس طرح یہ ناپاک مدعی نبوت انجام کو پہنچا۔
مسیلمہ کذاب
    اس کا نام مسیلمہ بن ثمالہ تھا۔ اختلافِ روایت سن نو ہجری یا دس ہجری میں نجد کے وفد بنو حنیفہ کے ساتھ یہ بھی مدینہ آیا۔ اس کے سوا تمام ارکان وفد نے حاضر دربارِ رسالت ہوکر اسلام قبول کرلیا مگر یہ محروم رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیام گاہ پر جاکر فرمایا ''اگر تو میرے بعد زندہ رہا تو حق تعالیٰ تجھے ہلاک فرمائے گا''
    ایک دوسری روایت کے مطابق یہ بھی مسلمان ہوگیا تھا مگر نجد جاکر مرتد ہوگیا اور نبوت کا دعویٰ بھی کردیا۔ شراب و زنا کو حلال کیا، نماز کی فرضیت ساقط کردی۔ یہ ایک بوڑھا اور انتہائی مکار انسان تھا۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ایک خط میں لکھا کہ ''زمین آدھی ہماری ہے اور آدھی قریش کی، مگر قریش زیادتی کرتے ہیں'' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً اسے لکھا ''اللہ کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے جھوٹے مسیلمہ کی طرف۔ اما بعد! کُل روئے زمین اللہ کی ہے، وہ جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے، اور بھلی عاقبت پرہیزگاروں کے لیے ہے''
سرکوبی
    یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی زندہ رہا۔ خلیفہ اوّل حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام کے اجماع اورمشورے سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے چوبیس ہزار کے لشکر کی مدد سے اس کی سرکوبی کے لیے جہاد کیا۔ جھوٹا مسیلمہ چالیس ہزار کے لشکر جرار کے ساتھ مقابلے پر آیا مگر خدائی مدد کے آگے ناکام ہوا اور جہنم رسید ہوا۔ اس عظیم جہاد میں بارہ سو صحابہ و تابعین نے اٹھائیس ہزار منکرین ختم نبوت کو جہنم رسید کرکے جام شہادت نوش کیا۔
سجاح بنت حارث
    یہ ایک عورت تھی جس نے بنی تغلب میں اپنی نبوت کا دعویٰ کیا۔ چند ہوس پرست اس کے ہمنوا ہوگئے۔ یہ مسیلمہ ہی کے دور کی ہے۔ جھوٹے نبی نے جھوٹی مدعیہ نبوت کی مقبولیت سے خائف ہوکر مبارکباد اور تحفے بھیجے اور ملاقات کرکے اس سے شادی بھی کرلی۔ مہر میں سجاح کے پیروکاروں سے صبح و عشاء کی نماز ساقط کردی گئی۔ اتنے میں حضرت خالد کا لشکر آپہنچا اور ان پر غالب آیا۔ ایک روایت کے مطابق سجاح اور اس کے پیروکاروں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔
طلیحہ
    عہدنبوت کے بعد اس نے دعوائے نبوت کیا۔ یہ قبیلہ بنی اسد سے تھا۔ اس کی سرکوبی کا فریضہ بھی دورِ صدیقی میں حضرت خالد بن ولید کے ذریعے انجام پایا۔ قبیلہ فزار کے لوگ اس کے پیروکار تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی کمان میں اس کی سرکوبی کے لیے اسلامی لشکر بھیجا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بنی طے میں پہنچے اور کوہِ سلمی اور کوہِ جاوا کے درمیان یہ لشکر ٹھہر گیا۔ آس پاس کے مسلمان بھی شریک لشکر ہوگئے۔ سب نے مل کر طلیحہ اور اس کے مکار حواری علینیہ بن حصین فزاری اور دیگر فزاریوں سے جنگ کی۔ فزاریوں کو شکست کا منہہ دیکھنا پڑا اور وہ اپنے سردار علینیہ سمیت اپنے جھوٹے نبی طلیحہ کو بے یار و مددگار چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
انجام
    طلیحہ نے پہلے تو فرار کی راہ اختیار کی لیکن بعد میں امان لے کر حضرت خالد بن ولید کے پاس حاضر ہوگیا اور مسلمان ہوگیا۔ حتیٰ کہ جہادوں میں حصہ لیا۔ ایران کے محاذوں پر حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جہاد کیا اور دورِ فاروقی میں حضرت ساریہ کے ساتھ جنگ نہاوند میں شرکت کی اور شہادت پاکر داخل جنت ہوا اور انجام بخیر ہوا۔
مختار بن عبید ثقفی
    اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا جس کی سرکوبی حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔ زمانہ خلافت راشدہ کے بعد بھی کچھ طالع آزماؤں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ارتداد و دعوائے نبوت کی وجہ سے انہیں مسلم حکمرانوں اور اس عہد کے علماء و مشائخ نے انہیں خارج از اسلام قرار دینے کے ساتھ ساتھ گرفتار کرکے سزائے موت دی۔ حتیٰ کہ بعض عرصے تک عبرت کے لیے سولی پر لٹکا کر رکھے گئے۔
    عبد الملک بن مروان کے زمانے میں حارث نام کے ایک شخص نے دعوائے نبوت کیا اور اپنے شرعی اور منطقی انجام کو پہنچا۔
    ہارون رشید کے دور میں بھی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ میں نوح علیہ السلام ہوں۔ کیونکہ (اصلی) نوح علیہ السلام کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی جو ایک ہزار سے پچاس کم تھی جس کے پورا کرنے کے لیے اب اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اور اپنے دعویٰ پر قرآن مجید سے دلیل دی کہ ''الف سنۃ الا خمسین عاما''' فرمایا گیا ہے، یعنی نوح علیہ السلام دنیا میں پچاس سال کم ایک ہزار سال زندہ رہے۔
    اسے بھی اس دور کے علمائے سلف کے اتباع میں مرتد قرار دے کر قتل کا حکم دیا اور اسے بھی سولی دی گئی (کتاب المحاسن و المساوی، جلد اوّل، صفحہ ٦٤/ از امام بیہقی)

 

تحریک تحفظ ختم نبوت اور علامہ شاہ احمد نورانی

تحریک تحفظ ختم نبوت اور علامہ شاہ احمد نورانی

عقیدہ ختم نبوت اسلام کی اساس اور وہ بنیاد ہے جس پر دین اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے، یہی وہ عقیدہ ہے جوجسد اسلا م کی روح ہے، یہی وجہ ہے کہ اس عقیدہ کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر مسلمان ہر دور میں تحفظ ختم نبوت کیلئے بڑے حساس اور چوکس رہے ہیں، تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جب بھی کسی کمینہ خصلت نے قصر نبوت پر ڈاکہ زنی کی ناپاک جسارت کی، غیور مسلمانوں کی تلواریں اللہ کا انتقام بن کر اس کی طرف لپکیں اور اس جہنم واصل کر دیا،مسلمانوں کی تاریخ اس عقیدے کے تحفظ کیلئے قربانیاں دینے والوں سے بھری ہوئی ہے ، ختم نبوت اتنا اہم مسئلہ ہے کہ قرآن مجید میں سو سے زائد مقامات پر اس کا واضح الفاظ میں ذکر موجود ہے جبکہ خودرسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کم و بیش دو سے زائد احادیث مبارکہ میں اس امر کی وضاحت مختلف پیرائے میں کی کہ پوری امت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم نبوت کے مسئلہ پر یکسو اور متحد ہو گئی اور یہ پوری امت کا متفقہ عقیدہ قرار پایا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے لے کر آج تک ہر دور میں دنیا کے حریص اور طالع آزماﺅں نے جھوٹ، فریب، مکر و دجل اور شعبدے بازیوں سے قصر نبوت میں نقب لگانے کی جسارت کی، مگر امت مسلمہ اس جعلسازی کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیشہ مستعد رہی،مسیلمہ کذاب،طلیحہ بن خویلد ،اسود عنسی سے لے کر مرزا قادیانی تک امت مسلمہ نے ہر دور میں ان نقب زنوں کا کامیاب تعاقب کیا ، 1901ئ میں جب سے مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے خود ساختہ نبی ہونے کا اعلان کیا،تو علماءو مشائخ نے اس فتنے کے سدباب اورہر میدان میں قادیانیت کا محاسبہ جاری رکھا۔

بیسویں صدی کا آغاز امت مسلمہ کیلئے جن بدترین حالات میں ہو ا،اس کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،لیکن اس تاریک دور میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے امت کو ایسے افراد سے نوازا جنھوں نے کفر و طاغوت اور ظلم و استحصالی نظام کے خلاف ہر محاذ پر چومکھی لڑائی لڑی ،ان نفوس قدسیہ میں حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو ایک ممتاز اورمنفرد مقام حاصل ہے،علامہ شاہ احمد نورانی کی زندگی اسلام کے عملی نفاذ،دینی قوتوں اورجمہوری اداروں کی فروغ وبقا،پاکستان کے استحکام و سا لمیت، مسلم وحدت کی مسلسل جدوجہد ، احیائے اسلام اور کفر کے خلاف عالم اسلام کی بیداری سے عبارت ہے۔

یکم اپریل 1926ءمیں مبلغ اسلام سفیر پاکستان حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی رحمتہ اللہ علیہ کے گھر پیدا ہونے والے اس فرزند ارجمند نے زندگی بھر اپنے ایمان ،ضمیراور نسبی تقاضوں کوسامنے رکھ کر احقاق حق اور ابطال ِ باطل شمع روشن رکھی،علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی زندگی کا واحد مشن ملک خداداد پاکستان میں نظام مصطفی کا نفاذ اور مقام مصطفی کا تحفظ تھا،جناب شاکر حسین خان ریسرچ اسکالر علوم اسلامی جامعہ کراچی اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ

 ”قیام پاکستان کے بعد علماءو مشائخ نے 1953ءمیں قادیانیوں کے خلاف تحریک چلائی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی،اس کے باوجود علمائے حق نئی حکمت عملی سے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے اور ہر محاذ پر قادیانیوں کے سامنے سینہ سپر رہے،وہ علماءجنہوں نے حق کی آواز کو تحریک ختم نبوت 1953ءکی ناکامی کے بعد دوبارہ بلند کیا، ان میں روشن و تابندہ نام مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کا ہے،جنہوں نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے بھر پور طریقے سے عملی جدوجہد جاری رکھی،قادیانیوں کے خلاف تحریک چلائی اور ان کی ہر موڑ پر مخالفت کرتے رہے،مولانا کو قادیانیوں کی مخالفت کرنا ورثے میں ملی تھی،ان کے والد مولانا شاہ عبد العلیم صدیقی قادیانیوں کے اہم مخالفین میں سے تھے،انہوں نے افریقہ ،یورپ،سیلون ،انڈونیشیا، ملائیشیا،برما،اور عرب ریاستوں میں قادیانیت کے خلاف مہم چلائی اور ان کے رد میں انگریزی زبان میں ”The Mirror“ نامی کتاب لکھی۔۔۔۔۔انہوں نے ایک کتاب اردو میں بھی تحریر کی،جس کا نام ”مرزائی حقیقت کا اظہار “ ہے،اس کتاب کا ملائیشیا کی زبان میں ترجمہ شائع ہوا تو وہاں قادیانیوں کے خلاف زبردست تحریک چلی،جس کے بعد ملائیشیا میں قادیانیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا، چنانچہ مولانا نورانی نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قادیانیوں کی مخالفت کی اور ہمیشہ ان کے آگے آہنی چٹان کی مانند کھڑے رہے۔“ بحوالہ ماہنامہ پیام حرم کراچی ،نومبر 2005 ءص23

علامہ نورانی 1971میں پہلی بار جمعیت علماءپاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے،15اپریل 1972ء کو قومی اسمبلی کا سہ روزہ افتتاحی اجلاس شروع ہواتوعلامہ نورانی نے اجلاس کے پہلے ہی روز جمعیت علماء پاکستان کے پارلیمانی قائد کی حیثیت سے عبوری آئین کے حوالے سے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کو اپنا موضوع گفتگو بنایا، یہ پاکستان کی تاریخ میں قومی اسمبلی کے فلور پر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں بلند ہونے والی سب سے پہلی آواز تھی،قومی اسمبلی میں اپنے اوّلین خطاب میں علامہ نورانی نے آئین کے اندر مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا پرزور مطالبہ کیااور کہا کہ ” جو لوگ حضور اکرم صلی للہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے ہم ان کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔“

آپ کے اس مطالبے کا مقصد پاکستان کے اس اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں پر عقیدہ ختم نبوت کے مخالف قادیانیوں اور غیر مسلموں کے فائز ہونے کے امکانات کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ تھا،دراصل علامہ نورانی کا آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا مطالبہ قادیانیوں کو کافر اور غیرمسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک کانقطہ آغاز اور 1974ءکی تحریک ختم نبوت کی بنیادی اساس تھا، اس اجلاس میں مولانا نورانی نے مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ”مسلمان وہ ہے کہ جو کتاب وسنت اور ضرویات دین پر یقین رکھتا ہو اور قرآن کو ان تشریحات کے مطابق مانتا ہو جو سلف صالحین نے کی ہیں،نیز حضور صلی للہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرتا ہو،اگراسلامی آئین میں مسلمان کی یہ تعریف شامل نہ کی گئی تو ہم ایسے آئین کو اسلامی آئین نہیں کہیں گے“ بحوالہ مولانا شاہ احمد نورانی ایک عالم ایک سیاستداں ،ص 102-103

چنانچہ 17اپریل 1972ءکوجمعیت علماءپاکستان اور متحدہ اپوزیشن کی جانب سے مسلمان کی جامع تعریف کو پہلی بار اسمبلی میں پیش کی گئی، جسے بعد میں 1973ءکے آئین میں شامل کرلیا گیا،علامہ نورانی کی کوششوں کی بدولت مسلمان کی تعریف پاکستان کے آئین کا حصہ بن چکی تھی، دراصل آئین میں اس تعریف کی شمولیت نے قادیانیوں کو ایک ایسی غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا، جس کا مستقبل میں صرف اعلان ہونا ہی باقی رہ گیا تھا، اس تعریف کی شمولیت سے قادیانیوں کو بھی یہ یقین ہو چلا تھا کہ وہ ایک غیر اعلانیہ غیر مسلم اقلیت قرار پاچکے ہیں، علامہ شاہ احمد نورانی پاکستان کی پارلیمانی اورآئینی تاریخ میں پہلے سیاستدان تھے، جنہوں نے سب سے پہلے آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا مطالبہ کیا اورآپ نے آئین سازی کیلئے قائم کمیٹی میں سب سے پہلی ترمیم مسلمان کی تعریف اور اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دینے سے متعلق پیش کی۔

مولانا نورانی کو منکرین ختم نبوت قادیانیوں اور قادیانیت سے شدید نفرت تھی اور اسی نفرت نے انہیں زندگی بھر قادیانیت کے خلاف مصروف جہاد رکھا،قیام پاکستان کے بعد امت مسلمہ کو امید تھی کہ ایک اسلامی نظریاتی ملک ہونے کی وجہ سے حکومت وقت عوام کے مذہبی جذبات و احساسات کا خیال کرتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے گی،لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوااور وقت کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا،یہاں تک قادیانیوں کی اسلام اور ملک دشمن سرگر میوں کی وجہ سے امت مسلمہ کی نفرت نے 1953ءکی تحریک ختم نبوت کو جنم دیا، جسے حکومت نے طاقت کے بل پر وقتی طور پر دبالیا،لیکن قادیانی ذ رّیت سے یہ نفرت امت مسلمہ کے دلوں میں سلگتی رہی،علامہ نورانی جو کہ نوجوانی میں تحریک ختم نبوت 1953ءمیں جیداکابر علماء کے ساتھ”علماءبورڈ کے ممبر اور مجلس عمل تحفظ ختم نبوت سندھ کے جنرل سیکرٹیری“کی حیثیت سے مرکزی کردار ادا کرچکے تھے۔

اس تحریک کی ناکامی کے اسباب و عوامل سے پوری طرح واقف تھے، چنانچہ آپ نے تحفظ ختم نبوت اور عظمت مصطفی کو مملکت کا قانون بنانے اور آئینی تحفظ دینے کیلئے کام کرنا شروع کردیا، اس سفر کی کامیاب ابتداءآئین میں مسلمان کی تعریف کی شمولیت ،ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ،دیگر اسلامی دفعات کو آئینی تحفظ دینے کے علاوہ عائلی قوانین کی تنسیخ ، تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کیلئے مسلمان ہونے کی شرط ، فتنہ ارتداد کو روکنے کی ضمانت حاصل کرنے اور پاکستان کے دستور کو دو قومی نظریے سے ہم آہنگ کرنے کی کوششوں سے ہوچکی تھی اور آپ اپنے اہداف پر نظر رکھے ہوئے مرحلہ وار اس منزل کی جانب رواں دواں تھے۔

علامہ نورانی29اپریل 1973ءکو آزاد کشمیر اسمبلی میں میجر (ریٹائرڈ)محمد ایوب کی متفقہ طور پرمنظور کی جانے والی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرار داد سے بھی اچھی طرح واقف تھے اور محسوس کررہے تھے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرار داد پاکستان کی نیشنل اسمبلی کو بھی منظور کرکے پاکستان کے مسلمانوںکے جذبات کی ترجمانی کرنی چاہیے،واضح رہے کہ میجر (ریٹائرڈ) محمد ایوب کی قرار داد کا اصل محرک اور اس کی بنیاد 17اپریل 1972ءکوپاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کردہ مسلمان کی وہ متفقہ تعریف تھی جسے علامہ نورانی اور آپکے رفقاءنے تیار کیا تھا ،آزاد کشمیر اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ایک نئی تاریخ ہی رقم نہیں کی بلکہ پاکستان کی نیشنل اسمبلی کے اراکین کیلئے بھی آئندہ کا لائحہ عمل متعین کردیا تھا۔

مرزائی آئین میں مسلمان کی تعریف کی شمولیت سے پہلے ہی سخت پریشان تھے کہ آزاد کشمیر اسمبلی میں قادیانیوں کے خلاف قراردادکی منظوری نے ان کے تمام خدشات کو یقین میں بدل دیااور انہیں محسوس ہونے لگا کہ عنقریب اب پاکستان کی قومی اسمبلی میں موجود علماءان کے مستقبل کے بارے میں قرار داد پیش کرکے ان کیلئے رہے سہے راستے بھی بند کردیں گے اس صورتحال نے مرزا ناصر کو اس قدر سیخ پا کردیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہذیان بکنے لگا، اتفاق سے اسی دوران سانحہ ربوہ پیش آگیا،جس نے قادیانیوں کے خلاف عوامی نفرت کو مزید گہرا کردیا،بعد میں یہی سانحہ تحریک ختم نبوت 1974ءکی اصل بنیاد بنا،علامہ شاہ احمد نورانی جو کہ تمام حالات کا نہایت ہی باریک بینی سے جائزہ لے رہے تھے ، نے محسوس کیا کہ اب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کیلئے آئینی اور قانونی جنگ لڑنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے، چنانچہ 30، جون 1974ءکو آپ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے تاریخ ساز قراردادقومی اسمبلی میں پیش کی ،جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔

اس حوالے سے رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن لکھتے ہیں کہ ”علماء اس سے پہلے بھی موجود تھے۔۔۔۔ مگر یہ سعادت ماضی میں کسی کے حصے میں بھی نہیں آئی،تاریخ پاکستان میں پہلی بار ایک مرد حق ،پیکر صدق و صفا ،کوہ استقامت اور حاصل جرات و شجاعت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی اسمبلی میں پہنچے اور فتنہ انکار ختم نبوت یعنی قادیانیت کو کفر و ارتداد قرار دینے کی بابت قرار داد قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ،تاریخ اسلام میں ریاست و مملکت کی سطح پر فتنہ انکار ختم نبوت کو کفروارتداد قرار دینے اور ان کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کا اعزاز جانشین رسول خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوااور ان کے بعد یہ اعزاز انہی کی اولاد امجاد میں علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو نصیب ہوا۔“بحوالہ ماہنامہ کاروان قمر کراچی نومبر دسمبر 2004ءص 20

قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی جو کہ پورے ایوان پر مشتمل تھی نے دو ماہ میں قادیانی مسئلے پر غور خوض کیلئے 28اجلاس اور 96نشستیں منعقد کیں،اس دوران قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے روبرو قادیانی گروہ کے سرخیل مرزا ناصر، لاہوری گروپ کے امیر صدرالدین اور انجمن اشاعت اسلام لاہور کے عبدالمنان اور مسعود بیگ پر ان کے عقائد و نظریات،ملک دشمنی اور یہودی و سامراجی گٹھ جوڑ کے حوالے سے جرح ہوئی،علامہ نورانی فرماتے ہیں کہ ” مسلسل گیارہ روز تک مرزا ناصر پر جرح ہوتی رہی اور سوال اور جوابی سوال کیا جاتا رہا،مرزا کو صفائی پیش کرتے کرتے پسینہ چھوٹ جاتااور آخر تنگ آکر کہہ دیتا کہ بس اب میں تھک گیا ہوں،اسے گمان نہیں تھا کہ اس طرح عدالتی کٹہرے میں بٹھاکر اس پر جرح کی جائے گی۔۔۔۔ وہ اپنا عقیدہ خود اراکین اسمبلی کے سامنے بیان کرگیا اور اس بات کا اعلان کرگیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی حضور صلی للہ علیہ وسلم کے بعد مسیح موعود اور امتی نبی ہے،جن اراکین اسمبلی کو قادیانیوں کے متعلق حقائق معلوم نہیں تھے،انہیں بھی معلوم ہوگیااور انہیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ مولانا نورانی جنہیں اقلیت قرار دلوانے کی سعی کررہے ہیں وہ لوگ واقعی کافر،مرتداور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔“بحوالہ ماہنامہ ضیائے حرم ختم نبوت نمبر 1974ء

قادیانی مسئلے پر فیصلہ کرنے کیلئے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے قادیانی مسئلہ کو جانچنے اور پرکھنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں چھوڑا،کمیٹی کی کارکردگی اور اس کی کاروائیوں پر حزب اختلاف کے لیڈروں نے بھی پورے اطمینان کا اظہار کیا،اس طویل جمہوری و پارلیمانی کاروائی کے بعد قومی اسمبلی نے پورے تدبر سے کام لیتے ہوئے 7، ستمبر 1974ءکو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی میں آئین کی وہ واحد ترمیم منظورکی جس کی مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیااور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ ”جو شخص خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی صلی للہ علیہ وسلم کی حتمی اور غیر مشروط ختم نبوت میں یقین نہیں رکھتا یا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے،کسی بھی لفظ یا بیان کے ذریعے حضرت محمد صلی للہ علیہ وسلم کے بعد ایک ایسے دعویدار کو نبی تسلیم کرتا ہے،یا کہ مذہبی مصلح جانتا ہے،وہ آئین یا قانون کی رو سے مسلمان نہیں ہے۔“

یوں جہاں علامہ شاہ احمد نورانی کی پیش کردہ قرار داد کی منظور ی نے ختم نبوت کے ہر منکر کو خارج اسلام قرار دے دیا،وہاں اس قرارداد کی منظوری نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عہد حکومت کوایک منفرد اعزاز سے مشرف کردیا ، 1973ءکا آئین ملک کا پہلا آئین تھا ، جس میں پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ، مملکت کا مذہب اسلام ،جس کی حفاظت کی ذمہ دار مملکت، مسلمان کی تعریف کی شمولیت اور قرآن و سنّت کے منافی کو ئی قانون نہ بنانے کی شقوں کی وجہ سے 1956ئ، 1962ءکے آئین سے قدرے ممتاز تھا، لیکن قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم نے اس آئین کو دنیا کے تمام اور بالخصوص اسلامی ممالک کے دستاتیر میں ایک منفرد اور انوکھا اعزاز بخشا، وہ اعزاز یہ تھا کہ اس آئینی ترمیم کے زریعے اسلام کے ایک بنیادی عقیدے عقیدہ ختم نبوت جس پر اسلام کی بنیاد قائم ہے اور جس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں علمائے کرام قرآن و سنّت کی رو سے اس کے غیر مسلم ہونے کا اعلان کرتے تھے کو آئینی اور قانونی تحفظ دے کر اسے مملکت پاکستان کا ایک ایسا قانون بنادیا گیا تھا جس کی ر ±و سے عقیدہ ختم نبوت پر یقین نہ رکھنے والا اور آپ صلی للہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور شخص کی نبوت کو ماننے والا کافر و مرتد ،خارج اسلام اور غیر مسلم اقلیت قرار پایا۔

اس لحاظ سے 1973ءکادستور دنیا کے تمام دستاتیر میں منفرد حیثیت اور ممتاز مقام رکھتا ہے، علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی برصغیر پاک و ہند میں تحریک ختم نبوت کے قائدِ آخر ہیں ،آپ کے ہاتھوں پاکستان کی قومی اسمبلی کے ذریعے اس نوے سالہ فتنے کا اختتام ہوااور تحریک ختم نبوت اپنے منطقی انجام تک پہنچی، جناب شاکر حسین خان ریسرچ اسکالرعلام اسلامی جامعہ کراچی لکھتے ہیں کہ ” بے شک علامہ شاہ احمد نورانی عصر حاضر میں عاشقان مصطفی کے سردار ہیں،آپ نے مقام مصطفی کے تحفظ کیلئے بے پناہ خدمات سرانجام دیں،آپ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنے موقف پر ڈتے رہے،اللہ تعالیٰ جس سے کام لینا چاہے لے لیتا ہے،اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو چناآپ نے جو کارنامہ سرانجام دیا وہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا،جس کی بدولت آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔“بحوالہ ماہنامہ پیام حرم نومبر 2006ص 26

جھوٹے مدعیان نبوت   عن  ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال لا تقوم الساعۃ حتٰی یبعث دجالون کذابون قریب من ثلاثین کلھم یزعم انہ رسول ...